مسجد نبوی کے طرز پر مسجدوں کو عملاً مربوط رکھنا انقلابی اقدام 

الکل ضلع باگل کوٹ میں مولانا غیاث احمد رشادی صاحب کا خطاب

23 جولائی 2024(فکروخبر/پریس ریلیز)مولانا ابراہیم شعیبی صاحب ترجمان منبر ومحراب فاؤنڈیشن کرناٹک کی اطلاع کے بموجب ملک گیر سطح پر جاری پندرہ نکاتی شعوربیداری مہم کے ضمن میں کرناٹک کے تعلقہ اِلکل میں ایک عظیم الشان اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہمدرد قوم وملّت مفسرِ قرآن حضرت مولانا غیاث احمد رشادی مدظلہ بانی منبر ومحراب فاؤنڈیشن نے مکی و مدنی معاشرہ کے تاریخی دور کو بتاتے ہوئے کہا کہ ہماری مسجدوں کو مسجد نبوی کر طرز پر عملاً مربوط رکھنا ملک کے موجودہ حالات میں انتہائی ناگزیر ہے اور اگر مسجد کے ذمہ داران اس اقدام کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں تو یہ ایک انقلابی اقدام ہوگا۔ مولانا نے نوجوانوں سے کہا کہ صحابہ کا زمانہ بڑا پاکیزہ زمانہ تھا، وہ زمانۂ جاہلیت کی عداوت، نفرت، دشمنی، قتل وغارت گری سے نکل کر مدینہ طیبہ تشریف لائے تھے اور یہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راست تربیت اور نگرانی میں تھے۔ مدینے میں ایک ایسا مثالی معاشرہ انہوں نے قائم کیا، جس کی مثال مشکل ہے ۔مولانا نے کہا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مدنی معاشرے کی بنیادقائم کرنے کے لیے چار اہم ترین کاموں کی تلقین کی جس میں سے تین کا تعلق مخلوق سے اور ایک کا تعلق خالق سے ہے۔ سلام کو خوب پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ،آپس میں صلہ رحمی کرو، رات کے ایک حصہ میں اللہ کو یاد کرواور دین کا تعارف پیش کرتے ہوئے  ایک جملہ میں ارشاد فرمایا  اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃ  دین ایک دوسرے کی بھلائی چاہنے کا نام ہے۔ اگر ہمارے دل میں دوسروں سے متعلق بھلائی چاہنے کا جذبہ ہے تو اسی کا نام دین ہے۔ واضح ہو کہ مولانا غیاث احمد رشادی گزشتہ ایک سال سے ملک کی مختلف ریاستوں کے اپنی ملک گیر تحریک کو لیے اسفار میں مصروف ہیں اور بے دین افراد کو دینداری کے جانب مائل کرنے کی نئی تدبیروں کا شعور عوام الناس اور خواص میں پیدا کررہے ہیں ۔ مولانا نے بزرگان دین کی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بزرگان دین کے یہاں لنگروں کا نظام تھا،ہمدردی و غم خواری کا یہ عالم تھا کہ ہر کوئی ان کے یہاں آجاتا اور حلقہ بگوش ہو کر کامل انسان بن جاتا۔ بزرگانِ دین کے یہ اصول ہر ایک سے اپنائیت اور محبت سے پیش آنا معاشرے میں اس کی آج بہت کمی ہے۔ مولانا نے کہا کہ ہمیں بے خوف ہو کر زندگی گزارنا ہے۔ شریعت میں مایوسی بزدلی اور ناامیدی کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اسلام کی نگاہ میں یہ کفر کا درجہ رکھتی ہے۔ آپس میں مل جل کر اور بلند حوصلوں کے ساتھ زندگی گزارنا اس وقت کا اہم تقاضا ہے اور ہمیں پیار محبت سے رہنا ہے۔ مدنی معاشرہ کا بنیادی عنصر اجتماعیت تھا اور یہی چیز انقلاب پیدا کر سکتی ہے۔ ہم سب کو مجموعی اعتبار سے مل جل کر مذہب کی بنیاد پر متحد ہونا ہے۔ مسلکی بھید بھاؤ کو بالائے طاق رکھ کر ہمیں زندگی گزارنا ہے۔ اگر عملاً ایسا ہوجائے تو یقینا ہماری تاریخی تبدیلی کا یہ پہلا قدم ہوگا۔ مولانا نے اپنے خطاب میں کہا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء اللہ کی زندگی کا عملی نمونہ بن کر ہی مسلمان فاتح بن سکتے ہیں۔ اس اجلاس میں منبر و محراب فاونڈیشن ریاست کرناٹک زون کے صدر مولانا نذیر احمد رشادی صاحب نے مستورات کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذہب اسلام نے عورت کو بڑا مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔ اسلام کی آمد سے قبل دور دور تک عورت کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں تھا۔ بڑے مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد شریعت نے ان کے حقوق اور انہیں بلند مقام ومرتبہ عطا کیا۔ اگر کوئی ماں ہے تو کہا  الجنۃُ تحتَ اقدام الامّہات جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ اولاد چاہے تو والدین کی خدمت و فرمانبرداری کرکے جنت حاصل کر سکتی ہے یا نافرمانی اور ناقدری کر کے جہنم پاسکتی ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس والدین کی تین لڑکیاں ہوں اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کریں اور ان کا نکاح کرے تو والدین جنت کے مستحق ہیں۔ صحابہ نے پوچھا اگر کسی کی دو لڑکیاں ہوتو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ بھی جنتی ہیں۔ صحابہ نے پوچھا:اگر ایک لڑکی ہو تو؟ وہ بھی جنتی ہیں۔ والدین صرف نماز روزہ زکوٰۃ کے ذریعہ ہی جنت کے مستحق نہیں ہوتے بلکہ اپنی اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت اور ان کی نگہبانی سے بھی جنت حاصل کر سکتے ہیں ۔ مولانا نے مزید فرمایا کہ معاشرہ کے ماحول کا سدھار اور بگاڑ والدین کے ہاتھوں میں ہے۔ بے شمار بزرگانِ دین گزرے ہیں، ان کی تربیت کے پیچھے اپنی ماں کا کردار تھا۔اپنے بچوں کو مدارس اور مکاتب بھیجیں تاکہ ان کی بہترین تعلیم و تربیت ہو اور ان کے دین و ایمان کی حفاظت ہو اور خود بھی ملک گیر سطح پر قائم ان مراکز نسواں سے جڑ جائیں اور دین کی تعلیم حاصل کریں جس سے آپ خود دینی تعلیم یافتہ ہوں گی اور اپنے اولاد کو صحیح تعلیم و تربیت دے سکیں گی۔ پکا ارادہ کرکے جائیں، بتائے ہوئے اصول پر عمل پیرا ہو جائیں، یقیناً آج معاشرہ میں پھیلی ہوئی تمام بیماریاں دور ہو سکتی ہیں۔ اس ایک روزہ پروگرام میں مقامی علماء وحفاظ اور یوتھ کمیٹی کے بے شمار نوجوانوں نے شرکت کی، بالخصوص ریاض احمد صاحب، مولانا حسین صاحب رشادی،مفتی محمد حسن صاحب قاسمی،حافظ حسین صاحب، مفتی محمد عرفان صاحب قاسمی اور اطراف و اکناف کے متعدد علماء ودانشور حضرات بھی شریکِ اجلاس رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے