نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کو کانگریس کے رہنما اور لوک سبھا میں قائد حزبِ اختلاف راہل گاندھی کے خلاف جاری فوجداری ہتکِ عزت کی کارروائی پر عبوری روک (Stay) لگاتے ہوئے انہیں وقتی ریلیف دیا ہے، تاہم عدالت نے اُن کے دسمبر 2022 کے متنازع بیان پر سخت تنقید کی ہے، جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ "چینی فوجی اروناچل پردیش میں بھارتی فوجیوں کو پیٹ رہے ہیں”۔
سماعت کے دوران سخت ریمارکس:
جسٹس دیپنکر دتہ اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل دو رکنی بینچ نے راہل گاندھی کے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی سے سوال کیا:
"آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ چین نے 2000 مربع کلومیٹر بھارتی زمین پر قبضہ کر لیا؟ کیا آپ وہاں موجود تھے؟ کیا آپ کے پاس کوئی قابلِ بھروسا ثبوت ہے؟ ایک ‘سچا بھارتی’ ایسے بیانات نہیں دیتا۔”
عدالت نے مزید کہا:
"جب سرحد پر تناؤ ہو، تو کیا آپ سوشل میڈیا پر ایسے بیانات دے سکتے ہیں؟ اگر سوال کرنا ہے تو پارلیمنٹ میں کیوں نہیں کیا؟ اظہارِ رائے کی آزادی (آرٹیکل 19(1)(a)) کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی کچھ بھی کہے۔”
پس منظر:
یہ مقدمہ ریٹائرڈ کرنل اُدے شنکر سریواستو کی شکایت پر درج کیا گیا ہے، جو بارڈر روڈ آرگنائزیشن کے سابق ڈائریکٹر رہے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ راہل گاندھی کے بیانات نے فوج کے حوصلے کو پست کیا اور یہ قومی سلامتی سے جڑا معاملہ ہے۔
شکایت لوک سبھا کے ممبر/ایم ایل اے عدالت نے قابلِ سماعت قرار دی تھی، جس کے خلاف راہل گاندھی نے الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی، مگر 29 مئی 2025 کو ہائی کورٹ نے اُن کی عرضی خارج کر دی۔ جسٹس سبھاش ودیارتی نے کہا تھا کہ شکایت کنندہ "براہِ راست متاثر نہ سہی، مگر ’ذاتی طور پر دل گرفتہ‘ اور اس لیے متاثرہ فریق کے زمرے میں آتا ہے۔”
سپریم کورٹ کا عبوری حکم:
سپریم کورٹ نے راہل کو وقتی ریلیف دیتے ہوئے ریاستی حکومت اور شکایت کنندہ کو نوٹس جاری کیے اور تین ہفتوں بعد کیس کی دوبارہ سماعت طے کی۔
راہل کی وکالت:
راہل گاندھی کے وکیل، سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ:
"ایک اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے راہل گاندھی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت سے سوالات کرے، خاص طور پر وہ حقائق جو میڈیا میں بھی موجود ہیں۔ اگر وہ یہ سوال نہ کرے تو حزب اختلاف کے رہنما ہونے کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔”
سنگھوی نے کہا کہ:
"راہل کا مقصد فوج کی توہین نہیں، بلکہ حکومت کی شفافیت پر زور دینا تھا۔”
انہوں نے مزید دلیل دی کہ:
"دفعہ 223 کے تحت کسی بھی ملزم کو سنے بغیر مجسٹریٹ شکایت پر کارروائی نہیں کر سکتا، اور اس معاملے میں راہل کو سنے بغیر سمن جاری کر دیا گیا۔”
عدالتی سوالات:
جسٹس دتہ نے سنگھوی سے استفسار کیا:
"اگر یہ باتیں صرف میڈیا رپورٹوں پر مبنی ہیں تو کیا ان پر بغیر تصدیق کے عوامی سطح پر کہنا درست ہے؟ اگر کوئی بھی یہ کہہ دے کہ فوج مار کھا رہی ہے، تو عوام پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟”
سیاسی ردعمل:
سپریم کورٹ کی جانب سے بیان میں ’’سچا بھارتی‘‘ جیسے جملے استعمال کیے جانے پر سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں خاصی بحث چھڑ گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اسے اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا، جبکہ حکمراں جماعت کے حامیوں نے عدالت کی سرزنش کو راہل کے ’’غیر ذمہ دارانہ رویے‘‘ کا نتیجہ بتایا۔




