از : مفتی محمد ندیم الدین قاسمی
خادم تدریس ادارہ اشرف العلوم حیدر آباد
“ اشھر حرم “ چار ہیں ، ان میں ایک ماہ ذی الحجہ بھی ہے جس کو دیگر مہینوں پر خصوصی فضیلت حاصل ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ نے اس مہینے کی ابتدائی دس راتوں کی قسم کھائی ہے ؛چناں چہ اللہ نے فرمایا : والفجر ، ولیال عشر ۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کا تفسیری ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“ قسم ہے فجر کے وقت کی ،اور ( ذی الحجہ کی) دس راتوں کی ( یعنی دس تاریخوں کی کہ وہ نہایت فضیلت والی ہے )۔ ( تفسیر بیان القرآن :۴/۶۵۴) اور حضرت مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :
جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے سات دنوں میں سے جمعہ کو اور سال کے بارہ مہینوں سے رمضان کو اور رمضان کے تین عشروں میں سے عشرۂ اخیر کو خاص فضیلت بخشی ہے ، اسی طرح ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کو خصوصی فضیلت حاصل ہے ، ان دنوں میں بندہ کا ہر نیک عمل ،اللہ کو بہت محبوب ہے ۔ ( معارف الحدیث ، ۳/ ۴۱۷)
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ ، سال بھر کے روزوں کے برابر اور اس کی ہر رات کی نفلیں ، شب قدر کی نفلوں کے برابر ہیں ۔( ترمذی )
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ان مبارک دنوں کو غیر ضروری تعلُقات اور سوشل میڈیا سے ہٹ کراللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی یاد میں گذاریں اور صدقہ،خیرات اور نیک عمل میں کچھ نہ کچھ اضافہ کریں اور گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام کریں ؛البتہ خصوصیت سے ان ایام میں مندرجہ ذیل چند کام کریں :
(۱) نفلی روزے رکھنا
احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی ایام میں ہردن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اجر رکھتا ہے، اور بہ طورِ خاص یومِ عرفہ (9 ذوالحجہ)کے روزے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس دن کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اور ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ ان ایام میں سے ایک دن کا روزہ ، پورے سال کے روزوں اور رات کا قیام ،شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔( ترمذی ، باب ماجاء فی العمل فی أیام العشر )
(۲) تکبیر تشریق
تکبیر تشریق، نویں ذی الحجہ کی فجر کے وقت سے تیرہویں ذی الحجہ کی عصر کے وقت تک ہرفرض نماز کے بعد کہنا واجب ہے، شہر ہو یا دیہات ،منفرد ہو یا جماعت سے پڑھنے والے ہرایک پر ؛خواہ عورت ہو یا مرد سب پر ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے، نیز مرد کا آہستہ آواز سے پڑھنا خلافِ سنت ؛البتہ عورت بلند آواز سے نہ کہے ۔ ( ( فتاوی دار العلوم زکریا ، ۶/ ۴۶۵)
(۳) قربانی
قربانی دین اسلام کی اہم ترین عبادت ہے،
اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ عشق و محبت کا مظہر ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس میں وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے( ابن ماجہ ، کتاب الاضاحی )
اسی لئے ہر مسلمان آزاد مقیم صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے ، چاہے ایک ہی گھر میں کئی افراد ہوں ، ایک شخص کے قربانی کرنے سے تمام کی طرف سے واجب ادا نہیں ہوگا ۔ ( فتاوی دار العلوم زکریا ، ۶/ ۳۱۰)
( ۴) توبہ واستغفار
ان پاکیزہ مبارک دنوں میں توبہ واستغفار بھی کثرت سے کرنا چاہئے ؛ تاکہ حق جل جلالہ کا قرب اور ان کی رضا حاصل ہوسکے ۔
(۵) ذکر اللہ کی کثرت
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ جل شانہ کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ کے برابر عظمت والے دن کوئی نہیں اور نہ کسی دنوں میں نیک اعمال اتنے پسند ہیں جتنا ان دنوں میں پسند ہیں ، پس تم ان دنوں میں کثرت سے تسبیح ( سبحان اللہ ) تکبیر ( اللہ اکبر ) اور تہلیل ( لا الٰہ الا اللہ ) کیا کرو ۔
(۶) ناخن اور بال نہ کاٹنا
صحیح مسلم وغیرہ میں ہے جضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب ذوالحجہ کاپہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی دینے کا ارادہ ہو تو وہ بال، ناخن یا کھال کا کچھ حصہ نہ کاٹے ، جب تک قر بانی نہ دے دے۔ ( صحیح مسلم )
لیکن فقہاء کرام نے لکھا ہے یہ عمل صرف مستحب ہے ،واجب اور لازم نہیں ۔ اگر کوئی عذر ہو یا بال اور ناخن بہت بڑھ چکے ہوں تو ان کے کاٹنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