حج بیت اللہ کی اجتماعیّت اور لبیّک اللہم لبیّک کی معنویّت

از:عطاء الرحمن القاسمی،کڈیکل،شیموگہ
حج اسلام کے چار بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے اورمسلمانوں کا اک عالمی اجتماع بھی ہے۔ابو الانبیاء سید نا ابراہیم ؑ کی رِقّت آمیز ومستحاب دعائوں کا نتیجہ ہے کہ لوگوں کا ٹھا ٹھیں مار کا ہوا سمندر جوق در جوق دیوانہ واربیت اللہ کی طرف آنے لگا،یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اورصبح قیامت تک جاری رہیگا۔
؎ دنیا کی محبت ہے نہ وہ یاد ِبتاں ہے
پھر سوئے حرم قافلۂ شوق ِ رواں ہے
حج کی اہمیت وحقیقت اور اجتماعیت اس کی روح اور اِسپرٹ کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔مِلّت ِ اسلامیہ پر اس کے اثرات اوراقوام ِ عالم کو اس سے کیا پیغام ملتا ہے یہ جاننے کی ضرورت ہے۔(آج ساری دنیاکو سمیٹ کر ایک شہر یا ایک گائوں بنا دینے کا بہت ہی شُہرہ ہے،لیکن کیا انسان اور انسان کے درمیان جو دیوار یں صدیوں سے حائل تھیں وہ گِر چکی ہیں،کیا رنگ ونسل ،گورے اور کالے،تعلیم یا فتہ اور جاہل،عادل و ظالم، بادشاہ و رعایہ،حاکم و محکوم اور فرماں روا اور عامی میں تفریق کا خاتمہ ہوچکا؟امیر و غریب اور چھوٹے اور بڑے میں کوئی تمیز باقی نہیں رہ گئی؟اگر آپ اور ہم غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ دیواریں ابھی نہ صرف باقی ہیںبلکہ سَدِّ سکندری اور دیوار چین سے بھی زیادہ مضبو ط ہوگئی ہیں۔اور انسان نے انسانیت ،شرافت ،محبت ،مروّت،اُلفت اور مودّت کو اپنے پائوں تلے روند ڈالا ہے اسکی اعلیٰ روایتوں کے تاج محل کو منہدم کردیا بلکہ خود غرضی و خودستائی اور مطلب پرستی وجاہ طلبی،قطع رحمی ورخنہ اندازی ،سنگدلی وبداخلاقی کی مکروہ اور قابل ِ نفرت فلک بوس عمارتیں تعمیر کررہا ہے یہاں تک کہ انسان کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے؟)
مگر یہ صرف اور صرف اسلام کا بے مثال کارنامہ ہے کہ اس نے ایک ضرب میں ان تمام خود ساختہ دیواروں کو ڈھا دیا،ان نفرت کی فلک بوس عمارتوںکو منہدم کردیا اور حدیث پاک کے مطابق أَلاِسلام یہدم ماکان قبلہٰ کا منظر پیش کیا ،حج کا یہ عالمی اجتماع بکھرے اور بچھڑے انسانوں کو ایک جگہ جمع کیا وحدت واخوت انسانیت و شرافت کا بے مثال نمونہ پیش کیا جس سے انتشار اتفاق سے، عداوت محبت سے،ذلّت شرافت سے، بد خلقی نیک خوئی سے اوربے رحمی رحم دلی سے اور شقاوت سعادت سے بدل گئی ،حج کے ایک ایک منسک نے جہاں رنگ و نسل کے امتیازات کو ختم کیا اجتما عیت وحدانیت کی تلقین کی چھوٹے اور بڑے کے فرق کو مٹایا،لباس و پوشاک کے اختلاف کو ختم کیا ،کہساروں اور عالیشان محلوں میں بسنے والوں کوتپتے ہوئے صحرا اور وادیوں ہیںٹہرایا تاکہ دنیا کے تمام انسان ہر قسم کے اختلافات سے ممتاز ہوکر اجتماعیت کی بے مثال عمارت قائم کریں اور حج کا یہ بے مثال ٹھاٹھیں
مارتا ہواانسانیت کا سمندر اتحاد و اتفاق محبت و مودّت کا خوگر ہو ہر سال یہ عظیم رکن اسی کی تلقین کرتا ہے کہ ساری اُمّت ِ مسلمہ حج کی اہمیت و اجتماعیت کو سمجھے اور حج اس کا بہترین نمونہ اور عکس ہے۔
