بابری مسجد شہادت کی ملزمہ کو ملک کا دوسرا سب سے بڑا پدم بھوشن اعزاز

بابری مسجد شہادت کے کلیدی ملزمین میں شامل سادھوی رتھمبرا کو جو اس معاملے میں جیل بھی جا چکی ہیں، کو  ان کی ’’سماجی خدمات‘‘ کیلئے امسال پدم بھوشن ایوارڈ کیلئے منتخب کئے جانے پر مودی حکومت کو تنقیدوں  کا سامنا ہے۔ سینئر صحافی  ہرتوش سنگھ بال نے اسے ایوارڈ   کی قدرو منزلت کے ساتھ کھلواڑ قرار دیا تو معروف سماجی کارکن  اپوروانند  نے سادھوی کے ساتھ پدم بھوشن  ایوارڈ کیلئے منتخب ہونےوالے دیگر افراد کو ایوارڈ تقسیم کرنے کے فیصلے پر نظر  ثانی کی صلاح دی۔ 
سادھوی رتھمبرا کو پدم بھوشن دینے کا  حکومت کا فیصلہ اس پر لگنےوالے اس الزام کی توثیق کرتا ہے کہ وہ ایسے افراد کو نوازتی ہے جومسلمانوں  کے خلاف نفرت پھیلاتے اور اسلام مخالف نظریات کو فروغ دیتے ہیں ۔سادھوی رتھمبرا جو وی ایچ پی کی خواتین اکائی ’’درگاواہنی‘‘کی بانی چیئر پرسن ہیں ، نہ صرف یہ بابری مسجد شہادت کیس کی ملزم ہیں بلکہ وہ اپنی نفرت انگیز تقاریر اور مسلمانوں کی نسل کشی   کی وکالت کرنے  جانی جاتی ہیں۔  ملک کے دوسرےسب سےبڑے شہری اعزاز کیلئے  انہیں منتخب کئے جانے پر پروفیسر اپوروانند نے کہا ہے کہ ’’ ایسے وقت میں یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں  ہے جب لوگوں کو ترقی اور عہدہ ان کی نفرت انگیزی کی بنیاد پر مل رہا ہے اور ایسے لوگ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تک کے عہدہ پر فائز ہورہے ہیں۔‘‘ البتہ انہوں نے رتھمبرا کے ساتھ ایوارڈ کیلئے منتخب ہونےوالے دیگر افراد کو غیرت دلاتے ہوئے ایوارڈ قبول کرنے کے تعلق سے نظر ثانی کی صلاح  دی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ پدم بھوشن  پانے والے  دیگر افراد کو سوچنا ہوگا کہ کیا وہ نفرت پھیلانےوالوں کے ساتھ ایک ہی فریم میں  نظر آنا چاہیں گے؟‘‘ ’دی ہندو‘اخبار سے وابستہ معروف صحافی ایس آر پروین  کے مطابق’’پدم بھوشن کیلئے منتخب ہونےوالا ہر وہ شخص جو عزت نفس کا حامل ہے، یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ (اس کے ساتھ ) یہ ایوارڈ سادھوی رتھمبرا کو بھی ’سماجی خدمت‘  کے زمرہ میں دیا گیاہے جوبابری مسجد شہادت کیس کی ملزم اور درگاواہنی جیسی جنگجو گروپ کی بانی ہے نیز جس کی پہچان اس کی نفرت انگیز تقاریر ہیں۔‘‘معروف وکیل پرشانت بھوشن نے بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت میں پدم پھوشن ایوارڈ سیاسی مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ سینئر صحافی  ہرتوش سنگھ بل نے کہا کہ ’’اس سے حکومت کی آئیڈیالوجی اور  نقطہ نظر   ظاہر ہوتا ہے ساتھ ہی یہ عمل ایوارڈ کی قدر کوبھی کم کرتا ہے۔‘‘  ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۲ء میں  بابری مسجد کی شہادت تک مسجد کیخلاف تحریک میں سادھوی رتھمبرا پیش پیش تھیں اوران کی تقریروں میں برادران وطن کو مسلمانوں  کیخلاف اٹھ کھڑے ہونے کیلئے اُکسایا جاتا تھا۔