بی جے پی لیڈر کی شکایت کے بعد اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر کی گرفتاری ، پروفیسر کے دفاع میں 1000 سے زائد اسکالر سامنے آئے ، کہا ۔۔۔۔۔۔ ایک اچھا شہری اور سچا محب وطن

اشوکا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور شعبۂ سیاسیات کے سربراہ علی خان محمودآباد کی گرفتاری کے بعد ملک اور بیرونِ ملک سے 1000 سے زائد ممتاز اسکالرز، مورخین اور دانشوروں نے ان کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پروفیسر علی خان "ایک سچے محبِ وطن اور ذمہ دار شہری” ہیں جنہیں ان کی رائے کے اظہار پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پروفیسر محمودآباد کو 7 مئی کو بھارتی فوج کی فضائی کارروائی سے متعلق سوشل میڈیا پر کیے گئے تجزیاتی تبصروں کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔ ان پر بھارتیہ نیائے سنہیتا کی دفعات کے تحت ملک دشمنی بھڑکانے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات عائد کیے گئے، جو کہ بی جے پی یوتھ ونگ کے ایک رہنما کی شکایت پر درج ہوئے۔
پروفیسر نے آپریشن سیندور کے بعد کرنل قریشی کی میڈیا بریفنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ لکھی تھی کہ کس طرح عام مسلمانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے، ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے محمود آباد کو ایک نوٹس جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے طرز عمل، تبصروں اور بیانات سے خواتین کی حفاظت، سلامتی اور وقار سے متعلق سنگین خدشات پیدا ہوئے ہیں۔
وہ تبصرہ کیا تھا؟
آٹھ مئی کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ محمود آباد نے کرنل صوفیہ قریشی کی ستائش کرنے والے ہندوتوایوں کے تضاد کو اجاگر کیا تھا۔ محمود آباد نے کہا تھا کہ کرنل قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی پریس بریفنگ ایک علامت کے طور پر اہم تھی، لیکن اسے زمینی حقیقت میں بدلنا ہوگا، ورنہ یہ محض منافقت ہے۔
اس کے بعد ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے دعویٰ کیا تھا کہ محمود آباد کے تبصرے نے ہندوستانی مسلح افواج میں خواتین افسران کی توہین کی اور فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دیا۔
خواتین کمیشن کے جواب میں محمود آباد نے کہا تھا کہ ‘میرے تبصرے کو مکمل طور پر غلط سمجھا گیا ہے اور کمیشن کے پاس اس معاملے میں کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے… مجھے جاری کیے گئے سمن اس بات کو اجاگر کرنے میں ناکام رہے کہ میری پوسٹ کس طرح خواتین کے حقوق یا قوانین کے خلاف ہے۔’
محمود آباد کے مطابق، ‘میں نے کرنل قریشی کی حمایت کرنے والے دائیں بازو کے لوگوں کی بھی تعریف کی اور ان سے عام ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی رویہ اپنانے کے لیے کہا، جو روزانہ ہراسانی کا سامنا کرتے ہیں… میرا تبصرہ شہریوں اور فوجیوں دونوں کی سلامتی کے بارے میں تھا۔ اس کے علاوہ، میرے تبصروں میں دور دور تک کوئی بدگمانی نہیں ہے۔’
مشترکہ بیان میں معروف مورخین رومیلہ تھاپر، رام چندر گوہا، ماہر اقتصادیات جیاتی گھوش اور دانشور نویدیتا مینن سمیت کئی اہم شخصیات نے دستخط کیے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ پروفیسر علی خان نے اپنے پوسٹس میں امن، بین المذاہب ہم آہنگی اور جنگ کے منفی اثرات پر زور دیا، اور بھارتی فوج کی حکمتِ عملی کی تعریف کی۔
انہوں نے خواتین فوجی افسران کی میڈیا بریفنگ میں شمولیت کو جمہوری اور سیکولر بھارت کی علامت قرار دیا، اور یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر قوم پرستی کے نام پر خواتین کو عزت دی جاتی ہے تو پھر مسلمانوں اور اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی؟
بیان میں مزید کہا گیا کہ:
"یہ افسوسناک ہے کہ آج کے بھارت میں اگر کوئی شخص امن کی بات کرے، فوج کی تعریف کرے مگر جنگ کی خواہش رکھنے والوں پر تنقید کرے، تو اسے دشمنِ وطن قرار دے دیا جاتا ہے۔”
پروفیسر علی خان کے دفاع میں جاری اس بیان میں ہریانہ خواتین کمیشن پر سخت تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنا سمن واپس لے اور عوامی معافی نامہ جاری کرے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ کمیشن نے قانونی دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے ایک باشعور استاد کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسکالرز نے اشوکا یونیورسٹی سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے پروفیسر کے ساتھ کھڑی ہو اور علمی آزادی، اظہارِ رائے اور آئینی اقدار کا دفاع کرے۔

مہاراشٹرا : فیکٹری میں آتشزدگی ،حاجی عثمان کا پوراخاندان جاں بحق

کرناٹک کے کئی اضلاع میں شدید بارش کی پیش گوئی، اورنج اور ریڈ الرٹ جاری