دہلی عدالت کا ہندو ایکتا گروپ کی واٹس ایپ بات چیت کو قتل کا ثبوت ماننے سے انکار

۲۰۲۰ء کے شمال مشرقی دہلی کے مسلم مخالف فسادات سے متعلق پانچ قتل کے مقدمات میں، ایک دہلی عدالت نے فیصلہ دیا کہ واٹس ایپ بات چیت کو ’’ثبوت‘‘ نہیں سمجھا جا سکتا، اور یہ صرف ’’تصدیقی ثبوت‘‘ کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔ ان تمام پانچ مقدمات میں، جن میں۱۲؍ ہندوتوا پسند افراد ملوث ہیں، استغاثہ نے واٹس ایپ بات چیت کو کلیدی ثبوت کے طور پر پیش کیا تھا۔ کئی تحقیقاتی رپورٹس اور دہلی پولیس نے الزام لگایا تھا کہ شہر میں تشدد کے دوران ’’کٹر ہندو ایکتا‘‘ نامی ایک واٹس ایپ گروپ بنایا گیا تھا جس کا مقصد مسلمانوں کے قتل اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کرنا تھا۔  یہ مقدمات کل نو مقدمات کا حصہ ہیں جو نو افرادکے قتل سے متعلق درج کیے گئے تھے، جن کی لاشیں ۲۰۲۰ء کے شمال مشرقی دہلی فسادات کے ایک ہفتے بعد دریافت ہوئی تھیں۔ باقی چار مقدمات میں سے ایک میں رہائی کا فیصلہ ہو چکا ہے، جبکہ دیگر تین مقدمات فی الوقت حتمی دلائل اور ملزمان کے بیانات کے مرحلے پر ہیں۔

چارج شیٹ کے مطابق، ایک ملزم لوکیش سولنکی نے واٹس ایپ گروپ میں لکھا تھا: ’’تمہارے بھائی نے۹؍ بجے۲؍ مسلمانوں کو مار ڈالا۔‘‘تفتیش کے دوران اس کے بیان کی بنیاد پر دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا جو بعد میں نو قتل کے مقدمات میں ملزم ٹھہرائے گئے۔  تاہم، ان پانچوں مقدمات میں ملزمان کو بری کرتے ہوئے کڑکڑڈوما کورٹ کے اضافی سیشن جج پولستیا پرماچالا نے کہا کہ’’ ایسے واٹس ایپ پیغامات صرف گروپ کے دیگر اراکین کی نظروں میں ہیرو بننے کے مقصد سے بھیجے جا سکتے ہیں،‘‘ اور یہ کہ یہ ایک جھوٹی شیخی بھی ہو سکتی ہے۔‘‘عدالت نے نتیجہ نکالا کہ یہ بات چیت اس بات کا ثبوت نہیں ہیں کہ ملزمان نے واقعی دو مسلمانوں کو قتل کیا تھا، اور یہ صرف ’’تصدیقی ثبوت‘‘ کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔
اسی طرح کئی فیصلوں میں، عدالتوں نے قابل اعتماد گواہوں کی عدم موجودگی کو متعدد قتل کے مقدمات میں ملزمان کو رہا کرنے کی ایک اہم وجہ قرار دیا ہے۔  ہاشم علی کے قتل کے مقدمے میں، عدالت نے ۳۰؍اپریل کے فیصلے میں تمام ۱۲؍ملزمان کو گواہوں کی کمی کی وجہ سے بری کر دیا۔ فیصلے میں زور دیا گیا کہ ثبوت کے طور پر پیش کی گئی واٹس ایپ بات چیت اپنی ’’خامیوں‘‘ کی وجہ سے تنہا سزا دینے کے لیے ناکافی ہیں، اور ان کی تصدیق آزاد اور قابل اعتماد ثبوت کے ذریعے ہونی چاہیے۔ عدالت نے تبصرہ کیا کہ ایک فرد کے علاوہ، کسی بھی گواہ نے جرم کو ہوتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔  اسی طرح۲۸؍ مارچ کو امین کے قتل سے متعلق فیصلے میں، عدالت نے اس کی موت کو یقینی قرار دیا لیکن کہا کہ وہ اس کے قتل کے واقعے کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتی۔  اس مقدمے میں بھی، صرف ایک گواہ اپنے بیان پر قائم رہا جبکہ دیگر گواہ منحرف ہو گئے۔ اسی دن بھورے علی کے قتل سے متعلق ایک اور فیصلے میں، عدالت نے نوٹ کیا کہ کسی بھی گواہ نے حملے یا قتل کو ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، جو براہ راست گواہی کی کمی کو واضح کرتا ہے۔۲۷؍ مارچ کے فیصلے میں، عدالت نے تشدد کا شکار ہونے والے حمزہ کی موت کے حالات کے بارے میں غیر یقینی کا اظہار کیا۔  عدالت نے کہا، ’’جب ثبوت سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ حمزہ کو کس ہجوم نے مارا ہے، تو یہ کہنا محض ایک رسم ہے کہ ریکارڈ پر کوئی ثبوت موجود نہیں ہے جو یہ ظاہر کرے کہ کوئی بھی ملزم مجرم ہجوم کا رکن تھا۔‘‘ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس مقدمے کے تمام گواہ منحرف ہو گئے تھے۔۱۳؍ مئی کے ایک الگ فیصلے میں، اضافی سیشن جج پرماچالا نے تمام ملزمان کو قتل کے الزامات سے بری کر دیا لیکن ایک فرد، لوکیش سولنکی، کو عوامی فساد اور برادریوں کے درمیان دشمنی پھیلانے کے لیے بیانات دینے پر مجرم قرار دے دیا۔  عدالت نے کہا، ’’یہ بھی واضح ہے کہ ملزم لوکیش کے پیغامات کا مقصد دوسروں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا تھا۔ یہ عمل درحقیقت ان کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کے مترادف تھا۔‘‘

