مولانا عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
شریعت مطہرہ کے اصول و قوانین انسانی زندگی کے تمام شعبوں؛معتقدات، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق سب کو حاوی ہیں، شریعت کے قوانین میں وہ تقسیم نہیں جو آج کی بیشتر حکومتوں کے دستوروں میں پائی جاتی ہے ؛ ایک قسم کو پرسنل لاء (Personal Law)یعنی احوالِ شخصیہ کا نام دیا جاتا ہے ،جو کسی انسان کی شخصی اور عائلی زندگی سے متعلق ہوتی ہے ۔دوسری قسم مشترک قانون (Common Law) کے نام سے معروف ہے ، جو کسی ملک کے تمام باشندوں کے لیے یکساں ہوتا ہے ،اسلام اس تقسیم کا قائل نہیں، انسانی مسائل خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی،تمدن وثقافت اور مال وزر سے اُن کا تعلق ہو یا اخلاقی بے راہ روی اور جرائم سے ،سب کاحل شریعتِ اسلامیہ میں یکساں طور پر موجودہے ، اور ہر مسلمان پر ان تمام احکام کی پیروی ضروری اورلازمی ہے ، اس کے قوانین میں شخصی اختیار کی کوئی گنجائش نہیں ۔
انسانی معاشرے میں تنازعات و اختلافات کوئی انوکھی چیز نہیں ؛بل کہ مزاج و مذاق کے تنوع سے ان کا پیدا ہوناناگزیرہے ؛جن کے حل کے لئے ہمیں دیگر شعبوں کی طرح خدا اور رسول ہی کی جانب رجوع ہونے کاحکم دیاگیاہے ،ہمارے مسائل کا حل اسی میں پوشیدہ ہے اور اطاعت خدا و رسول ہم پر فرض ہے ، مسلمان کی شان یہی کہ وہ سرکار دو عالم ﷺکی ہر ادا کا دیوانہ ہوتا ہے ، تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ صحابہ کو جب کوئی مسئلہ پیش آتا تو نبی اکرم ﷺ کے پاس ایسے دوڑے چلے آتے جیسے شدید پیاس میں انسان کنوئیں کی جانب دوڑتا ہے ، اور اپنے مسائل کا حل پالیتے ،آن کی آن میں مسئلہ حل ہوجاتا،تشنگی سیرابی میں تبدیل ہوجاتی،چناں چہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا جہاں کہیں اسلامی پرچم لہرایاگیا، جس زمین پر بھی مسلمانوں نے قدم رکھا وہاں مسلمان قاضی پہونچے اورکتاب وسنت کی روشنی میں فیصلے صادرکئے نیزجب تک مسلمانوں کی حکمرانی رہی عدل و انصاف کا بول بالا رہا ؛جس سے متاثر ہوکر ہزارہا مظلوم انسانوں نے دامن اسلام میں پناہ لی ۔
عدل وانصاف کی اہمیت؛کتاب اللہ کی روشنی میں:
عدالتی نظام میں بنیادی کردار عدل وانصاف کا ہے ؛اس لیے اسلام نے عدل وانصاف اورحقوق و مساوات پر بہت زور دیا ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : اے ایمان والو! اللہ کے لیے (حق پر) مضبوطی سے قائم رہنے والے ہو جاؤ، درآں حالکہے تم انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے ہو،کسی قوم (یا فرد)کی عداوت تمہیں بے انصافی پر نہ ابھارے ، تم عدل کرتے رہو کیوں کہ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمہارے سب کاموں کو خوب جاننے والا ہے ۔ (المائدہ:8)
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: اور اگر تم ان (فریقین)کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔ (المائدۃ:42)
اسلام نے باہمی تعلقات اور لین دین میں دیانت داری، عدالتی معاملات میں سچی گواہی اور عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کی بار بار تاکید کی ہے تا کہ حقوق العباد متاثر نہ ہوں۔ اس لیے حق دار کو حق دلانے اور مظلوم کو ظالم کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے عدالتوں کا نظام قائم کیا جاتا ہے ۔ حضور اکرمؐ کا فرمان ہے کہ جو قوم عدل وانصاف کو ہاتھ سے جانے دیتی ہے تباہی اور بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔
