امن و سلامتی کا قیام کیوں اور کیسے؟


ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی ۔سرکڑہ،بجنور


امن و سلامتی کی اہمیت اور ضرورت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے ۔وہ لوگ جو بدامنی کی سازشیں کرتے ہیں اور ملک و سماج کا امن خراب کرتے ہیں ،وہ بھی اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے امن و امان کی خواہش رکھتے ہیں۔اسی طرح یہ بات بھی درست ہے کہ تمام مذاہب امن و سلامتی کے دعویدار ہیں ۔لیکن آزادی کے بعد ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ زیادہ تر فسادات مذہب کے نام پر ہی کیے گئے ہیں ۔ بدامنی کا حالیہ واقعہ 22؍ اپریل2025کو پیش آیا ۔جب پہلگام کشمیر میں سیاحوں پر ادھا دھند فائرنگ کی گئی اور 26معصوموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ ہواکہ دوممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی اور دونوں اطراف جان و مال کا نقصان ہوا۔پہلگام کے اس حملہ کو مذہبی رنگ دیا گیا۔خاص طور پر مذہب اسلام کے بارے میں یہ غلط فہمی پھیلائی گئی اور اکثر پھیلائی جاتی ہے کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے ۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا صرف زبانی داعی ہی نہیں ہے بلکہ اس نے عملاً ایسا معاشرہ قائم کرکے دنیا کو دکھادیا جہاں تمام انسان مامون و محفوظ تھے ۔آج بھی جن ممالک کو ہم نام نہاد اسلامی ممالک کہتے ہیں ان میں سے اکثر ممالک میں امن و امان کی بہتر فضا دیکھی جاسکتی ہے ۔حالانکہ وہاں خالص اسلام کی حکمرانی نہیں ہے ۔
اسلام لفظ کے معنی ہی سلامتی کے ہیں ۔اسی طرح اسلام کو اپنا دین ماننے والا’’ مسلم‘‘ کہلاتا ہے ،جس کے معنی ہیں ،سلامتی دینے والا۔مسلمان کا دوسرا نام’’ مومن ‘‘ہے ،اس لفظ کے معنی ہیں امن دینے والا۔ پیارے نبی ﷺ نے مسلمان اور مومن کی جو تعریف ان الفاظ میں کی ہے :۔’’المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، والمؤمن من امنہ الناس علی دمائہم واموالہم‘‘’’مسلمان (کامل) وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور مومن (کامل) وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ سمجھیں‘‘۔(ترمذی)
ایک مسلمان جب کسی سے ملتا ہے تو اس کو سلام کرتا ہے ۔جس کے الفاظ یہ ہیں :۔’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘ ۔سلام کے یہ الفاظ صرف مسلمانوں کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ عام ہیں ۔وطن عزیز میں چونکہ عربی زبان سے لوگوں کی واقفیت نہیں ہے اس لیے برادران وطن سے مخاطب ہوتے وقت ان الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا جاتا ہے ۔ایسا نہ ہو کہ غیر مسلم بھائی کو عربی کے الفاظ ناگوار ہوں۔ورنہ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی قید نہیں ہے کہ سلام غیر مسلم کو نہیں کیا جاسکتا۔سلام کے یہ الفاظ امن و سلامتی کی دعا پر مشتمل ہیں ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کا مطلب ہے:۔’’ تم پر سلامتی ہو،اور تم پر اللہ کی رحمت اور برکت ہو ۔‘‘ یعنی تم سلامت رہو ،مامون و محفوظ رہو،تم پر خدا اپنی رحمتیں نازل فرمائے ،تمہارے جان و مال میں اضاٖفہ ہو۔کسی بھی انسان کی سلامتی اس کی جان و مال کی سلامتی اور اس کے اعزہ و احباب کی سلامتی سے وابستہ ہے ،چنانچہ اس دعا میں یہ تمام امورشامل ہوجاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء گرامی کا تذکرہ قرآن میں کیا گیا ہے ۔