نیو دہلی: جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالب علم نجیب احمد کی گمشدگی کا معمہ نو سال بعد بھی حل نہ ہو سکا۔ 15 اکتوبر 2016 کو نجیب کے ہاسٹل میں اکھل بھارتیہ ودیارتی پریشد (اے بی وی پی) کے کارکنوں سے جھگڑے کے بعد وہ پراسرار طور پر لاپتہ ہو گئے۔
اس کیس میں مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی تحقیقات ناکام رہیں، اور حال ہی میں نئی دہلی کی راؤس ایونیو کورٹ نے سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ قبول کر لی، جس سے نجیب کی والدہ فاطمہ نفیس کی انصاف کی امیدوں کو شدید دھچکہ لگا۔
نجیب احمد، جو جے این یو میں ایم ایس سی بائیو ٹیکنالوجی کے طالب علم تھے، 15 اکتوبر 2016 کو اپنے ہاسٹل سے غائب ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق، نجیب کا ہاسٹل میں اے بی وی پی کے کچھ کارکنوں سے جھگڑا ہوا تھا، جس کے بعد وہ لاپتہ ہو گئے۔ ابتدائی طور پر دہلی پولیس نے اس کیس کی تحقیقات کی، لیکن کوئی سراغ نہ ملنے پر 16 مئی 2017 کو دہلی ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو تحقیقات سونپ دیں۔
سی بی آئی نے 29 جون 2017 کو نجیب کا سراغ دینے والے کے لیے 10 لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا، لیکن اس کے باوجود کوئی ٹھوس ثبوت یا سراغ ہاتھ نہ لگا۔8 اکتوبر 2018 کو دہلی ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو کیس بند کرنے کی اجازت دی۔ سی بی آئی نے اپنی کلوزر رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ نجیب خود ہی لاپتہ ہوئے اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ انہیں اغوا کیا گیا یا کسی جرم کا نشانہ بنایا گیا۔
اس رپورٹ کے خلاف نجیب کی والدہ فاطمہ نفیس نے عدالت سے رجوع کیا اور کلوزر رپورٹ کو چیلنج کیا۔عدالتی فیصلہ30 جون 2025 کو راؤس ایونیو کورٹ نے ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ جیوتی مہیشوری کی سربراہی میں سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو قبول کر لیا۔ عدالت نے کہا کہ اگر مستقبل میں کوئی نیا ثبوت سامنے آتا ہے تو کیس کی دوبارہ جانچ کی جا سکتی ہے۔
فاطمہ نفیس نے سی بی آئی کی رپورٹ کے خلاف درخواست دائر کی تھی، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سی بی آئی نے کیس کی مناسب تفتیش نہیں کی اور نجیب کی گمشدگی کے سیاسی و سماجی عوامل کو نظر انداز کیا۔ عدالت نے فاطمہ کی درخواست مسترد کر دی اور سی بی آئی کو ہدایت دی کہ وہ کلوزر رپورٹ سے متعلق دستاویزات فاطمہ کو فراہم کرے۔
فاطمہ نفیس نے اپنے بیٹے کی گمشدگی کے بعد سے انصاف کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ انہوں نے دہلی پولیس اور سی بی آئی کی تحقیقات پر سوال اٹھائے اور الزام لگایا کہ ایجنسیوں نے کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ فاطمہ نے ہائی کورٹ سے کلوزر رپورٹ سے متعلق دستاویزات مانگیں، لیکن عدالت نے انہیں ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت دی۔ فاطمہ کا موقف تھا کہ سی بی آئی کی رپورٹ میں نجیب کی خود ساختہ گمشدگی کا دعویٰ بے بنیاد ہے اور اسے سیاسی دباؤ کے تحت تیار کیا گیا۔
نجیب احمد کے کیس کے بند ہونے پر سوشل میڈیاپرشدید تنقید دیکھی گئی۔ کئیں صارفین نے سی بی آئی کی ناکامی اور عدالتی فیصلے پر سوال اٹھائے۔ کچھ نمایاں پوسٹس درج ذیل ہیں
:@Justice4Najeeb”نو سال سے نجیب احمد کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں، لیکن سی بی آئی نے کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ کلوزر رپورٹ قبول کرنا انصاف کا مذاق ہے۔ کیا ایک طالب علم کی گمشدگی اتنے بڑے اداروں کے لیے معمہ بن گئی؟ #JusticeForNajeeb”
@StudentVoice
(طلبہ کے حقوق کے لیے سرگرم اکاؤنٹ):
"اے بی وی پی کے کارکنوں سے جھگڑے کے بعد نجیب لاپتہ ہوا، لیکن سی بی آئی کو کوئی سراغ نہیں ملا؟ یہ سیاسی دباؤ کا نتیجہ ہے یا نااہلی؟ نجیب کے خاندان کو انصاف کب ملے گا؟ #NajeebAhmed”
@KanhaiyaKumar
(سابق جے این یو اسٹوڈنٹس یونین صدر، سی پی آئی لیڈر):
"نجیب احمد کی گمشدگی ایک معمہ نہیں، ایک سیاسی سازش ہے۔ سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ اور عدالت کا فیصلہ انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔ کیا ایک مسلم طالب علم کی گمشدگی اتنی آسان تھی کہ کوئی سراغ نہ ملے؟ ہم فاطمہ نفیس کے ساتھ ہیں۔ #JusticeForNajeeb”
یہ پوسٹ نجیب کے کیس کو سیاسی دباؤ سے جوڑتی ہے اور سی بی آئی کی ناکامی پر سوال اٹھاتی ہے۔