اتراکھنڈ : مدارس کے نصاب میں اب شامل ہوگا آپریشن سندور

اتراکھنڈ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے ایک غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے "آپریشن سندور” اور دیگر فوج کارروائیوں کو ریاست کے مدارس کے نصاب میں شامل کرنے کا باضابطہ اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ مدرسہ بورڈ کے صدر مفتی شمعون قاسمی نے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کے بعد کیا۔ ان کے بقول اس اقدام کا مقصد طلبہ کو وطن سے محبت، دفاعی شعور اور بھارتی افواج کی قربانیوں سے روشناس کرانا ہے۔
مدارس میں عسکری تاریخ: ایک نیا باب
مفتی شمعون قاسمی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: کہ "اتراکھنڈ صرف دیوبھومی (دیوتاؤں کی سرزمین) نہیں بلکہ ویر بھومی (سپاہیوں کی سرزمین) بھی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے طلبہ ملک کی فوجی تاریخ، خاص طور پر بھارتی فوج کے بہادرانہ کارناموں سے آگاہ ہوں۔ اسی لیے آپریشن سندور اور دیگر اہم دفاعی مشن کو نصاب میں شامل کیا جا رہا ہے۔”
انہوں نے پہلگام میں ہونے والے 22 اپریل کے دہشت گرد حملے کو "قرآن کی بے حرمتی” قرار دیا اور کہا کہ "پاکستان ایک بدنیت ملک ہے جس نے بارہا شہریوں کو نشانہ بنایا ہے، اس لیے اس کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر تھی۔”
آپریشن سندور کیا ہے؟
آپریشن سندور، 7 مئی 2025 کو بھارتی فوج کی جانب سے پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مبینہ دہشت گرد ٹھکانوں پر کی گئی ایک فوجی کارروائی تھی۔ یہ حملہ 22 اپریل کو جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے جواب میں کیا گیا تھا جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اتراکھنڈ میں اس وقت تقریباً 451 رجسٹرڈ مدارس ہیں جن میں پچاس ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ 2016 کے مدرسہ بورڈ ایکٹ کے تحت بورڈ کو نصاب سازی، کتب کے انتخاب اور تدریسی مواد تیار کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ بورڈ نے غیر روایتی مضامین مدارس میں شامل کرنے کی تجویز دی ہو۔ قبل ازیں مفتی قاسمی نے سنسکرت اور ہندو مذہبی متون جیسے رامائن اور مہابھارت کو بھی مدارس کے نصاب میں شامل کرنے کی بات کی تھی، تاہم ان پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوا۔
دینی تعلیم اور عسکری شعور: علما و ماہرین کی آرا
مدارس کے روایتی مقاصد میں دینی علوم کی تدریس، اخلاقی تربیت اور روحانی بالیدگی شامل ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں کچھ ماہرین تعلیم اور دینی علما کا کہنا ہے کہ عسکری تاریخ کو نصاب میں شامل کرنا اگر حب الوطنی اور قومی شعور کے جذبے کے تحت ہو تو اس کی گنجائش ہو سکتی ہے، بشرطیکہ اس کا انداز غیرجانبدار، معلوماتی اور غیر سیاسی ہو۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر خالد انور کا کہنا ہے:
"اگر مدارس میں قومی تاریخ کو شامل کیا جائے تو یہ مثبت قدم ہو سکتا ہے، مگر یہ ضروری ہے کہ اس کی تدریس میں توازن رکھا جائے تاکہ مذہب اور سیاست کا خلط نہ ہو۔”

‘غزہ میں بھوک سےاگلے 48 گھنٹوں میں مر سکتے ہیں 14 ہزار بچے’، 

کرناٹک : وزیر داخلہ جی پرمیشور کی ملکیت والے تعلیمی اداروں پر ای ڈی کے چھاپے ، وزیراعلیٰ نے کہی یہ بڑی بات!