اس میں سب سے زیادہ جو نام استمال کیے گئے وہ رحیم ،رحمان اورغفور ہیں۔رحیم اور رحمان کا مطلب ہے سب سے زیادہ رحم کرنے والااور غفور کا مطلب ہے ،درگذر اورمعاف کرنے والا۔اسی کے ساتھ قرآن میں اللہ تعالیٰ کے دونام اور استعمال ہوئے ہیں ،ان میں ایک ہے ’’ السلام‘‘ اور دوسرا ہے ’’ المومن ‘‘ ۔السلام کے معنی ہیں سراپا سلامتی اور المومن کا مطلب ہے امان دینے والا اورحفاظت کرنے والا ۔اسی کے ساتھ قرآن اسلام کی دعوت کو ’’ سبل السلام ‘‘ (سلامتی کا راستہ)اور جنت کو ’’ دارالسلام ‘‘ (سلامتی کا گھر)کہتا ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش (حرم مکہ) کومن دخلہ کان آمنا(آل عمران۔97) کہہ کر گہوارئہ امن قرار دیا۔
اسلام اپنے والوں پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ سماج میں امن قائم کریں ۔فساد نہ پھیلائیں ،ناحق کسی کا قتل نہ کریں ،اپنے آپ کو ظلم سے روکیں ،حتیٰ کہ ظالم کا ہاتھ پکڑ لیں ۔قرآن کی بہت سی آیات بطورمثال پیش کی جاسکتی ہیں ۔
من قتل نفسا بغیرنفس آو فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ومن احیاہا فکأنما احیا الناس جمیعا (المائدہ:32) ’’ جو شخص کسی انسانی جان کو بغیر کسی جان کے بدلے یا زمینی فساد برپا کرنے کے علاوہ کسی اور سبب سے قتل کرے اس نے گویا ساری انسانیت کاقتل کیا اور جس نے کسی انسانی جان کی عظمت واحترام کو پہچانا اس نے گویا پوری انسانیت کو نئی زندگی بخشی۔‘‘
قرآن اہل ایمان کو امن کا سب سے زیادہ مستحق اور علمبردار قرار دیتے ہوئے کہتا ہے :۔ فای الفریقین احق بالامن ان کنتم تعلمون، الذین آمنوا ولم یلبسوا ایمانہم بظلم اولئک لہم الامن وہم مہتدون (الانعام:81,82): ’’دونوں فریقوں (مسلم اور غیرمسلم) میں امن کا کون زیادہ حقدار ہے، اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ جو لوگ صاحب ایمان ہیں اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم وشرک کی ہرملاوٹ سے پاک رکھا ہے امن انہی لوگوں کے لئے ہے اور وہی حق پر بھی ہیں۔‘‘
اسلام ہر قسم کے فساد سے روکتے ہوئے حکم دیتا ہے:۔ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحہا (الاعراف:56) ’’اصلاح کے بعد زمین میں فساد برپا مت کرو‘‘ اس لیے کہ :۔ ان اللّٰہ لایحب المفسدین (القصص:77) ’’اللہ تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘اللہ تعالیٰ امن کو اپنی نعمت قرار دیتا ہے:۔’’ فلیعبدوا رب ہذا البیت الذی اطعمہم من جوع وآمنہم من خوف (القریش:4,5)’’اہل قریش کو اس گھر کے رب کی عبادت کرنی چاہئے جس رب نے انہیں بھوک سے بچایا ،کھانا کھلایا اور خوف و ہراس سے امن دیا‘‘
قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث میں بھی زمین میں امن وامان برقرار رکھنے کے سلسلے میں متعدد ہدایات دی گئی ہیں مثلاً:
’’صاحب ایمان‘‘ ہونے کی نشانی یہ بتائی گئی کہ:۔ ’’مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے جان ومال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔‘‘(ترمذی)
اسی کے ساتھ ظلم کرنے سے بچنے کا حکم دیا گیا :۔اتقوا الظلم فان الظلم ظلمات یوم القیامۃ (مسلم) ’’ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کی بدترین تاریکیوں کا ایک حصہ ہے۔‘‘