عدالتی ریکارڈ کے مطابق، فروری۲۰۲۰ء سے فروری ۲۰۲۵ء تک شمال مشرقی دہلی پولیس نے فسادات، آتش زنی اور قتل کے مقدمات میں۷۰۰؍ ایف آئی آر درج کیں، جن میں سے۱۰۹؍  مقدمات میں فیصلے سنائے گئے ہیں۔  ان میں سے۹۰؍ مقدمات (۸۲؍ فیصد) میں رہائی کا فیصلہ ہوا ہے، جبکہ صرف۱۹؍  ( ۱۸؍ فیصد) مقدمات میں سزا ہوئی ہے۔  قابل ذکر بات یہ ہے کہ۹۰؍ میں سے۵۱؍ ( ۵۷؍ فیصد) مقدمات میں گواہ مخالف ہو گئے، جس نے استغاثہ کے کیس کو شدید کمزور کر دیا۔ دریں اثنا، شہریت ترمیم قانون ( سی اے اے ) کے خلاف احتجاج میں شامل مسلم طلباء اور کارکنان جیلوں میں بغیر ضمانت یا مقدمے کے سڑ رہے ہیں، جسے کئی لوگوں نے دہلی پولیس کی طرف سے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ ( یو اے پی اے) کے تحت  ظالمانہ قرار دیا ہے۔  دہلی فسادات کو عام طور پر بی جے پی رہنما کپل مشرا کے مسلم مخالف اور غیر آئینی شہریت قانون کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے بارے میں اشتعال انگیز تبصروں سے شروع ہونے والا سمجھا جاتا ہے۔ ویڈیو ثبوت اور گواہوں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس نے ہندو ہجوم کو مسلم معاشرے کو نشانہ بنانےکیلئے  گلیوں میں آزادانہ گھومنے دیا۔

تاج محل میں نصب کیا جائے گا اینٹی ڈرون سسٹم

بی جے پی ایم ایل سی کا آئی اے ایس افسر پر متنازع بیان، فوزیہ ترنم کو ’پاکستانی‘ کہنے پر مقدمہ درج