لکشدیپ کے اسکولوں سے عربی و محل زبان ہٹانے کا فیصلہ انتہائی تشویشناک ہے: کیرالہ وزیر تعلیم

مرکزی زیر انتظام علاقہ لکشدیپ میں اسکولی نصاب سے عربی اور محل زبان کو نکال دینے کے فیصلے پر زبردست تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
کیرالہ کے وزیر تعلیم وی شیوان کٹی نے اس فیصلے کو انتہائی افسوسناک اور خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام لسانی اقلیتوں کے آئینی حقوق پر براہِ راست حملہ ہے۔
14 مئی کو جاری کردہ حکومتی ہدایت کے مطابق لکشدیپ کے سب سے جنوبی جزیرے منی کوئے کے اسکولوں میں اب مالیالم اور انگریزی کو پہلی اور دوسری زبان کے طور پر پڑھایا جائے گا، جب کہ ہندی کو تیسری زبان کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
نتیجتاً، محل اور عربی زبانیں نصاب سے مکمل طور پر ہٹا دی گئی ہیں۔
محل زبان، جو دیویہی زبان کا ایک مقامی لہجہ ہے، مالدیپ سے لسانی و تہذیبی رشتہ رکھتی ہے اور صدیوں سے منی کوئے میں بولی جاتی ہے۔ اسے نصاب سے ہٹانا مقامی شناخت اور ثقافت کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔
وزیر تعلیم نے کہا:
"زبانیں محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں ہوتیں، یہ ایک پوری قوم کی تہذیب، تاریخ اور شناخت کی علامت ہوتی ہیں۔ تعلیم کے نظام کے ذریعے ان زبانوں کو مٹانا ہمارے تنوع اور تکثیریت پر حملہ ہے۔”
کیرالہ حکومت نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی (NEP 2020) کے نفاذ کی آڑ میں لکشدیپ جیسے علاقوں میں مرکزی مداخلت بڑھائی جا رہی ہے، جس سے علاقائی شناختیں دبائی جا رہی ہیں۔
کیرالہ نے لکشدیپ کے عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے تمام جمہوری و تعلیمی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس لسانی ناانصافی پر احتجاج کریں اور حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے۔

چنّاسوامی سانحہ: آر سی بی نے جاں بحق افراد کے لواحقین کیلئے مالی امداد کا اعلان کیا

حکومت کی طرف سے وقف امید پورٹل کا قیام غیر قانونی اور عدالت کی توہین کے مترادف ہے: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