حضرت سید نا ابراہیم ؑ کی دعا کیا تھی ،ایک بندہ ٔ مومن کی تڑپ ،خدا کے برگزیدہ پیغمبر کی آرزو اور ایک معمّر وپیرانہ سالی میں قدم رنجہ باپ کی تمنّا تھی،جسکی ساری زندگی خدا کے امتحانات اور آزمائشوں سے عبارت ہے اور آزمائش بھی کیسی ،اللہ اللہ جس سے پتھر کا دل بھی موم ہوجائے،اپنی پیرانہ سالی میں اولاد مانگی تو اس لئے کہ اس کے بعد اس کے پیغمرانہ مشن کو باقی رکھے ضعیفی اور عمر کے آخری مرحلے میں یہ لڑکا باپ کا معاون بنے۔یہ مقصود تھا ،ساتھ ساتھ یہ خدا کا خلیل و ادئی غیر ذی زرع میں بیت اللہ کی تعمیر کرتا جاتاتھا اور ساتھ میں یہ دعا بھی مانگتا جاتا تھا۔
’’اے پرور دگار میں نے تیرے محترم گھر کے پاس ایک ایسے بیابان میںجو بالکل بے برگ و بے آب وگیاہ ہے اپنی نسل کو لاکر بسایا ہے تاکہ یہ لوگ تیری عبادت کو قائم کریںپس تو ایسا کرکہ انسانوں کے دلوں کو ان کی طرف پھیر دے اور ان کے لئے رزق کا بہترین انتظام کردے تاکہ وہ تیرا شکرادا کریں۔
چنانچہ حضرت سیدنا ابراہیم ؑ کی دعا بارگاہ ِ ربّ العزت میں مقبول ہوئی۔خدائے بزرگ وبرتر کی حمد وثنا کرتے ہوئے اطرافِ عالم سے حجاج کے قافلے مکۂ مکرمہ پہنچنے لگے۔سب کے لبوں پر ایک ہی ترانہ، عجزوانکساری،عبدیت وخاکساری کے پیکر،تمام آسائسشوں وراحتوں سے دور ،دولت کدوں اور عشرت کدوں سے بے نیاز، تمام مادّی اور دنیاوی طاقتوں سے بے بہرہ ایک خدا کی بڑائی و برتری کا اعلان کرتے ہوئے سب کی زبانوں پر ایک ہی کلمہ لبیک اللہم لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک۔
یہ دعا مختصر سہی لیکن انقلابی ہے۔اس میں جہاں ایک طرف خدائے واحدوربّ ِذوالجلال کے علاوہ سب کی نفی ہے وہیں اس بات کا اقرار و اعتراف بھی ہیکہ وہ صرف اللہ کی حاکمیّت وآمریّت کو تسلیم کرتے ہیں۔اگر کسی کو اپنا حاکم سمجھتے ہیں تو صرف خداکی ذات ِ واجب الوجودکو،اگر انسانوں کیلئے رضا چاہتے ہیں تو صرف خدا ئے وحدہ لاشریک لہٗ کی،اگر وہ بندگی کریں گے تو صرف خدائے لم یزل ولایزال کی۔وحدانیت کے ان کلمات کو ادا کرنے والوں میں لازماً تبدیلی آنی چاہئیے۔توحید کی علمبرداری ہر جگہ اور موقع پر ظاہر ہو،اپنی عاجزی وانکساری،عبدیت و بندگی کا ہر جگہ مکمل ظہورہو اور خدا ئے احکم الحاکمین کے سامنے اپنی غلامی ومحتاجی کا ہر وقت وہر آن اعتراف ہو۔معاملہ اگر اس کے برعکس ہے تو اپنے رویّہ پر نظرِ ثانی کرنی چاہئیے۔اس عالمی اجتماع کا منظر کیسا ہوتا ہے،مولانا ابوالکلام آزاد نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے’’تمام دنیا نسلی تعصبّات کے شعلوں میں جل رہی ہے۔مگر دیکھو یہ دنیا کی تمام نسلیں کس طرح بھائیوں اور عزیزوں کی طرح ایک مقام پر جمع ہیں اور سب ایک ہی حالت ایک ہی وضع،ایک ہی لباس،ایک ہی قطع،ایک ہی مقصد اور ایک ہی صدا کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔یہ سب خدا کو پُکار رہے ہیں۔سب خدا ہی کے لئے حیران و برگشتہ ہیں سب کی عاجزیاں اور درماندگیاں خدا ہی کے لئے اُبھرآئی ہیں۔سب کے اندر ایک ہی لگن اور ایک ہی ولولہ ہے انہوں نے نہ صرف دنیا کے مختلف گوشوں کو چھوڑا ،بلکہ دنیا کی خواہشوں اور ولولوں سے بھی کنارہ کش ہوگئے۔
