از قلم : محمد فرقان
(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
محمدﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے جب پوری دنیا کا معاشرہ کفر و شرک، ضلالت و جہالت کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، انسانیت اور شرافت کا نام و نشان ختم ہوچکا تھا، درندگی اور حیوانیت کا راج تھا، قتل وغارت گری کی وبا ہر سُو عام تھی، بے حیائی اور بدکاری اپنے عروج پر تھی، روئے زمین پر وحدانیت حق کا کوئی تصور نہ تھا، خود غرضی، مطلب پرستی کا دور دورہ تھا اور ظلم وستم ناانصافی اپنے شباب پر تھی اور خدائے واحد کی پرستش کی جگہ معبودانِ باطل کی پرستش کی جاتی تھی، نفرت وعداوت کی زہریلی فضا انسان کو انسان سے دور کرچکی تھی، کفر کی نجاست سے قلوب بدبودار ہوچکے تھے۔ دینی، اخلاقی، سیاسی اور معاشرتی ہر اعتبار سے خرابیاں آسمان چھو رہیں تھیں اور پوری انسانیت سسک رہی تھی اور تباہی وبربادی کے بالکل آخری کنارے پر پہنچ چکی تھی۔اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب ترین رسول، امام الانبیاء، سید المرسلین، خاتم النبیین، سرور کونین، وجہ کائنات، فخر موجودات، محسن انسانیت، شافع محشر، ثاقی ئکوثر حضرت محمد رسول اللہﷺ کو اس دنیا میں رحمۃ للعالمین بناکر مبعوث فرمایا۔ شاعر نے کیا خوب کہا:
جب ظلم کے بادل چھانے لگے، گلشن میں گُل گُملانے لگے
انسان جب اپنی بچی کو ہیں، جیتے جی دفنانے لگے
ہر سمت جفا و ظلم کا جب ہے گرم ہوا بازار
محمد ﷺ آگئے، محمدﷺ آگئے
آپﷺ کی آمد سے دنیائے کفر میں زلزلہ برپا ہوگیا۔ جب اعلان ہوا کہ ”یَا أیُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لاَ الٰہَ الاّ اللّٰہُ تُفْلِحُوْا“ اے لوگو! لا الٰہ الا اللہ کہو کامیاب رہوگے۔ ایک اللہ کی عبادت کرو اور ”لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ” پر ایمان لاؤ فلاح و صلاح سے ہمکنار رہوگے۔ یہ آواز نہیں تھی بلکہ ایوان باطل میں بجلی کا کڑکا تھا۔ جس سے باطل طاقتیں کانپ اٹھیں جیسے کہ انکے پیروں تلے زمین کھسک گئی ہو۔ یہی آوازِ حق ایک عظیم الشان انقلاب کی ابتداء تھی جس نے دنیائے انسانیت کی تاریخ بدل دی اور کفر و شرک کی تاریخ بستیاں خود مینارۂ ہدایت بن گئیں۔ اور پھر دنیا نے وہ منظر دیکھا جس کا تصور بھی نہ تھا۔ اسی کو شاعر نے کہا:
بت خانے سارے کانپ اٹھے، کعبے کے صنم تھرانے لگے
اب کفر کی ظلمت ختم ہوئی، دنیا سے اندھیرے جانے لگے
توحید کرنیں پھوٹ پڑیں، ایماں کے اجالے چھانے لگے
جب آمنہ بی کے آنگن میں، سرکار دوعالمﷺ آنے لگے
سب رہبر لوگ بول اٹھے، یہ کسریٰ کی دیوار
محمد ﷺ آگئے، محمدﷺ آگئے
