ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی۔بجنور
عید الاضحی کی سب سے اہم عبادت قربانی ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ مسلمان اس موقع پر بڑے پیمانے پر قربانی کرتے ہیں۔قربانی کا کوئی بدل نہیں ہے۔قربانی کسی بھی قوم کو زندہ رکھنے میں معان ہوتی ہے۔قربانی کے جہاں بے شمارمادی فائدے ہیں وہیں روحانی فائدے بھی بے شمار ہیں۔مگر ہماری کوتاہ نظر روحانی فائدوں کو نظر انداز کردیتی ہے۔ساری دنیا میں بڑے پیمانے پرقربانی دینے کے باوجود بھی قربانی کا وہ جذبہ ہمارے اندر پیدا نہیں ہوتا جس کے لیے قربانی پیش کی جاتی ہے۔دور جاہلیت میں لوگ قربانی کرکے اس کا خون اور گوشت اپنے معبودوں پر چڑھاتے تھے اور کعبے کی دیواروں پر لگاتے تھے۔آج بھی بعض قومیں ایسا کرتی ہیں۔خود ہمارے ملک میں برادران وطن اپنے جانوروں کو اپنے معبودوں کے نام پر قربان کرتے ہیں اور ان پر خون چڑھاتے ہیں۔اس تعلق سے اللہ نے کہا کہ ہمیں تمہارے خون اور گوشت کی حاجت نہیں ہے اور نہ یہ چیزیں ہم تک پہنچتی ہیں،بلکہ ہمیں مطلوب یہ ہے کہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہوجائے۔اسلام میں عبادات کا مقصد تقویٰ ہے۔ایک مومن کا ہدف تقویٰ کا حصول ہے۔ایک مسلمان کی زندگی کا محور تقویٰ ہے۔
قربانی کے تعلق سے کچھ لوگ یہ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں کہ یہ حضرت ابراہیم ؑ کی شریعت کا حصہ تھی اورشریعت محمدیہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔قربانی جس پیغمبر کے حالات زندگی سے تعلق رکھتا ہے وہ بلا چبہ سیدنا حضرت ابراہیم ؑ کی حیات مبارکہ ہے۔مگر ہم اس لیے قربانی کرتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ نے قربانی کی ہے اور کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ قرآن کی کئی آیات میں قربانی کے دلائل دیے گئے ہیں۔سورہ کوثر میں تو صاف حکم دیا گیا ہے کہ فصل لربک وانحر (الکوثر آیت ۲)پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھئے اور قربانی دیجیے۔اسی طرح سورحج کی آیت ۷۳ میں کہا گیا”اللہ کو نہ ان کا گوشت اور نہ ان کا خون پہنچتا ہے البتہ تمہاری پرہیزگاری اس کے ہاں پہنچتی ہے، اسی طرح انہیں (جانوروں کو) تمہارے تابع کر دیا تاکہ تم اللہ کی بزرگی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی، اور محسنین کو خوشخبری سنا دو۔“۔کچھ لوگ یہ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں کہ قربانی صرف حاجیوں پر واجب ہے۔انھیں شاید یہ معلوم نہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بغیر حج کے مدینے میں رہتے ہوئے دس ذی الحجہ کوقربانی کی ہے۔حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ کی روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ دس سال مدینہ میں رہے اور ہر سال آپ نے قربانی کی (مشکوٰۃ)آپ نے یہ بھی فرمایا:”جو لوگ استطاعت کے باجود قربانی نہ کریں وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئیں“(ابن ماجہ)۔آج کل کے کچھ روشن خیال یہ کہتے ہیں کہ قربانی کے بجائے اس رقم سے فلاحی و رفاہی کام کرنے چاہئے۔انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ رفاہی اور فلاحی کاموں کی ضرورت آج سے کہیں زیادہ دور رسالت میں تھی۔اس وقت مسلمان ہر طرح غریب تھے،ان کے تن پر پورے کپڑے نہ تھے،ان کے اکثر ایام فاقوں پر بسر ہوتے تھے،مکان اورمحلات نہ تھے۔جنگ ان پر مسلط تھی۔اس کے باوجود ایام قربانی میں نہ صرف قربانی کی جاتی رہی بلکہ ارشاد ہوا کہ ”ان ایام میں اللہ کو قربانی سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں“(ابو داؤد)۔
قربانی کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ کی محبت میں ہر چیز کو قربان کردیں،اسی سے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو اللہ کے حکم سے اللہ کی راہ میں قربان کرنا چاہا۔ان کو یہ ثبوت دینا تھا کہ کہیں اللہ کی محبت پر بیٹے کی محبت تو غالب نہیں ہوگئی ہے۔جب حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے اور بیوی کو وادی غیر ذی ذرع میں چھوڑ کر آئے تھے اس وقت حضرت اسماعیل ؑ بہت چھوٹے تھے،اور ان ہی کے ایڑیاں رگڑنے سے اللہ نے زمزم جاری کیا تھا،اب وہ نوعمر ہوچکے تھے۔ظاہر ہے ایک باپ نے جس بیٹے کو بڑی دعاؤں کے ساتھ مانگا تھا،اب ایک عرصہ کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے جب اسے گود میں لیا ہوگا،اس کی بلائیں لی ہوں گی،اس کو سینے سے لگایا ہوگاکس قدر پیار آیا ہوگا؟لیکن اللہ نے پھر امتحان لیا کہ کہیں بیٹے کی محبت ہماری محبت پر غالب تو نہیں آگئی ہے۔ اس لیے حکم دیا کہ اپنے بیٹے کو ہمارے حکم پر قربان کردو۔بیٹا بھی ایک نبی کا تربیت یافتہ تھا اس لیے فورا تیار ہوگیا اور بولا:”قَالَ یَآ اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیٓ اِنْ شَآءَ اللّہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ (صافات۔ 102)“ اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے اسے بجالائیے،آپ مجھے ان شا ء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔نہ باپ نے یہ سوچا کہ محض ایک خواب ہے اور نہ بیٹے نے یہ کہا کہ ابو جان آپ نے خواب ہی تو دیکھا ہے۔نہ بیٹے کی امی نے یہ کہا کہ شوہر نامدار!آپ کہاں بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے جارہے ہیں یہ محض ایک خواب ہی تو ہے۔تینوں اس بات پر متفق تھے کہ نبی کا خواب حکم کے درجے میں ہوتا ہے۔یہ وہ خانوادہ تھا جو توحید پر قائم تھا۔چنانچہ باپ نے بیٹے کو زمین پر لٹادیا اور چھری چلانا چاہی،اسی وقت اللہ نے حضرت جبریل ؑکو جنت سے ایک مینڈھا لے کر بھیجا،حضرت جبرئیل ؑ نے کہا کہ اللہ نے آپ کی قربانی قبول کرلی ہے اور آپ کی خدمت میں اسماعیل ؑکے بدلے یہ مینڈھا بھیجا ہے اسے قربان کیجیے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کی اس فداکارانہ جذبہ کی یوں تعریف فرمائی۔: ”پس جب دونوں نے تسلیم کر لیا اور اس نے پیشانی کے بل ڈال دیا۔اور ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراھیم!۔تو نے خواب سچا کر دکھایا، بے شک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔البتہ یہ صریح آزمائش ہے۔اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دیا۔“(سورہ صافات آیت103 تا107)
قربانی کا یہ عمل جہاں ایک طرف اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم ؑ کی حیات مبارکہ کی یاد دہانی ہے،ان کے جہد مسلسل کی داستان کو بیان کرتا ہے جو انھوں نے راہ حق میں انجام دی اور اللہ کی محبت میں سب کچھ قربان کردیا،وہیں دوسری طرف امت مسلمہ کے اندر اسی جذبہ براہیمی کو پیدا کرنے کا سبب ہے۔جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا:
آج بھی ہوجو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
اس وقت بھارتی مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں ان حالات میں جذبہ ئ براہیمی کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔آج پھر ہر طرف سے توحید پر شرک حملہ آور ہے۔ملت ابراہیمی نرغہ ئ نمرود میں ہے۔معبودان باطل کے پرستار خدائے واحد کے غلاموں کو مٹانے کے درپے ہیں۔ہر طرف آگ ہے اور حق پرستوں کو اس آگ میں جھونکا جارہا ہے۔اس لیے آج سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ اللہ کے بندے اپنے اندر اپنی ہر چیز قربان کردینے کا جذبہ پیدا کریں۔جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے یہ ثابت کردیا تھا کہ اللہ کے لیے میرا سب کچھ قربان ہے اسی طرح آج امت محمدیہ کو ثابت کرنا ہے کہ ہمارے لیے بھی اللہ کی محبت سب سے قیمتی شئی ہے۔قربانی کا مقصد انسان کے دل سے دنیا کی محبت کو دور کرنا ہے۔جانور کے گلے پر چھری چلا کر یہ ثبوت دیا جاتا ہے کہ ہم دنیا کو حقیر سمجھتے ہیں۔قربانی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی ناجائزخواہشات کو ترک کردیں،ان پر چھری چلادیں۔ تقویٰ بھی یہی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو اللہ کے حکم کے تابع کردے۔اپنی پسند اور مرضی کو اللہ کی پسند اور مرضی کے مطابق بنادے۔اسی لیے قربانی کے موقع پر یہ دعا سکھائی گئی جس کا ترجمہ یہ ہے۔”میں نے سب سے یکسو ہوکر اپنا رخ اسی کی طرف کرلیا جس نے آسمان اور زمین بنائے، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ ہی کے لئے ہے، جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔“
آج ہم قربانی کاجانور خریدتے وقت ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔اگر مقابلے کی نیت یہ ہے کہ کون اللہ کی راہ میں زیادہ قربانی دے گا تو لائق اجر ہے لیکن اگرقربانی کے قیمتی جانور سے ریاکاری اور فخر جتانامقصود ہے تو قربانی بے سود ہے۔اللہ کو دکھاوا پسند نہیں ہے۔ریا کاری کے طور پر کچھ دنیا دار اپنے جانوروں کی نمائش کرتے ہیں۔یہ عمل اجر و ثواب کو ضائع کردیتا ہے۔پس اللہ کے حضور اخلاص کے ساتھ قربانی پیش کیجیے۔اپنی تمناؤں،آرزوؤں اور خواہشات کو اللہ کے تابع کردیجیے۔ہر اس عمل سے پر ہیز کیجیے جو اللہ کو ناراض کرنے والا ہو۔حسب استطاعت قربانی کیجیے۔قربانی کے گوشت کو محرومین تک پہنچائیے۔اللہ سے اجر کی امید رکھیے۔اللہ تعالیٰ ہمارے اندر وہی جذبہ پیدا فرمائے جو اس قربانی سے اس کو مطلوب ہے۔