مومن کی صفات کے ذیل میں نبی ؐ نے فرمایا:۔’’اللہ کی قسم!وہ مومن نہیں ہوسکتااللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتا، کسی نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ) کون مومن نہیں ہوسکتا؟ فرمایا کہ جس کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔‘‘ (بخاری)اس شخص کو اللہ کے رحم و کرم سے محروم قرار دیا گیا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا:۔’’لا یرحم اللّٰہ من لا یرحم الناس ‘‘(بخاری)’’اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔‘‘
رحم و کرم اور امن و امان کا یہ معاملہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے ۔بلکہ اسلامی حکومت میں موجود ذمی اور معاہد کے تعلق سے خاص ہدایت دیتے ہوئے آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:۔’’الا من ظلم معاہدا او انتقض او کلفہ فوق طاقتہ او اخذ منہ شیئا بغیر طیب نفس فانا حجیجہ یوم القیامۃ ‘‘ (ابوداؤد) ’’خبردار! جو کسی معاہد پر کوئی ظلم کرے گا، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا، یا طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالے گا، یا اس کی مرضی کے بغیراس سے کوئی چیز حاصل کرے گا، تو قیامت کے دن میں خود اس کے خلاف دعویٰ پیش کروں گا۔‘‘ کسی غیر مسلم یا ذمی کو ناحق قتل کرنے والا جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا:۔’’جس نے کسی معاہد (ذمی غیرمسلم) کو قتل کیاوہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔‘‘ (مسند احمد)
سوال یہ ہے کہ اسلام کی ان بیش بہا تعلیمات اور پر امن زریں تاریخ کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے یہ غلط فہمی کیسے پیدا ہوگئی کہ اسلام قتل و خون ریزی کا دین ہے ۔مستشرقین نے اسلام کے فروغ کو روکنے کے لیے منفی باتیں پھیلائیں ،دوسری وجہ خود مسلمان واعظین نے ان موضوعات کو اپنے خطاب کا موضوع نہیں بنایا ،بلکہ نبی ﷺ کی سیرت سے غزوات و سرایاکے واقعات زیادہ بیان کیے ،حضرت علی ؓ کی بہادری او رحضرت خالد بن ولیدؒ کی شمیشر زنی کے قصے سنائے ،شاہنامہ اسلام کی چھ جلدیں اسلام کے دفاع کے لیے کی جانے والی جنگوں پر مشتمل ہیں ،خود مسلمانوں کے افتراق و انتشار اور سلطنت کے لیے قتال و جدال کے واقعات نے اس تاثر کو قائم کرنے میں مدد دی ،حالانکہ مسلمان بادشاہوں کی جنگی کارروائیاں اپنی حکومت کی توسیع و حفاظت کے لیے تھیں نہ کہ اسلام کے فروغ و اشاعت کے لیے ۔اسلام بزور قوت کسی فرد کو بھی اسلام قبول کرانے کی اجازت نہیں دیتا اور کسی لالچ یا دبائو میں قبول کیے گئے دین کو نہ صرف یہ کہ پسند نہیں کرتا بلکہ سند قبولیت بھی عطا نہیں کرتا ۔اس لیے اسلام کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کی اشاعت میں تلوار کا رول ہے یا یہ جنگ و جدل کا دین ہے یا تو ناواقفیت کی دلیل ہے یا سازشی ذہنیت پر مبنی ہے ۔
کسی بھی سماج میں امن کا قیام چندنکات و اصول پر مبنی ہے ۔جس میں سب سے اہم نکتہ ’’ عدل ‘‘ ہے ۔اگر ملک کا نظام ،عدل و قسط پر مبنی ہو اور عدلیہ کے کارکنان کسی بھی قسم کے دبائو میں نہ ہوں یہاں تک وہ خود اپنی نفسانی خواہشات سے بھی متائثر نہ ہوں تب ہی عدل کے ثمرات سے سماج محظوظ ہوسکتا ہے ۔اللہ اپنے بندوں کو عدل کا حکم دیتا ہے :۔’’ان اللہ یامر بالعدل والاحسان‘‘’’اللہ تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے‘‘(النحل۔90)’’بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘ (سورۃ مائدہ:۲۴)اس کے علاوہ حضورؐ کی زبان سے قرآن میں کہلایا گیا ہے:’’کہو! مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل کروں‘‘ (سورۃ شوریٰ: ۵۱)
