سونپت، ہریانہ (فکروخبر): اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ علومِ سیاسیات کے سربراہ اور معروف دانشور پروفیسر علی خان محمودآباد کو سونپت کی ضلعی عدالت نے منگل کے روز عدالتی تحویل میں بھیج دیا۔ ان پر آپریشن سندور سے متعلق میڈیا بریفنگز پر تبصرہ کرنے کے الزام میں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
محمودآباد کو اتوار کے روز دو دن کی پولیس حراست میں بھیجا گیا تھا، جس کے بعد منگل کو انہیں مجسٹریٹ آزاد سنگھ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے پولیس کی جانب سے مزید سات دن کی ریمانڈ کی درخواست مسترد کر دی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پیر کو اس گرفتاری کے خلاف دائر عرضی کی فوری سماعت کی اجازت دے دی ہے، جس کی سماعت بدھ کے روز متوقع ہے۔
پروفیسر کے خلاف دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ ایک شکایت بی جے پی یوا مورچہ ہریانہ کے جنرل سیکریٹری یوگیش جاتھیری نے درج کروائی، جبکہ دوسری شکایت ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیا کی جانب سے کی گئی۔
علی خان محمودآباد پر بھارتیہ نیائے سنہتا (نئے فوجداری قانون) کے تحت قومی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنے، مذہبی منافرت پھیلانے، اور خواتین کی توہین سے متعلق دفعات کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
ایک ممتاز تعلیمی شخصیت کی گرفتاری اظہارِ رائے کی آزادی اور تعلیمی حلقوں کی خودمختاری پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر رہی ہے۔ اس معاملے کی سپریم کورٹ میں سماعت اس کی آئینی حیثیت کے تعین میں کلیدی ثابت ہو سکتی ہے۔