مرکزی حکومت نے پیر کو ایک پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ حالیہ بھارت-پاکستان کشیدگی کے دوران اسلام آباد کی طرف سے کوئی "جوہری اشارہ” (nuclear signalling) نہیں دیا گیا، اور نہ ہی امریکہ کی فائر بندی کے فیصلے میں کوئی مداخلت تھی، جیسا کہ بعض دعوے کیے جا رہے تھے۔
خارجہ سیکرٹری وکرم مصری نے ششی تھرور کی سربراہی میں خارجہ امور کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز (DGMO) سے رابطہ بھارت کی "پہلی کارروائی” کے بعد کیا گیا تھا۔
مصری کا یہ بیان اس پس منظر میں آیا ہے کہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے الزام لگایا تھا کہ "حملے کے آغاز پر پاکستان کو اطلاع دینا ایک جرم تھا”، جبکہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دو روز قبل دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے "دہشت گردی کے انفراسٹرکچر” پر حملے کے آغاز پر پاکستان کو مطلع کیا تھا کہ اس کا ہدف فوجی تنصیبات نہیں بلکہ دہشت گردی کے مراکز ہیں۔
واضح رہے کہ 22 اپریل کو پہلگام، جموں و کشمیر میں دہشت گرد حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد بھارت نے 7 مئی کو "آپریشن سندور” کے تحت پاکستان اور پاکستان کے زیرِ قبضہ کشمیر میں دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اس کے بعد پاکستانی فوج نے لائن آف کنٹرول پر جوابی گولہ باری کی، جس میں 22 بھارتی شہری اور 7 فوجی اہلکار جاں بحق ہوئے۔
10 مئی کو دونوں ملکوں نے فائر بندی پر اتفاق کیا، جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کامیابی قرار دیا۔ تاہم بھارت نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فائر بندی کا فیصلہ باہمی سطح پر ہوا تھا اور کوئی تیسرے فریق کی مداخلت نہیں ہوئی۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ دونوں ممالک نے "ایک غیرجانبدار مقام پر وسیع تر مذاکرات” پر اتفاق کیا ہے، جس کی بھارت نے سختی سے تردید کی۔
ششی تھرور کے مطابق کمیٹی اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے پہلگام حملے کے ذمہ دار دہشت گردوں کو پکڑنے کے سلسلے میں حکومتی اقدامات پر بھی سوالات اٹھائے، جن پر وزارت خارجہ نے اطمینان بخش جوابات دیے،