مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزبیانات دینے کے لئے مشہور تلنگانہ بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ نے پارٹی سے استعفی دینے کا اعلان کیا ہے ، تلنگانہ میں پارٹی قیادت کے ساتھ گزشتہ کچھ دنوں سے ٹی راجہ سنگھ کا تنازعہ چل رہا تھا، اور آج اس کا نتیجہ سبھی کے سامنے آ گیا ہے۔
دراصل بی جے پی اعلیٰ قیادت نے این رام چندر راؤ کو ریاستی بی جے پی صدر بنانے پر اتفاق ظاہر کر دیا ہے، جس سے ٹی راجہ سنگھ ناراض ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اسی ناراضگی کے سبب انھوں نے موجودہ ریاستی صدر بنڈی سنجے کمار کو اپنا استعفیٰ نامہ سونپ دیا ہے۔ راجہ سنگھ نے اس استعفیٰ کو لاکھوں کارکنان کی آواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ان کے لیے دردناک ہے، لیکن یہ بہت ضروری بھی تھا۔
ٹی راجہ سنگھ نے تلنگانہ بی جے پی صدر جی کشن ریڈی کو لکھے خط میں کہا کہ این رام چندر راؤ کی تقرری سے پارٹی کارکنان اور لیڈران میں گہری مایوسی پھیل گئی ہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ کچھ لوگوں نے مرکزی قیادت کو گمراہ کر کے یہ فیصلہ کروایا ہے، جو پارٹی کے مفادات کی جگہ ذاتی مفاد سے متاثر ہے۔
گوشہ محل سے رکن اسمبلی راجہ سنگھ کا کہنا ہے کہ تلنگانہ میں بی جے پی حکومت سازی کے دہانے پر تھی، لیکن غلط قیادت کے انتخاب سے یہ موقع ہاتھ سے نکلتا نظر آ رہا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی ظاہر کیا کہ وہ بی جے پی چھوڑنے کے باوجود ہندوتوا کے نظریات اور گوشہ محل کے لوگوں کی خدمت کو لے کر پرعزم رہیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’’میرا یہ قدم نظریات کے خلاف نہیں، بلکہ قیادت کے فیصلوں کے خلاف ہے۔ میں ہندو طبقہ کے ساتھ مزید مضبوطی سے کھڑا رہوں گا۔‘‘ انھوں نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت وزیر اعظم نریندر مودی، جے پی نڈا، امت شاہ اور بی ایل سنتوش سے اس معاملے پر از سر نو غور کرنے کی اپیل بھی کی۔
ٹی راجہ سنگھ طویل عرصے سے اپنے مسلم مخالف بیانات اور اشتعال انگیز تقاریر کی وجہ سے خبروں میں رہے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے کئی مواقع پر نفرت پھیلانے والی باتیں کیں، جن سے فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہوا۔ 2022 میں، ان کے ایک متنازعہ بیان کی وجہ سے تلنگانہ پولیس نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا، اور بی جے پی نے انھیں عارضی طور پر معطل بھی کیا تھا۔ ان کے بیانات پر سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اکثر تنقید ہوتی رہی ہے، لیکن ان کے حامی انھیں ہندوتوا کی "بے باک آواز” کے طور پر پیش کرتے ہیں۔