آپ ﷺ نے اس خزاں رسیدہ دنیا میں قدم رکھتے ہی پوری دنیا کا رخ پلٹ دیا۔ آپنے ایسی تبلیغ کی کہ دنیا کا تاریک بت کدہ توحید کے نور سے جگمگانے لگا، بندوں کا ٹوٹا ہوا رشتہ خالقِ حقیقی سے جوڑا، جو لوگ ذلت کی پستیوں میں گرچکے تھے ان کو رفعت کی بلندیوں پر پہنچایا، مشرکوں اور بت پرستوں کو خدا پرست اور بت سازوں کو بت شکن بنایا، رہزنوں کو رہنمائی سکھلائی، عورتوں کو جانور سے بدتر جاننے والوں کو عورتوں کا محافظ بنایا، قطع رحمی کو صلہ رحمی کے خوگر اور کمزوروں پر ستم ڈھانے والوں کو کمزوروں کا سہارا بنایا، ظلم وغضب کرنے والوں کو حق پرست اور رحم دل بنایا، قاتل کو عادل بنایا، غلام کو سپاہ سالار بنایا، جو لوگ معمولی باتوں پر آپس میں قتل و غارت گری کرتے تھے ان کے دلوں میں محبت و الفت کی روح پھونک کر منظم اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنایا۔ کفر وشرک، بدعت وضلالت اور ہر قسم کی برائی کو شکست فاش ہوئی اور حق و صداقت اور خیر و سعادت نے عالم گیر فتح پائی، سیکڑوں معبودانِ باطل کے سامنے جھکنے والی پیشانیاں خدائے واحد کے سامنے سرنگوں ہوگئیں، نفرت وعدوات کا آتش فشاں سرد پڑگیا محبت و اخوت کی فصلِ بہاراں آگئی، رہزن رہبر اور ظالم عدل وانصاف کے پیامبر بن گئے۔ اور روئے زمین پر ظلم وجور کی جگہ امن و عدل سے بھرپور اسلامی نظام قائم ہوگئی۔ شاعر نے کیا خوب کہا:
لائے تشریف دنیا میں خیرالوریٰ
حق و باطل ہوا آمنے سامنے
کفریت شرم سے منھ چھپانے لگی
آئے جب مصطفیٰ آمنے سامنے
قرآن و حدیث اور ان کی تشریحات و توضیحات کا تمام ذخیرہ چھان لیں ہمیں از اوّل تا آخر ایک ہستی، ایک ذات اور ایک شخصیت دکھائی دیتی ہے، جو اس پوری بزم کون و مکاں میں محبوبیت عظمیٰ کے مقام پر فائز ہے اور وہ ہے ہمارے آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس۔ آپﷺ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نسلِ انسانی کے لیے نمونۂ کاملہ اور اسوۂ حسنہ بنایا ہے۔ چنانچہ اللہ نے قرآن مجید کے سورۃ الاحزاب میں اعلان کر دیا ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ“ کہ ”اے مسلمانو! تمہارے لیے اللہ کے رسولﷺ کی زندگی بہترین عملی نمونہ ہے۔“ آپ ؐ کے طریقہ کو فطری طریقہ قرار دیا ہے۔ محسن انسانیتؐ کی معمولات زندگی ہی قیامت تک کے لیے شعار و معیار ہیں۔ پوری انسانیت کیلئے صبح قیامت تک نبی کریمؐ کی سنت و شریعت ہی مشعلِ راہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت النبیؐ کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔ یومِ ولادت سے لے کر روزِ رحلت تک کے ہر ہر لمحہ کو قدرت نے لوگوں سے سند کے ساتھ محفوظ کرادیا ہے۔ جسکی جامعیت و اکملیت ہر قسم کے شک و شبہ سے محفوظ ہے۔ دنیائے انسانیت میں کسی بھی عظیم المرتبت ہستی کے حالات زندگی، معمولات زندگی، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات اتنے کامل ومدلل طریقہ پر نہیں ہیں،جس طرح کہ ایک ایک جزئیہ سیرت النبیﷺ کا تحریری شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔ یہاں تک کہ آپؐ سے متعلق افراد اور آپؐ سے متعلق اشیاء کی تفصیلات بھی سند کے ساتھ سیرت و تاریخ میں ہر خاص و عام کو مل جائیں گی۔ یہ قدرت کا عجیب ہی کرشمہ ہے تاکہ قیامت تک آنے والی نسل قدم قدم پر آقائے دوعالمﷺ کی معلومات زندگی سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ کو اسوۂ حسنہ کے رنگ میں رنگ لیں۔ اس لیے کہ اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گذارنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کو نظامِ حیات اور رسول اللہﷺ کو نمونۂ حیات بنایا ہے۔ وہی طریقہ اسلامی طریقہ ہوگا جو رسول اللہؐ سے قولاً، فعلاً منقول ہے۔ آپؐ کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور آپؐ نے فرمایا ہے ”فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی“ کہ جس نے میرے طریقے سے اعراض کیا وہ مجھ میں سے نہیں ہے (بخاری و مسلم)۔ اور یہی طریقۂ سنت ہمیں جنت میں لے جائے گا اور اللہ سے ملائے گا۔
نقش قدم نبی ؐکے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے
ہمارے نبی سرکار دوعالمﷺ اپنی نوع کے اعتبار سے بشر بلکہ افضل البشر ہیں اور صفتِ ہدایت کے لحاظ سے ساری انسانیت کے لیے مینارۂ نور ہیں۔ یہی وہ نور ہے جس کی روشنی میں انسانیت کو اللہ کا راستہ مل سکتا ہے اور جس کی روشنی تاقیامت درخشندہ وتابندہ رہے گی۔ اسی راستے پر چل کر اصحاب رسولؓ نے دونوں جہاں میں کامیابی حاصل کی۔ اور صبح قیامت تک ہر دورہر زمانہ میں کامیابی و سرفرازی اور سربلندی و خوش نصیبی کی کنجی اتباع سنت ہی ہے۔ اگر ہم عہد صحابہؓ کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ صدیق ؓکو صداقت، فاروقؓ کو عدالت، عثمانؓ کو سخاوت اور علیؓ کو شجاعت بھی اگر ملی ہے تو وہ آقا دوعالمﷺ کا صدقہ ہے۔ کیونکہ جس کسی نے آقا دوعالمؐ سے تعلق و محبت کی اور انکی سنت و شریعت کی اتباع کی اللہ تبارک و تعالیٰ نے انکا مقام بلند کردیا۔ قرآن نے کہا ”وَمَن یُطِعِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیمًا“ (سورۃ لاحزاب)کہ ”اور جو شخص اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے گا سو وہ بڑی کامیابی کو پہنچے گا۔“ اسی کو شاعر نے کہا:
کیا بات ہے حضرت کی اطاعت کے شرف کی
شاہان دو عالم ہیں غلامان محمدﷺ
سیرت النبیﷺ کا مطالعہ اور اسکی اتباع اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر آپؐ کو ایک مسلمان نمونۂ کامل بنانے پر قادر نہیں ہوگا۔ آپؐ جہاں داعی برحق ہیں تو وہیں انسانِ کامل بھی ہیں، آپ ؐشوہر بھی ہیں آپؐ باپ بھی ہیں، آپؐ خسر بھی ہیں آپؐ داماد بھی ہیں، آپؐ تاجر بھی ہیں آپؐ قائد بھی ہیں، آپؐ مجاہد بھی ہیں آپؐ غازی بھی ہیں، آپؐ سپہ سالار بھی ہیں آپ ؐمظلوم بھی ہیں، آپؐ مہاجر بھی ہیں، آپؐ نے زخم بھی کھائے، آپؐ نے مشقت بھی جھیلی، آپ ؐنے بھوک بھی برداشت کی، آپؐ نے بکریاں بھی چرائیں، آپ ؐنے سیادت بھی فرمائی۔ آپؐ نے معاملات بھی کیے، آپؐ نے لین دین بھی فرمایا، آپؐ نے قرض بھی لیا، آپؐ نے ایک انسان کی حیثیت سے معاشرہ کا ہر وہ کام کیا جو ایک انسان فطری طور پر کرتا ہے۔ اس لیے آپؐ کو نمونہ بنائے بغیر نہ کوئی کامیاب باپ، شوہر، خسر، داماد، تاجر وسپہ سالار بن سکتا ہے اور نہ ہی حق تعالیٰ کی کماحقہ اطاعت و عبادت کرسکتا ہے۔ آپﷺ کی سیرت طیبہ حیات انسانی کے ہر گوشہ کا کامل احاطہ کرتی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