حج ایک ایسی عبادت ہیکہ جس میں بیک وقت کئی چیزوں کی قربانی اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔یہ مالی عبادت بھی ہے اور جسمانی بھی۔اس میں جہاں وقت درکارہے وہیں اپنے کاروبار اور ملازمت سے بھی دست بر دار ہونا پڑتا ہے۔عزیزوں اور رشتہ داروں کی جدائی،والدین اور بیوی بچوں کا فراق اور بہت ساری جائز خواہشات سے بھی ہاتھ اُٹھانا پڑتا ہے۔لیکن ایک بندئہ مؤمن اللہ کی رضا و خوشنودی کے خاطر ان تمام چیزوں کو گلے لگا لیتا ہے۔اس کے بدلے میں اسے بے شمار دینی اور روحانی فائدے پہنچتے ہیں۔خدا کی یاد اور اس کی رضا کے حصول کیلئے سعی کرنے سے پرہیزگاری و تقویٰ کی صفت پر وان چڑھتی ہے۔
حرم کی سر زمین پر پہنچ کر انسان قدم قدم پر اُن لوگوں کے آثار دیکھتا ہے جہنوں نے اللہ کی بندگی وغلامی میں اپنا سب کچھ قربان کردیا۔یہ وہ مقدس سرزمین ہے جہاں کے چپّے چپّے پراس کے محبوب (فداہ ِ واُمّی) ﷺ کے نشانات ثبت ہیں۔مکٔہ مکرمہ کے تیرہ سال ذراتصّور کیجئے کتنے واقعات رونما ہوئے حضور اکرم ﷺ اور ان کے اصحاب ؓ کو سخت ترین مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔مکہ شہر اپنی وسعت اور کشادگی کے باوجود اہل ایمان پر تنگ ہوگیا لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے توحید کی دعوت دی اور اللہ کے کلمہ کو بلند کرکے ہی دم لیا۔
حج کے ایّام اس لحاظ سے بھی قیمتی ہیں کہ ایک بندئہ خدا اپنی کوتاہیوں ،غلطیوں اور خامیوں پر شرمندہ ہوکر سرِ نیاز اپنے معبود حقیقی کے سامنے خم کرکے توبہ کی درخواست کرتا ہے۔خدا اور اس کے بندوں کے درمیان کوئی حجاب نہیں رہتا ۔رحمت و مغفرت عفوو درگذر کے دروازے ہمیشہ اور ہروقت کھلے رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے۔’’اے میرے غافل بندو کہ تم نے عہد عبودیت ونیاز کو توڑ کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔تمہاری بداعما لیاں خواہ کتنی سخت ہورہی ہوں بایں ہمہ اگر اب بھی توبہ و انابت کا سرجھکا دو تو میں تمہارے جرم کو بخش دوں گا۔کیونکہ میں بہت ہی بخشنے والا اورر حم فرماہوں‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے اس وعدے سے بھی کوئی فائدہ نہ اُٹھاسکے تو یہ بڑی بدقسمتی اورخسارے کا سودا ہے۔اس سے وہی غفلت برت سکتا ہے جو عاقبت نااندیش ہو،جسے کل کی جواب دہی کا احساس نہ ہو وہی ان عظیم برکتوں سے محروم رہ سکتا ہے۔اس نازک موقع پر اپنا احتساب ضرور کرنا چاہیے۔مؤمن کی عملی تصویر قرآن میں دیکھئے اور پھر اپنی ذات اور اُمت ِ مسلمہ پر نظر دوڑائیے کتنی افسوسناک صورت حال ہے۔نہ اپنے منصب کی پہچان نہ اپنے فرائض سے واسطہ۔بات بات پر جھگڑے،گروہ بندیاں،ذات پات کی دیوار یں ایک دوسرے کے خلاف فتوے،تحمل وبرداشت اور رواداری و غمخواری کی صفت سے کورے،کاہلی وسستی میں بے مثال اور اپنی ذاتی غرض کیلئے ملّت ِ اسلامیہ کو بڑے سے بڑے خسارے سے دو چار کردینے والے کیا یہی ہماری شناخت رہ گئی ہے؟قرآن نے تو کہا تھا یقینا اللہ چاہتا ہے اُن لوگوں کو جولڑتے ہیں اس کی راہ میں قطار باندھ کر گویا وہ دیوار ہیں سیسہ پلائی ہوئی ‘‘(الصف پ ۲۸)