عدل و انصاف کے لیے جن لوگوں کو قاضی یا جج مقرر کیا جائے وہ صاف ستھرے کردار کے مالک ہوں ،وہ اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈرتے ہوں،فیصلہ کرتے وقت کسی بھی قرابت،دوستی کا لحاظ نہ کرتے ہوں۔
یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (المائدہ۔8 )
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہوجائواور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو نہ چھوڑو۔انصاف کرو کہ یہی بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا گیا :۔’’اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو۔‘‘(الانعام۔152)
سماج میں امن کے قیام کے لیے دوسری چیز مساوات ہے ۔مساوات کا مطلب ہے کہ ریاست اور حکومت کی نظر میں تمام شہری برابر ہوں ،ریاست کسی کو مذہب یا ذات کی بنا پر افضل و غیر افضل قرار نہ دے ۔اسلام نے اس ضمن میں فرمایا :۔’’ لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ۔در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘چنانچہ پوری اسلامی تاریخ میں ایک بھی واقعہ ایسا ظہور پذیر نہیں ہوا جس میں کسی شخص کے ساتھ اس لیے ناانصافی کی گئی ہو کہ اس کا دین و مسلک یا قوم و برادری حکمراں قوم سے الگ تھی ۔اس کے برعکس ہزاروں ایسی شہادتیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں اسلامی عدالت نے خلیفہ وقت اور امیر المومنین کے خلاف فیصلہ سنایا جب کہ فریق مخالف ذمی یا معاہد قوم سے تعلق رکھتا تھا ۔صرف دومشہور واقعات درج کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے جرم میں پکڑی گئی، وہ ایک امیر گھرانے کی خاتون تھی۔ سردارانِ قریش نے حضرت اسامہ ؓ کو بارگاہِ رسالت میں سفارش کے لئے بھیجا جنہیں آپ بہت زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ حضورؐ قبیلہ کے مرتبہ کا خیال کرتے ہوئے یقیناسزا میں تخفیف کر دیں گے۔ مگر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہؓ کی بات سنی تو آپؐ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، آپ ؐنے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا:
’’تم سے پہلی قومیں اسی لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب اُن میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اُسے چھوڑ دیتے تھے لیکن جب کوئی عام آدمی چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے تھے۔ اللہ کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘ (بخاری ومسلم)
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زرہ گم ہوگئی،تلاش کرنے پر وہ ایک یہودی کے پاس سے برآمد ہوئی،آپ ؓ نے زرہ کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ زرہ میری ہے میں نے یہ نہ فروخت کی ہے اور نہ کسی کو ہبہ کی ہے۔‘‘ یہودی کہنے لگا ’’یہ میری زرہ ہے کیونکہ یہ میرے قبضے میں ہے۔‘‘ حضرت علی ؓنے اسے قاضی کے پاس چلنے کو کہا تو وہ آمادہ ہوگیا اور دونوں قاضی شریح ؒ عدالت میں پہنچ گئے۔
شریح رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مقدمہ کی کارروائی شروع کرتے ہوئے کہا: ’’امیرالمومنین! آپ فرمائیں،آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘
’’یہ زرہ میری ہے‘ میںنے یہ زرہ نہ تو کسی کو بیچی ہے اور نہ ہی کسی کو ہبہ کی ہے۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دعویٰ دائر کرتے ہوئے فرمایا: پھر شریح رحمۃ اللہ علیہ یہودی کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کا بیان طلب کیا تو اس نے کہا ’’یہ میری زرہ ہے اورمیرے قبضہ میں ہے۔‘‘
’’آپ کے پاس کوئی گواہ ہے؟‘‘ حضرت شریح نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا۔
’’جی ہاں! یہ قنبر (حضرت علی رضی اللہ عنہ کا غلام) اور یہ حسن (رضی اللہ عنہ)اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ زرہ میری ہے۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔
’’بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں قابل قبول نہیں،لہٰذا میرا فیصلہ یہ ہے کہ زرہ اس یہودی کی ہے۔‘‘ قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
وہ یہودی اس مقدمہ کے فیصلہ سے بہت متاثر ہوا اور تعجب کے ساتھ کہنے لگا ’’امیرالمومنین خود مجھے اپنے قاضی کے پاس لے کر آئے اور ان کے قاضی نے بھی ان ہی کے خلاف فیصلہ سنادیا،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے امیرالمومنین! یہ زرہ آپ ہی کی ہے لہٰذا آپ اسے لے لیجئے۔
قیام امن کے لیے تیسری چیز عوام کے اندر تحمل و برداشت اور رواداری کے جذبات کا پایا جانا ہے ۔کوئی کسی کے دین کو برا نہ کہے،مذہبی جذبات کا خیال رکھے :۔’’وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اور اُنہیں برابھلا نہ کہو جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں۔‘‘(الانعام،108)
اولاد آدم ہونے کے ناطے سب ایک دوسرے کا احترام کریں ’’ لقد کرمنا بنی آدم۔ہم نے اولاد آدم کو باعزت بنایا‘‘(نبی اسرائیل ۔70) ،غصہ کو پی جائیں اور ایک دوسرے کو معاف کردیں ۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی’’ جو خوشحالی اور تنگدستی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیک لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘(آل عمران۔20)
آج کل امن کے قیام میں میڈیا کا بڑا رول ہے۔آج کل میڈیا سماج کو توڑنے اور نفرت پیدا کرنے کا کام زیادہ کررہا ہے۔نیتائوں کے وہ بیانات جو نفرت پر مبنی ہوتے ہیں سارے سارے دن دکھائے جاتے ہیں۔ ٹی وی چینلس پر مباحثے ہوتے ہیں۔ لیکن سماج کو ایک کرنے اور نیک بنانے کے نہ واقعات دکھائے جارہے ہیں، نہ ایسے موضوعات پر مباحثے ہورہے ہیں۔کسی کو مارنے کی خبر تو دی جاتی ہے لیکن کسی کو بچانے کی کوئی خبر نہیں دی جاتی ۔اس لیے افواہوں پر دھیان نہ دیا جائے ۔خبر لانے والے کی تحقیق کی جائے ۔اہل ایمان کو حکم دیا گیا:۔’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نا دانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘‘(الحجرات۔6)
امن و امان ہر شخص کی ضرورت ہے اس لیے اس کے قیام اور بقا کی ذمہ داری بھی ہر شخص پر ہے ۔کوئی یہ نہ سوچے کہ وہ آج طاقت ور ہے تو کسی کمزور پر ظلم کرنے کا جواز رکھتا ہے ۔طاقت کا یہ توازن بدلتا رہتا ہے ۔اس لیے طاقت ورافراد اور حکمرانوں کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ امن و امان باقی رکھیں ۔تھوڑے فائدے کے لیے ملک و سماج کو برباد نہ کریںاوریہ بات ہمیشہ یاد رکھیں۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

کرناٹک میں جاری موسلادھار بارش نے مچادی تباہی ، پانچ افراد ہلاک، سات اضلاع کے لیے ریڈ الرٹ

آپریشن سندور: بھارت نے پاکستان کو ابتدائی اطلاع نہیں دی، امریکہ کا کردار بھی خارج — حکومت کی پارلیمانی کمیٹی کو وضاحت