اڈیشہ کے دارالحکومت بھونیشور میں پیر کے روز ایک سنسنی خیز واقعہ اس وقت پیش آیا جب کچھ نامعلوم افراد نے بھونیشور میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) کے ایڈیشنل کمشنر رتنکر ساہو پر حملہ کیا اور انہیں ان کے دفتر سے زبردستی گھسیٹ کر باہر لے گئے۔
رپورٹس کے مطابق، یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب ساہو بی ایم سی دفتر میں ہفتہ وار عوامی شکایات کی سماعت کر رہے تھے۔ ان کا الزام ہے کہ چھ سے سات افراد اچانک ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور سخت لہجے میں اُن سے پوچھا کہ کیا انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈر جگن ناتھ پردھان سے بات کی تھی۔ جب ساہو نے تصدیق کی کہ وہ اُس روز صبح فون پر پردھان سے بات کر چکے ہیں، تو مبینہ طور پر حملہ آوروں نے انہیں گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے کی کوشش کی اور ایک گاڑی میں لے جانے پر اصرار کیا تاکہ وہ بی جے پی لیڈر سے معافی مانگیں۔
ساہو نے اپنی شکایت میں دعویٰ کیا ہے کہ انہیں سرعام بری طرح زد و کوب کیا گیا، ان کا موبائل فون چھین لیا گیا، اور اُن کے واٹس ایپ اسٹیٹس پر "غیراخلاقی اور اسکینڈلائزنگ” مواد اپلوڈ کر دیا گیا۔ یہ واقعہ بی ایم سی کے دیگر افسران، کارپورٹروں، اور عوام کی موجودگی میں پیش آیا۔
واقعے کے خلاف بی ایم سی کے افسران نے احتجاج کرتے ہوئے پورے دن دفتر میں کام بند رکھا اور فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ میونسپل کمشنر راجیش پربھاکر پاٹل نے پولیس کمشنر ایس دیو دت سنگھ سے مطالبہ کیا ہے کہ حملہ آوروں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔
واقعے کے بعد پولیس نے تین افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں بی ایم سی کا کارپورٹر جیون راؤت اور اس کے ساتھی رشمی مہاپاترا اور دیبشیش پردھان شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جیون راؤت کو جنوری 2024 میں بھی ایک پولیس اہلکار پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔
بی جے پی لیڈر جگن ناتھ پردھان نے واقعے کو بدقسمت قرار دیا اور اعتراف کیا کہ وہ حملے میں شامل دو افراد کو جانتے ہیں، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ ریاست کی بی جے پی حکومت کسی کو بھی بچانے والی نہیں ہے اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
بیجو جنتا دل کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ نوین پٹنایک نے سوشل میڈیا پر واقعے کی ویڈیو دیکھنے کے بعد سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"اگر ایک سینئر افسر اپنے دفتر میں محفوظ نہیں ہے تو عام شہری حکومت سے قانون و انصاف کی کیا امید رکھیں گے؟”
انہوں نے وزیراعلیٰ موہن چرن ماجھی سے مطالبہ کیا کہ وہ نہ صرف حملہ آوروں کے خلاف بلکہ ان سیاسی افراد کے خلاف بھی سخت کارروائی کریں جنہوں نے مبینہ طور پر اس واقعے کو انجام دلوایا۔