مؤمن کی عملی تصویر قرآن کی نظر میں یہی ہے اور حج میں اس کا مشاہدہ بھی ہوتا ہے۔سید نا ابراہیم ؑ کو جب اللہ تعالیٰ منصب امامت پر سرفراز فرمایا تو یہ شرط بھی لگا دیا کہ یہ منصب قیادت وسیادت اللہ کے محسنوں کیلئے ہے۔اور سنت اللہ یہی ہیکہ جو لوگ اللہ کی رضا و خوشنودی کواپنے اوپر لازم قراردے لیتے ہیں خلافت ِارضی ان کے حوالے کردی جاتی ہے۔ہر سال حج کا موقع اس عہدکی یاد دلاتا ہے اور میشاق الہٰی کی یاد تازہ کرتاہے۔امامت ِ کبریٰ پر سرفراز ہونے کیلئے ضروری ہے کہ اس عہد کو پورا کیاجائے۔ہم دعائیں کرتے ہیں اور ابھی بھی اپنے ربّ کی رحمت کے اُمیدوار ہیں،لوگ ایمان و جاں کے دشمن بنے بیٹھے ہیں لیکن ہم مایوس نہیں ہیں۔کسی نے سچ کہا ہے وہ خدا جس نے ابراہیم ؑ کی دعا سنی،جس نے اسماعیل ؑ کی قربانی کو قبول کیا ،وادی غیرذی زرع اور ظہور ِ رسالت کبریٰ سے لیکر مشارق و مغارب ومجمع ِ اوّلین و آخرین بنایا،اگر تمہاری بداعمالیوں اور سرکشیوں کی وجہ سے تمہیں ٹھکرا سکتا تھا تو آج وہ تمہیں پیار و محبت بھی کرسکتا ہے۔تمہاری دعائوں کو سن بھی سکتا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ کے حضور روئیں گڑ گڑائیں ،اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوں،اپنے بُرے اعمال پر پشیمان ہوں اورنئے عزم و حوصلے کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں خوشنودی حاصل کرنے اور دنیا میں اس کی مرضی و حکمرانی کو عام کرنے کی کوشش کریں۔یہی صحیح معنون میں خدا کی بندگی وغلامی ہے،یہی حج کی حقیقت و اہمیت اوراصل حج کا پیغام ہے۔آخر میں ایک معروف شاعر حمید صاحب لکھنوی جو حرمین کے عاشق زار تھے۔زیارت حرمین ان کی رگ رگ میں رچ بس گئی ہے۔علامہ سید سلیمان ندویؒ ،مولانا سید مناظرا حسن گیلانی ؒ، مولانا صبغت اللہ شہید انصاریؒ فرنگی محل لکھنو، جگر مرادآبادی،شفیق جونپوری اور امجد حیدر آبادیؒ وغیرہ اساطینِ شعرو ادب نے بھی ان کی حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔میں یہاں ان کے چند اشعار پیش خدمت ِ کرنے پر اکتفار کرتا ہوں۔ ؎
دیکھا ہے،جب سے جدے کا ساحل نہ پوچھئے بے تاب کس قدرہے مرا دل نہ پوچھئے
دل جانب ِ مدینہ ہے ، رُخ جانب ِ حرم اب انتہائے کشمکش دل نہ پوچھئے
٭٭٭
خدا کا حریم جلال آرہا ہے نگاہوں میں نور ِ جمال آرہا ہے
زباں پر ہے لبیک کا نغمہ جاری نہ وجد آرہا ہے نہ حا ل آرہا ہے
٭٭٭
جلوئہ کعبہ سے دل بے ہوش ہے
کس غضب کا آج کیف و جوش ہے
٭٭٭٭٭٭

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔

بنٹوال میں پیش آئی قتل واردات کے بعد یوتھ کانگریس اُلال یونٹ کے جنرل سکریٹری نے دیا استعفیٰ

عشرۂ ذی الحجہ ؛فضائل واعمال