مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تجویز پر امارت شرعیہ کے زیر اہتمام امیر شریعت مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی سکر یٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی صدارت میں اس عظیم الشان ” تحفظ اوقاف کا نفرنس کے شرکاء، جن میں بہار، اڈیشہ و جھار کھنڈ اور مغربی بنگال کرناٹک اورہندوستان کی دیگر ریاستوں سے تشریف لائے ریاستی وقف بورڈ کے چیئر مین، سابق چیئر مین، علماء، وکلاء، دانشور، سیاست داں،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ارکان اور کثیر تعدادمیں مسلمان شامل ہیں، ان کی واضح رائے ہے کہ
(1)مرکزی حکومت وقف ایکٹ 1995ء میں ترمیم کر کے اوقاف کی اراضی اور جائیداد پر قبضہ کرنا چاہتی ہے مسلمانوں کو وقف کے فوائد اور منافع سے محروم کرنا اس کا مقصد ہے، جو دستور ہند میں دی گئی مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے، اس لیے یہ ترمیمات از اول تا آخر A to zنا قابل قبول ہیں۔وہ اس ترمیمی بل کو فوری طور پر واپس لے، کیوں کہ یہ بل تحفظ اوقاف کے لیے نہیں ہے بلکہ اوقاف کی جائیداد کو واقف کی منشاء کے خلاف دوسرے کاموں میں استعمال کی راہ ہموار کرتا ہے، جو ہمارے دین میں مداخلت ہے اور یہ مداخلت کسی بھی درجہ میں ہمیں منظور نہیں ہے، چار کروڑ سے زائد مسلمانوں نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو رائے بھیج کر اس بل کی مخالفت کی ہے، اس لئے دستور ہند کے تحفظ، مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کے دفعات کو سامنے رکھتے ہوئے اسے حکومت واپس لے۔ ہم اسے پورے طور پر مسترد کرتے ہیں، اور ان تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جمہوری اقدار اور سیکولرزم کی حفاظت کے لئے مرکزی حکومت پر اسے واپس لینے کے لیے اپنے اثر و رسوخ اور اثرات کا استعمال کریں۔
(2) ہمار ا سرکار سے یہ بھی مطالبہ ہے کہ گذشتہ دو سالوں سے مرکزی وقف کونسل تعطل کا شکار ہے جس کی وجہ سے اوقاف سے متعلق امور انجام نہیں پارہے ہیں، حکومت کو فوری طور پر 1955ء کے ایکٹ کے مطابق مرکزی وقف کونسل کی تشکیل کرنی چاہیے، تا کہ اصول و ضوابط کی روشنی میں وقف کے کام انجام پاسکیں اور واقف کی منشاء کے مطابق اسے بار آور کیا جا سکے۔
(3) یہ عظیم الشان اجلاس اوقاف کی زمینوں کو کارپوریٹ گھرانوں کو دینے اور واقف کی منشاء کے خلاف وقف اراضی پرسرکار کی جانب سے کی جانے والی تعمیرات اور قبضہ کی بھی مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ ایسی تمام اراضی کی شناخت کر کے سرکا ر اسے اوقاف سے متعلق کمیٹیوں کے حوالہ کرے۔
(4) اوقاف کی اراضی پر غیر قانونی قبضہ کوختم کرانے کے لیے مرکزی حکومت قانون بنائے، بصورت دیگر جن دفعات کے ذریعہ سرکاری زمینوں کو خالی کرایا جاتا ہے ان ہی دفعات سے اوقاف کی زمینوں کو خالی کرانے کی دستوری ضمانت دی جائے۔
(5) ہمارا مطالبہ ہے کہ ایسی مساجد جو سرکاری مفادات کی توسیع کی زد میں ہوں ان کو منہدم کرا کر سڑکوں اور دوسری عمارتوں کی تعمیر نہ کرائی جائے، کیوں کہ مساجد جو بن جاتی ہیں وہ قیامت تک مسجد ہی رہتی ہیں، ان کاموں کے لیے سرکار کو منصوبہ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہو تواسے لایا جائے۔
(6) حکومت سروے کمشنر کو اس بات کا پابند کرے اور واضح حکم دے کہ ایک مخصوص اور معلوم مدت میں اوقاف کی جائیداد کے سروے کے کام کو مکمل کرے اور جو آراضی جس کام میں مستعمل ہے اس کا اندراج رجسٹر 2 میں اسی حیثیت سے کرے سروے کنندگان نے اوقاف کی جن جا ئیدادوں کو غیر مزروعہ عام لکھ کر ریاستی حکومتوں کے حوالہ کر دیا ہے قبرستان کو کہیں کہیں کبیر استھان اور گورستان، گئو استھان لکھ دیا ہے اس کی تصحیح کی جائے اور اس کے ٹائٹل کو بدلا جائے۔
(7) تجاویز بابت داخلی اصلاحات: یہ کا نفرنس مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وقف کی اراضی پر جن لوگوں نے نا جائز قبضہ کر رکھا ہے اس کو خالی کرانے کی ہر ممکن کوشش کریں تا کہ ان کا استعمال منشاء واقف کے مطابق کیا جا سکے۔
(8) بہار میں خصوصیت سے سروے کا کام شروع ہے اور ابتدائی کارروائی چل رہی ہے ایسے میں مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی زمین و جائیداد کے سروے کے ساتھ مساجد و مدارس، قبرستان، مسافر خانے، خانقاہوں، اداروں اور عید گاہ کی زمین کا سروے کرا کر رجسٹر 2میں اس کا اندراج وقف کی حیثیت سے کرائیں۔
(9) ایسی تمام وقف کردہ آراضی جورجسٹرڈ نہیں ہیں، ان کے واقف یا متولی حضرات اسے رجسٹرڈ لازماً کرائیں تاکہ مستقبل میں اسکیتحفظ کا سامان ہو سکے، اس کام میں کہیں دشواری ہو تو امارت شرعیہ میں قائم شعبہ اوقاف کی مدد لی جائے۔
(10) اتنی بڑی تعداد میں اس کا نفرنس میں تشریف لانے پر امارت شرعیہ کے ذمہ داران اور خدام آپ حضرات کی خدمت میں جذبات تشکر پیش کرتے ہیں، وقف کے مسئلہ پر آپ کی حساسیت، سرگرمی اور فکر مندی کی ہم سب قدر کرتے ہیں، اللہ تعالی ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