سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود اترپردیش ودیگر ریاستوں میں مدار س کے خلاف غیر قانونی کارروائیوں پر سخت برہمی کا اظہار کرتےہوئے جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ مدارس اسلامیہ کو مٹانے کی کوششیں برداشت نہیں کریں گے کیونکہ یہ ہماری شہ رگ ہیں۔ انہوں نے مدارس کی زریں خدمات سے لاعلم عناصر کو متنبہ کرتے ہوئےکہا کہ یہیں کے بوریا نشینوں نے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلانے کیلئے پہلی آواز دی۔ مدار س ہمارے دین اور مذہبی تشخص کے امین ہیں اور ہم کسی بھی طورپراس کی شناخت کو نہیں مٹانے دیں گے۔ انہوں نے اس کا اعادہ کیا کہ مدارس کے خلاف غیر قانونی کاررروائی سپریم کورٹ کے احکاما ت کی توہین کے مترادف ہے۔ یکم جون کی شب میں اعظم گڑھ کے قصبہ سرائے میرمیں منعقدہ ’’تحفظ مدارس کانفرنس‘‘سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ کوئی عام اجلاس نہیں بلکہ موجودہ صورتحال میں مدارس کے تحفظ کو یقینی بنانے اور اس پرسنجیدگی سے غوروخوض اور مستقبل کا لائحۂ عمل طے کرنے کے عزم کا اظہار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مدارس محض درسگاہیں نہیں، ان کامقصددرس تدریس تک محدودنہیں بلکہ ملک وقوم کی خدمت کے لئے ذہن سازی کے مراکز بھی ہیں۔ جن مدارس کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں جبری طورپر بند کرایا جارہاہے، یہ وہی مدارس ہیں جنہوں نے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلانے کیلئے پہلی آواز بلندی کی۔
مولانا مدنی نے کہا کہ اقتدارمیں موجود لوگ پڑھنا اور تاریخ کو جاننا نہیں چاہتے بلکہ وہ اس کو مسخ کرکے اس کو مخصوص رنگ دینا چاہتے ہیں لیکن انہیں علم نہیں کہ ۱۸۰۳ء میں جب ملک پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہوگیا تودہلی سے شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے اپنے مدرسہ رحیمیہ سے ایک بوسیدہ چٹائی پربیٹھ کرانگریزوں کی غلامی سے نجات کیلئے جہاد کا اعلان کیا۔ اس کی پاداش میں ان کے مدرسہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی اورمحدث دہلویؒ پر ظلم وستم کے پہاڑتوڑدیئے گئے۔ ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی پاداش میں صرف دہلی میں ۳۲؍ہزار علماءکو قتل کیا گیالیکن ہمارے اکابرین نے ملک کی آزادی کیلئے قربانیوں کو پیش کرناترک نہیں کیا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کاقیام ملک کی جدوجہد آزادی کے لئے نئے مجاہدین پیدا کرنے کیلئے کیا گیا۔ انہوں نے مدارس سے نفرت کرنے والے عناصر پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ تاریخ سے نابلد لوگ آج انہی مدرسوں کو دہشت گردی کا اڈہ قراردے رہے ہیں۔ مدرسوں میں بنیادپرستی کی تعلیم دینے کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اترپردیش سے لے کر اتراکھنڈ، آسام اورہریانہ میں مدارس کے خلاف کارروائی مذہبی بنیادپر ہورہی ہے، ایسے میں سوال یہ ہے کہ ایک جمہوری اورسیکولر ملک میں یہ تفریق اور ناانصافی کیوں ؟ مولاناارشد مدنی نے سیاسی مقاصد کیلئےملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے اور اکثریت واقلیت کے درمیان خلیج پیدا کرنے پر بھی بھی ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح سے سلوک کیا جارہا ہے، جیسے ان کے شہری حقوق ختم کردیئے گئے ہوں۔
مولانامدنی مدارس کے ذمہ داروں پر زور دیا کہ حالات خواہ کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اس طرح کے حالات کا مقابلہ عزم وحوصلہ اوراستقامت کے ساتھ کیا جائے گا اور جمعیت علماء ہند نےناانصافی و ظلم وجبر کے خلاف مسلسل جدوجہد جاری رکھے گی۔ انہوں نے ارباب مدارس کاحوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ جمعیت علماء ہند ان کے ساتھ کھڑی ہے اور ہر طرح سے تعاون اور قانونی مدد فراہم کرے گی۔