نئی دہلی: بھارت میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم جمعیت علمائے ہند نے آنے والی متنازع فلم ‘ادے پور فائلز’ کو چیلنج کرنے کے لیے دہلی، مہاراشٹر اور گجرات کی ہائی کورٹس سے رجوع کیا ہے۔، عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس فلم سے پیغمبر اسلام کی توہین ہوتی ہے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔
جمعیت کے صدر مولانا ارشد مدنی، جو کہ دارالعلوم دیوبند کے پرنسپل بھی ہیں کی جانب سے فلم کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا۔ ملک کے ایک سرکردہ اسلامی مدرسے نے تصدیق کی کہ تنظیم نے فلم پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
فلم ’’اودے پور فائلز‘‘ کی ریلیز پر پابندی لگانے کے لیے جمعیت علمائے ہند نے دہلی، مہاراشٹر اور گجرات کی ہائی کورٹس سے رجوع کیا ہے۔ فلم کے ٹریلر میں نوپور شرما کا متنازعہ بیان بھی شامل ہے، جس کے بعد پورے ملک میں حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے۔
بھارت ایس شرینے کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں وجے راز، رجنیش دگل اور پریتی جھنگیانی نے اہم کردار ادا کیے ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ 28 جون 2022 کو راجستھان کے ادے پور سے تعلق رکھنے والے ایک درزی کنہیا لال کے قتل پر مبنی ہے جس میں بی جے پی رہنما نوپور شرما کے اسلام کے خلاف توہین آمیز بیانات کی حمایت کی گئی تھی۔ شرما کو بی جے پی نے اس وقت معطل کر دیا تھا جب ان کے توہین آمیز ریمارکس پر عالمی ردعمل سامنے آیا تھا۔
ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے فلم پر پابندی لگانے کے لیے دہلی، مہاراشٹر اور گجرات کے ہائی کورٹس سے رجوع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلم کے ٹریلر میں نوپور شرما کا متنازعہ بیان بھی شامل ہے۔ اس نے نہ صرف پورے ملک میں حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے بلکہ دیگر ممالک سے بھی ہمارے ملک کے دوستانہ تعلقات پر بھی منفی اثر پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ فلم میں دارالعلوم دیوبند کو انتہا پسندی کا مرکز ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی اور فلم میں مسلم علماء کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "فلم ایک خاص مذہبی کمیونٹی کو مکمل طور پر بدنام کرتی ہے، ممکنہ طور پر نفرت کو ہوا دیتی ہے اور شہریوں کے درمیان باہمی احترام اور سماجی ہم آہنگی کو سنگین طور پر خطرے میں ڈالتی ہے۔ اس میں "گیانواپی مسجد” جیسے حساس اور زیر التوا مسائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جو اس وقت وارانسی ڈسٹرکٹ کورٹ اور سپریم کورٹ میں زیر غور ہیں۔”
جمعیت کے سربراہ نے کہا کہ ایسا مواد بھارتی آئین کے آرٹیکل 14، 15 اور 21 کے تحت دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جمعیت کی جانب سے وکیل فضیل احمد ایوبی نے درخواست دائر کی ہے جس میں 11 جولائی کو ریلیز ہونے والی فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عرضی میں مرکزی حکومت، سنسر بورڈ، جانی فائر فاکس میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ اور ایکس کورپس کو فریق بنایا گیا ہے، جو فلم کی تیاری اور تشہیر سے وابستہ ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ آزادی اظہار رائے کے حق کا غلط استعمال کرتے ہوئے فلم میں ایسے مناظر دکھائے گئے ہیں جن کا اسلام، مسلمانوں اور دیوبند سے کوئی تعلق نہیں ہے۔