ہے اتباع مصطفی ہی شرط الفت خدا
محمدی ہے تو ترا وقار سنت نبوی
دنیا کے گوشے گوشے میں جہاں کہیں محمد عربیﷺ کا دین پہنچا عقلمندوں نے اسے بخوشی قبول کیا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج مسلمان ہی دین و شریعت کا پابند نہیں۔ مغربی ممالک والے مغربی تہذیب کو چھوڑ کر بڑی تیزی سے اسلام قبول کررہے ہیں لیکن مسلمان ہے کہ پاکیزہ سنت و شریعت کو چھوڑ کر مغربی تہذیب اپنا رہا ہے۔ جس نبیؐ نے اس امت کی خاطر پیٹ پر پتھریں باندھیں، لوگوں کے طعنے اور گالیاں سنیں، غزوۂ احد میں اپنے دندان مبارک کو شہید کرا دیا، طائف میں پتھریں کھائیں، ہر طرح کی تکالیف، ظلم و ستم کو برداشت کیا، اپنے آخری وقت میں بھی امت کی فکریں کی، کل بروز محشر جب ہر کوئی یا ربی نفسی کہتا ہوگا تو آپ یا ربی امتی پکار کر امت کی نجات کی فکر کررہے ہوں گے۔ آج اسی محمد عربیؐ کے امتی کو انکا طریقہ پسند نہیں۔ جس نبیﷺ کے چہرے کی قسم اللہ تبارک و تعالیٰ نے کھائی افسوس کہ آج اس نبی رحمت کا نورانی چہرہ امت کو پسند نہیں! ہم نے اپنا سبق بھلا دیا ہے۔ ہم جس مقصد کیلئے اس دنیا میں آئے ہیں اسکی طرف ہماری توجہ ایک فیصد بھی باقی نہیں رہی۔ ہمیں تو دین و شریعت کا محافظ ہونا تھا لیکن ہم خود اسکے قاتل بن گئے ہیں۔ آج پوری دنیا میں مسلمان کشمکش کی زندگی گزار رہا ہے۔ ہر طرف اسے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مسلمانوں پر ظلم و ستم کے بادل ڈھائے جارہے ہیں۔ اغیار دن رات مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ جن کے نام سے کبھی دشمنوں کی راتوں کی نیندیں حرام ہوجایا کرتی تھیں آج وہی ڈر و خوف کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ جو کبھی بادشاہوں کی زندگی بسر کرتا تھا آج وہی غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ جس نے انسان کو انسانیت کا درس دیا آج اسے ہی بنیادی حقوق سے بھی دستبردار کیا جارہا۔ جس قوم کے لوگوں کی قسمیں کھایا کرتے تھے آج انہیں گالیاں دی جارہی ہیں۔ عروج کی بلندیوں پر پہنچ کر زوال کی ان گہرائیوں میں گرنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا قرآن بدل گیا ہے؟ کیا شریعت بدل گئی ہے؟ یقیناً نہیں بلکہ مسلمان بدل گیا ہے اور اسکے زوال کی وجہ دین و اسلام سے بیزاری اور سنت و شریعت سے دوری ہے۔ جب مسلمان دین و شریعت کا پابند تھا اسلام کا بول بالا پوری دنیا میں تھا۔ کفر کی نجاست سے لوگ اپنے آپ کو الگ کرتے ہوئے دین و اسلام کو قبول کیا کرتے تھے۔ لیکن جس دن سے ہم نے دین و شریعت سے دوری اختیار کی اسی دن سے ہم زوال کی گہرائیوں میں گرنے لگے۔ ہمیں شکوہ اغیار سے نہیں بلکہ ہمارے اپنے لوگوں سے ہے۔ دشمن اگر دشمنی کرتا ہے تو وہ اسکا حق ہے لیکن ہم اللہ اور رسولؐ پر ایمان لانے کے باوجود دین سے دور کیوں ہیں؟ جو مسلمان ہونے کے باوجود غیر مسلم کیوں بن گئے ہیں؟ جو مسلمان ہونے کے باوجود اسلام کے دشمن کیوں بن گئے ہیں؟ جو نبی ؐ کے عاشق ہونے کے باوجود نبی ؐکی سنتوں کے دشمن کیوں بن گئے ہیں؟ آج کے مسلمانوں کے طور طریقے، شکل و صورت ہو یا لباس، کھانے ہو یا سونے، معاملات ہو یا معاشرت، اَخلاق ہو یا کوئی دوسرا پہلو یا طریقے کو دیکھ کر یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ یہ کوئی مسلمان ہے یا کوئی کافر ہے؟ ہمارے چہروں سے، ہمارے طور، طریقوں سے، ہمارے معاملات زندگی سے دین و شریعت کا جنازہ نکل چکا ہے اور ہم نے یہ سوچ لیا کہ اللہ ظالموں کا خاتمہ کردیگا! جب دین و شریعت کا چوکیدار ہی لاپرواہی کررہا ہے تب ڈاکو اور لٹیرے تو اس پر حملہ ضرور کریں گے۔ ہمیں تو دین و شریعت کا پابند ہونا تھا لیکن ہمیں غیروں، ناچنے گانے والے بدکاروں کے طور طریقے پسند ہیں۔ یاد رکھو! حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”جو شخص دنیا میں کسی کی مشابہت اختیار کرے گا، کل قیامت میں اس کاحشر اسی کے ساتھ ہوگا۔“ یہ دنیاوی زندگی ایک دن ختم ہونے والی ہے اور آخرت کی زندگی لامحدود ہے۔ عقلمند شخص وہی ہے جو اپنی آنے والی زندگی کی فکر کرے۔ دین و اسلام کسی کا محتاج نہیں بلکہ ہم اسکے محتاج ہیں۔ اگر ہم اسکی ناقدری کریں گے تو اللہ یہ نعمت کسی اور کو دے دیگا اور ہمارا ٹھکانہ جنت کے بدلے جہنم ہوگا۔ لہٰذا حقیقی عاشق رسولؐ وہی ہے جو رسول اللہﷺ کی محبت کے ساتھ انکی سنت و شریعت سے بھی محبت کرتے ہوئے اسکی اتباع کرے۔ شاعر نے کیا خوب کہا:
میری سنت سے محبت ہے محبت میری
یہی فرماگئے ہیں سارے رسولوں کے امام
یوں تو کہنے میں بنتے ہیں نبی کے خدام
جو ہیں پابند شریعت ہیں وہی اصل غلام
اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہم پر بے شمار نعمتیں ہیں ان نعمتوں کو اگر کوئی شمار کرنا چاہے تو زندگیاں تو ختم ہو سکتی ہیں لیکن نعمتوں کو کوئی گن نہیں سکتا۔ ان میں عظیم الشان نعمت دین و اسلام، کلمہ و ایمان اور حضوراکرمﷺ کی بعثت کی نعمت ہے۔ سورہ آل عمران میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ”لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُواْ عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ“کہ ”بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسولؐ ان میں بھیجا جو انہیں ان کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقیناً یہ سب پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔“ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام، ائمہ دین، بزرگان سلف کی یادگاروں کا جو اصل مقصد ہے اسوۂ حسنہ کی اتباع اور نیکی اور صداقت کے عملی نمونہ کی پیروی اور اعمال صالحہ کی حقیقی عملی یادگار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریمﷺ سے محبت کے پاکیزہ جذبات آپ ؐکی سیرت طیبہ اور اسوۂ حسنہ کا ذکر خیر ایک مومن کی زندگی کے لئے سب سے قیمتی متاع اور بہترین شغل ہے۔ مگر جب اس کی روشنی میں اپنی زندگی ڈھالنا مقصود ہو، پوری امت ہر وقت نبیؐ کی اتباع کی محتاج ہے۔ اس کے بغیر اسلامی زندگی کا تصور نا ممکن ہے۔ غیرروں کی طرح وقتی، موسمی، رسمی عقیدت کے پھول، جلسے، جلوسوں کے ذریعہ نچھاور کرنے کا نام عشق رسول نہیں ہے۔ نبیﷺ کا مقام ومرتبہ ہمیشہ ہمیش کیلئے بلند وبالا کردیا ہے۔ کسی کے نام نہاد عشق ومحبت سے نہ آپ ؐکے مقام میں بڑھوتری آنے والی ہے نہ خاکچاٹنے والوں کے خاکوں سے آپکا مرتبہ کچھ گھٹنے والا ہے۔ ہمارے نبیﷺ کی ذات گرامی اتنی بلند وبالاہے کہ عرش والا کبھی مزمل، کبھی مدثر، کبھی یاسین، کبھی طٰہٰ سے خطاب کرتا ہے۔ بڑے بڑے اولو العزم کی بڑائیوں کو اور عظمتوں کی یاد گار زندہ رکھنے کیلئے اسکا تذکرہ محض مجلس آرائی یا عود و لوبان کی دھونی دینے سے نہیں ہوتی بلکہ اس سے اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ انکی زندگیوں میں جو اعمال حسنہ اور اخلاق کریمانہ پائے جاتے تھے انکی حتیٰ المقدور اتباع کی ایسی سعی کی جائے کہ آنے والی نسلیں اعمال صالحہ کے نمونوں کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔ کیونکہ آئندہ نسلوں کی صحیح تعمیر وتربیت میں عملی حیثیت سے یہی کامل زندگیاں اسوہ اور نمونہ بننے کے قابل ہیں۔ اور کون بد نصیب مسلمان ہوگا جسمیں محبت رسولﷺ نہیں ہوگی لیکن کیا محبت رسولؐ رسموں تہواروں، جلسے جلوس، میلوں ٹھیلوں، کے بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ جانے کا نام ہے؟ جسکی زندگی نماز، روزے اور سنتوں سے خالی ہو، اغیار کو اپنا آئیڈیل اور نمونہ بناتے ہوں، جنکی تہذیب وتمدن کو دیکھ کر دشمنان اسلام کی یاد تازہ ہوتی ہو، کیا ایسے لوگ عاشقان رسولؐ کہلانے کے لائق ہیں؟ جبکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ”قسم ہے اس ذات کی جسکے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والدین اور اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں!“ (بخاری)۔ کیا اس معیار پر ہمارا عشق رسولﷺ اترتا ہے؟ ہمیں خود غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سیرت النبیﷺ کا پیغام یہ نہیں کہ ہم فقط جلسہ و جلوس کریں بلکہ سیرت کا اصل پیغام یہ ہے کہ ہم دین و شریعت کے پابند ہوجائیں۔ آپﷺ کی سیرت کا بنیادی پیغام ایک ایک امت کے نام یہی ہے کہ وہ سب سے پہلے اسوۂ حسنہ کے رنگ میں اپنے کو رنگ کر آپﷺ کی لائی ہوئی شریعت کی سربلندی کے لئے کفن باندھ کر کھڑے ہوں ورنہ محض ولادتِ باسعادت کے موقع پر اظہار عشق ومحبت کرکے یہ سمجھنا کہ ہم نے محبت کا حق ادا کردیا ہے، فریبِ نفس ہے!
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمدﷺ سے اجالا کردے
فداک أبی وأمی وأہلی وولدی وروحی ونفسی وقلبی وبدنی ومالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