تحریر: سمیع احمد
نئی دہلی: اتر پردیش کے کانپور میں 12 ربیع الاول کے موقع پر لگائے گئے ’آئی لو محمد‘ بینر سے شروع ہونے والا تنازعہ اب پورے ملک میں پھیل گیا ہے، جس کے نتیجے میں کئی شہروں میں احتجاجات، ایف آئی آرز اور گرفتاریوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ یہ معاملہ مذہبی اظہار، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور انتظامیہ کے رویے پر سنجیدہ سوالات کھڑا کر رہا ہے۔
تنازعہ کیسے شروع ہوا؟
یہ تنازعہ 4 ستمبر 2025 کو کانپور کے راوت پور علاقے میں اس وقت شروع ہوا جب ایک مسلم تنظیم نے عید میلادالنبی ﷺ کے جلوس کے دوران ’آئی لو محمد‘ کا بینر آویزاں کیا اور ایک خیمہ نصب کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ جگہ غیر مجاز تھی، جبکہ مسلم برادری کو لگتا ہے کہ کارروائی ان کے مذہبی اظہار کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی۔
10 ستمبر کو پولیس نے بھارتیہ نیایا سنہیتا (BNS) کی دفعات 196 اور 299 کے تحت مقدمہ درج کیا جس میں الزام لگایا گیا کہ اس عمل سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگڑنے کا خطرہ ہے اور جلوس کے دوران دوسری برادری کے پوسٹر پھاڑے گئے۔
احتجاجات کا پھیلاؤ
کانپور ایف آئی آر کے بعد لکھنؤ، اناو، کشی پور (اتراکھنڈ)، گودھرا (گجرات)، ممبئی (مہاراشٹر) اور بہرائچ جیسے شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاجات ہوئے۔ کئی مقامات پر خواتین اور بچوں نے بھی ’آئی لو محمد‘ کے بینرز اٹھا کر پرامن احتجاج کیا، لیکن کئی جگہوں پر پولیس نے جلوس کو غیر مجاز قرار دے کر مقدمات درج کیے اور گرفتاریاں کیں۔
سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا ردعمل
اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر لکھا:
“آئی لو محمد کہنا جرم نہیں، اگر یہ جرم ہے تو میں ہر سزا قبول کرنے کو تیار ہوں۔ میری زندگی رسول اللہ ﷺ کے نام پر قربان ہے۔”
جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ:
“اس ربیع الاول میں لوگ نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کا جشن مناتے ہیں، مگر اس بار اگر کوئی پوسٹر لگا دے یا محبتِ رسول ﷺ کا نعرہ بلند کرے تو اسے مجرم بنا دیا جاتا ہے۔ یہ رجحان نہایت خطرناک ہے اور ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کر رہا ہے۔ حکومت اور عدالتوں کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔”
سماجی کارکن ندیم خان نے الزام لگایا کہ مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اسی طرح کے واقعات میں دیگر کمیونٹیز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
خواتین کا احتجاج
لکھنؤ میں سماجوادی پارٹی کی رہنما اور معروف شاعر منور رانا کی صاحبزادی سمایہ رانا نے اسمبلی کے باہر خواتین کے ساتھ احتجاج کیا اور کہا کہ نوجوانوں کو اسمبلی تک آنے سے پہلے ہی روک دیا گیا۔ “جب مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کی جاتی ہیں تو کوئی مقدمہ نہیں ہوتا، لیکن محبتِ رسول ﷺ کے اظہار پر ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے، یہ ناقابلِ قبول ہے۔”
پولیس اور حکومت کا مؤقف
اتر پردیش پولیس اور ریاستی حکومت نے مذہبی تعصب کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ یو پی بی جے پی ترجمان راکیش تریپاٹھی نے کہا:
“یہ کارروائیاں مذہبی بنیاد پر نہیں بلکہ قانون کی خلاف ورزی کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔ کچھ عناصر اس معاملے کو سیاسی رنگ دے کر نظم و نسق بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
کشی پور، گودھرا اور ممبئی میں کشیدگی
اتراکھنڈ کے کشی پور میں ’آئی لو محمد‘ بینرز کے ساتھ نکالی گئی ریلی کے دوران پولیس سے جھڑپیں ہوئیں اور متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ گودھرا میں 87 افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور 17 کو گرفتار کیا گیا۔ ممبئی کے بی کلہ میں AIMIM کارکنوں نے تھانے کے باہر احتجاج کیا جس کے بعد حراست میں لیے گئے شخص کو نوٹس دے کر رہا کر دیا گیا۔
قانونی ماہرین کا کہنا
ماہرین کے مطابق یہ معاملہ مذہبی آزادی (آرٹیکل 25) اور عوامی نظم و نسق کے درمیان توازن کا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ پولیس ایف آئی آرز کی بنیاد واضح طور پر عوام کے سامنے رکھے تاکہ تعصب کے تاثر کو ختم کیا جا سکے۔
بشکریہ : انڈیا ٹومورو