قرآن کریم میں اللہ پاک اہل ایمان کو عدل وانصاف قائم کرنے اور حق و سچائی کے مطابق گواہی دینے کا یوں حکم فرماتے ہیں: اے ایمان والو! انصاف پر خوب قائم ہو جاؤ ۔اللہ کی رضاکے لیے حق و سچاکے ساتھ گواہی دو چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتے داروں کا، جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر، بہر حال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے ، تو خواہش نفس کے پیچھے نہ پڑو کہ حق (عدل)سے الگ پڑو اور اگر تم گواہی میں ہیر پھیر کرو یا منہ موڑو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔ (النساء: 135)
اس آیت مقدسہ میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عدل وانصاف قائم کرنے اور حق وسچائی کے مطابق گواہی دینے کی تاکید اور حکم فرما رہا ہے ، اور فرمایا کہ چاہے تمہاری سچی گواہی کی وجہ سے تمہارے ماں باپ اوررشتے داروں کو نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے ، گواہی ہر حال میں حق و سچ کے ساتھ ہونی چاہئے ۔
عدل وانصاف اوراسوۂ نبوی ﷺ:
خطبہ حجۃالوداع کے موقع پر رسول اکرمؐ نے ساری دنیا کو مساوات کا درس دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تم سب کا پروردگار ایک ہے اور تم سب کا باپ بھی ایک (حضرت آدمؑ )ہے ، کسی عربی کو عجمی پر او ر کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اورنہ کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو کسی گورے پر فضیلت حاصل ہے ، سوائے تقویٰ اور پرہیز گاری کے ۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)اس اہم ترین قول کے بعدرسول اکرمؐ کی مبارک زندگی سے عدل وانصاف کی کچھ مثالیں پیش کر تے ہیں۔
ایک مرتبہ قبیلہ بنی مخزوم کی ایک عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی۔ یہ خاندان چوں کہ قریش میں عزت اور وجاہت کا حامل تھا، اس لیے لوگ چاہتے تھے کہ وہ عورت سزا سے بچ جائے اور معاملہ کسی طرح ختم ہوجائے ۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ جو رسول اکرمؐ کے منظور نظر تھے ۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ اس معاملے میں رسول اکرمؐ سے معافی کی سفارش کیجیے ۔ انہوں نے حضور اکرمؐ سے معافی کی درخواست کی۔ آپؐ نے ناراض ہو کر فرمایا: بنی اسرائیل اسی وجہ سے تباہ ہوگئے کہ وہ غرباء پر بلا تامل حد جاری کردیتے تھے اور امراء سے درگزر کرتے تھے ، (یہ تو فاطمہ بنت اسود ہے )قسم ہے رب عظیم کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، اگر(بالفرض) فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرتیں تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔ (صحیح بخاری)
اسی طرح غزوۂ بدر کے موقع پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ حضور اکرمؓ کے چچا حضرت عباسؓ بھی گرفتار ہو کر آئے تھے ۔ قیدیوں کو زرِ فدیہ لے کر آزاد کیا جا رہا تھا ۔ فدیہ کی عام رقم چار ہزار درہم تھی؛ لیکن امراء سے زیادہ فدیہ لیا جاتا تھا۔چوں کہ حضرت عباسؓ حضور اکرمؐ کے قریبی رشتے دار تھے ، اسی واسطے سے بعض انصار نے رسول اکرمؓ سے عرض کیا، یا رسول اﷲﷺ ! اجازت دیجئے کہ ہم اپنے بھانجے (عباس)کا زرِ فدیہ معاف کردیں۔ یہ سُن کر حضور اکرمؐ نے فرمایا ہر گز نہیں، ایک درہم بھی معاف نہ کرو؛بلکہ حضرت عباس سے ان کی امارت کی وجہ سے حسبِ قاعدہ چار ہزار درہم سے زیادہ وصول کیے جائیں۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی و باب فداء المشرکین )
یہ دو واقعات بطور مثال کے پیش کئے گئے ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے کئی واقعات ہیں جو اسلام کی عدالت و انصاف پسندی کی سچی تصویر ہیں اور تاریخ کی کتابیں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں جن میں مسلمان قضاۃ وحکام کے دوٹوک فیصلوں نے دنیا میں اسلامی نظام عدل و انصاف کی ایک نمایاں مثال قائم کی ؛جن میں قاضی شریح ، قاضی ایاس، خلیفہ عمر بن عبدالعزیز، قاضی شریک، قاضی ابوحازم ،قاضی ابویوسف، قاضی منذر بن سعید وغیرہ کے نام افق عالم پرروشن ودرخشاں ہیں۔مختصر یہ کہ ہر زمانہ میں مسلمانوں نے اسلام کے اس مقدس فریضہ(قیام عدل)کو انجام دینے کی بھرپور کوششیں کی اور تاہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔
دارالقضاء اور ہندوستان:
ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں بھی ؛جس میں ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے اس وقت سے پرسنل لاء پر عمل درآمدکی اجازت ہے ؛جب کہ مادر وطن سامراجی پنجۂ استبداد میں جکڑاہو تھا،چناں چہ اس وقت کے اکابر علمائکی مسلسل محنت و جدوجہد سے۱۹۳۷ء میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ بنا،اس قانون کے مطابق عائلی مسائل میں فریقین کے مسلمان ہونے کی شرط کے ساتھ شریعت اسلامی کو عرف ورواج پر بالا دستی حاصل ہوئی پھرملک کو انگریزوں کے تسلّط سے آزاد کرانے کی جدوجہد شروع ہوئی تو مسلمانوں نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس زمانے میں کانگریس اور جمعیت علماء آزادی کی جدوجہد کرنے والی سب سے بڑی جماعتیں تھیں چناں چہ کانگریس نے اپنے متعدد سالانہ اجلاسوں کی قراردادوں میں مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے مسئلے کو شامل کیااور مسلمانوں کو یقین دہانی کرائی کہ آزادی کے بعدمسلم پرسنل لا کا تحفظ کیا جائے گا اور اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔لیکن آزادی کے بعد جب آئین مرتب ہوا تو اس میں اقلیتوں کے پرسنل لا کے تحفظ سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں شامل کیا گیا،بلکہ رہ نما اصول کے حصے میں یہ دفعہ شامل کی گئی کہ حالات سازگار ہونے پر حکومت یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے کیے کوشش کرے گی۔
موجودہ حالات، اسلامیان ہند کے لئے نہایت پرخطر اور خوفناک ہیں،ہرطرف سے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات ہورہی ہے ؛بل کہ حالیہ چند سالوں سے ملک کو ایک مخصوص رنگ میں رنگنے کی کوششیں بھی جاری ہیں ؛ایسے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نظامِ قضاء قائم کریں، شرعی پنچایتیں اور تصفیہ کمیٹی بنائیں ،اپنے تنازعات کو ان اداروں میں لے جائیں اور وہاں سے جو فیصلہ ہو اسے بہ سروچشم قبول کریں ۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ :
میڈیا کے ذریعہ پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داران کا یہ اعلان جوں ہی منظر عام پر آیا کہ پرسنل لا بورڈ ملک کے تمام شہروں اور قصبوں میں نئے دار القضاؤں کے قیام اور پرانے دار القضاؤں کو فعال بنانے پر غور کرنے والا ہے تو فوری رد عمل کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ،مثبت و منفی دونوں پہلوؤں پربہت کچھ لکھا اور بولاگیا ،ان سب کے درمیان بعض خیرخواہوں کا یہ تجزیہ بھی دیکھنے کو ملا کہ دارالقضاء کورٹ کے متوازی ایک الگ نظام ہے جو حکومتی پالیسیوں کے سراسر خلاف ہے ؛اسی بناء پر اس تعلق سے غلط فہمی دور کرنے کے لیے ہم نے یہ عنوان قائم کیا،چناں چہ اس حوالے سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اپنے صحافتی بیان میں فرماتے ہیں کہ" دارالقضاء کا نظام ہندوستان میں آزادی کے پہلے سے مختلف علاقوں میں چل رہا ہے ، جن کے ذریعہ ہر سال ہزاروں معاملات آپس میں طے کرائے جاتے ہیں، یہ کوئی متوازی کورٹ نہیں ہے ، اور نہ دارالقضاء زور زبردستی سے اپنی بات فریقین پر نافذ کرتا ہے ، یہ ثالثی اور مصالحت کے ذریعہ خاندانی زندگی سے متعلق پیدا ہونے والے جھگڑوں کو حل کرنے کا ایک ادارہ ہے ، جس میں اخلاقی طور پر فریقین کو صلح پر آمادہ کیا جاتا ہے ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس نظام کو اُن علاقوں تک توسیع دینا چاہتا ہے ، جہاں ابھی دارالقضاء قائم نہیں ہوئے ہیں، دارالقضاء کے نظام سے خاص کر خواتین کو بڑی سہولت ہوتی ہے ، بغیر کسی خرچ کے نہایت کم وقت میں کونسلنگ کے ذریعہ اُن کے معاملات طے کئے جاتے ہیں، اور اُن کو اُن کے حقوق دلائے جاتے ہیں، دارالقضاء اس بات کی بھی کوشش کرتا ہے کہ طلاق کے واقعات کم ہوں، جب شوہر وبیوی کے درمیان اختلاف بڑھتا ہے اور اندیشہ ہوتا ہے کہ شوہر طلاق دے دے گا تو دارالقضاء عورت کی تحریک پر اس کے شوہر کو سمجھاتا ہے ، اور مفاہمت کا راستہ نکالتا ہے ، دارالقضاء در حقیت کورٹ کا معاون ہے ، اور عدالتوں پر مقدمات کا جو غیر معمولی بوجھ ہے ، وہ اس کو ہلکا کرنے کی کوشش کر رہا ہے "۔
دارالقضاء کے مقاصد اور ہماری ذمہ داریاں:
محکمۂ شرعیہ اس لئے قائم کیا جائے تاکہ انصاف کو شرمندہ نہ ہو نا پڑے ، آسانی کے ساتھ اور کم سے کم وقت میں لوگوں کو انصاف ملے ، فیصلہ قرآن و حدیث اور احکام الہی کے مطابق ہو اور مسئلہ فریقین کی موجودگی ہی میں بے غباراورواشگاف ہو جائے ۔
شریعت کے تحفظ کا سب سے بہتر ین طریقہ یہ ہے کہ ہم خوداس پردل وجان سے عمل پیرا ہوں، صرف غیروں کے سامنے احتجاج و شکوہ کرنے کے بجائے عملی اقدامات کے ذریعہ اسلامیات کے تعلق سے بیدارمغزی کا ثبوت دیں ،ہمارا دعوی ہے کہ شریعت اسلامی میں عورتو ں او ربچوں کو سب سے زیادہ انصاف دیا گیا ہے ، تو ہمیں اس دعوی کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا نیز زندگی کے ہرموڑ پر شرعی فیصلوں کو تسلیم کرناہوگا۔ اگر کوئی مسلمان اس سے اعراض کرے تو اس کے کفر کا اندیشہ ہے ، ارشادِ ربانی ہے : جو لوگ باہمی نزاع میں آپ ﷺ کو حَکَم تسلیم نہ کریں اور آپ ﷺ کے فیصلہ کوبہ سرو چشم قبول کرنے کو تیار نہ ہوں وہ مؤمن نہیں ہوسکتے ، (النساء، ۶۵)، اسکے علاوہ قرآن نے ان لوگوں کو بھی ظالم و فاسق شمار کیا ہے جو شریعتِ محمدی سے روگردانی اختیار کرتے ہوں (مائدہ، ۴۷)۔
اسی طرح ذمہ داران کو چاہیے کہ نکاح نامہ میں شریعت کی روشنی میں ایسی شرائط شامل کریں جو نز اع کو دور کرنے کے لیے محکمہ شرعیہ کی طرف رجوع میں معاون بنیں اورلوگوں کو عدالتوں کے چکر کاٹنے سے بچایا جا سکے ۔
اخیر میں مفکر اسلام مولانا زاہدالراشدی کی اس اہم تجویز پر بات ختم کرتے ہیں ،مولانامحترم اپنے مضمون بھارت میں غیر سرکاری شرعی عدالتوں کا قیاممیں تحریرفرماتے ہیں:ہمارے نزدیک سب سے زیادہ ضرورت عوامی سطح پر دینی شعور کو بیدار کرنے اور اجتماعی معاملات میں دینی راہ نمائی کو قبول کرنے کا احساس پیدا کرنے کی ہے اور اس سے بھی زیادہ ضرورت دینی اخلاقیات کو عملی زندگی میں لانے کی ہمہ گیر جدوجہد کی ہے ۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کواس بات کے لیے تیار کرنا بھی ضروری ہے کہ ہر معاملہ میں عدالت اور سرکاری دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے جو معاملات وہ کسی سطح پر خود طے کر سکتے ہیں، انھیں عدالت اور سرکار کے دروازے سے باہر ہی نمٹا لیا جائے ۔ اس سے جھگڑوں میں بھی کمی آئے گی اور عدالتوں پر کام کا بوجھ بھی کم ہوگا، مگر اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے ، مناسب منصوبہ بندی درکار ہے ، ٹیم ورک اور مسلسل ورک کا حوصلہ چاہیے جس کے لیے ہم میں سے شاید کوئی بھی تیار نہ ہو اور یہی ہماری قومی زندگی کا سب سے بڑا روگ ہے ۔
خدا کرے کہ ہم اپنی سوچ اور ترجیحات پر ایسی نظر ثانی کر سکیں جو ہماری معاشرتی زندگی میں کسی مثبت تبدیلی اور انقلاب کی نوید بن جائے ۔ آمین یا رب العالمین۔
(مضمون نگار کی رائے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
12؍جولائی2018(فکروخبر)
جواب دیں