والدین کی خدمت اور ادب و احترام

محمد مہدی محتشم ندوی بھٹکلی

اللہ تعالیٰ نے کائنات میں افضل اور اشرف مخلوق انسان کو بنایا ہے۔ والدین درحقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں،ہمارا وجود والدین کی وجہ سے ہوتا ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بھی والدین کے ساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے۔محبت کا جذبہ فطری طور پر بدرجہ اتم والدین کو عطا کیا گیا ہے۔اولاد کے لئے والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں،والدین کی جس قدر عزت و توقیر کی جائے گی اسی قدر اولاد سعادت سے سرفراز ہوگی شریعت میں والدین کے ساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔(ترجمہ) اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے میں پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف بھی نہ کہنا ،نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا ۔
(بنی اسرائیل : 24)
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ والدین کے ساتھ حُسن سلوک کرو اور اُف تک بھی نہ کہو،والدین کی عزت واحترام دینی و دنیاوی بہتری کا سبب ہوتا ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے سروں پر والدین کا سایہ ہے اور سعادت مند ہے وہ اولاد جو ہر حال میں اپنے والدین کے ساتھ حُسن سلوک رکھتی ہے اور ان کا احترام کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(ترجمہ):اور تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤاور اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اہل قرابت کے ساتھ بھی۔
(النساء: 37)

اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے۔
(ترجمہ)لوگ آپﷺ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ آپ فرمادیں کہ جو کچھ مال تم کو خرچ کرنا ہوتو ماں باپ کا حق ہے اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا، محتاجوں کا اور مسافروں کا اور جو نیک کام کریں گے اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔
(البقرہ: 216)

رسول کریم ﷺ نے بھی ہمیں والدین سے حُسن سلوک کا حکم دیا ہے آپﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو سب سے بڑے گناہ بتلادوں؟ لوگوں نے عرض کیا، کیوں نہیں یارسول اللہ ﷺ، آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ کا شریک نہ ٹھہرانا اورنہ والدین کی نافرمانی کرنا۔

والدین کی حیثیت گھر میں نگران کی ہے ۔ اولاد اگر سنجیدگی اور تدبر سے کام لے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے بعد صحیح معنوں میں قابل احترام اور لائق اطاعت اگر کوئی ہستی ہے تو وہ والدین ہیں۔والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری بھی عبادت میں داخل ہے، لیکن اگر والدین کوئی ایسا حکم دیں جو شریعت کے خلاف ہو تو ان کی اطاعت فرض نہیں بلکہ شریعت کی اطاعت ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ترجمہ) ’’اور وہ دونوں (والدین) تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تُو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تُو ان کا کہنا نہ ماننا ،ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا‘‘ والدین کا مقام و مرتبہ اس قدر اہم ہے کہ توحید و عبادت کے بعد اطاعت و خدمت والدین کو ضروری قرار دیا گیا کیونکہ جہاں انسانی وجود کا حقیقی سبب اللہ ہے تو وہیں ظاہری سبب والدین۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گنا ہ والدین کی نافرمانی ہے،جیسا کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
(صحیح بخاری)

ماں باپ کی نافرمانی تو کجا ، ناراضگی کے اظہار اور جھڑکنے سے بھی روکا گیا ہے اور ادب کے ساتھ نرم گفتگو کا حکم دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ترجمہ) ’’اور اپنے والدین کو جھڑک مت اور ان سے نرمی سے پیش آ۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ پوری زندگی والدین کے لئے دعا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ چنانچہ فرمایا (ترجمہ) اور تو کہہ کہ اے میرے رب میرے والدین پر رحم کر جس طرح بچپن میں انہوں نے میری تربیت کی۔
(بنی اسرائیل: 25)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟آ پ ﷺ نے ارشاد فرمایا نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ۔ حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں میں نے کہا اس کے بعد کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا والدین کی فرمانبرداری۔
(صحیح بخاری)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ آپؐ کے ساتھ ہجرت اور جہاد کرنے کیلئے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ تو اس شخص نے کہا: دونوں حیات ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے اس شخص سے پوچھا: کیا تو واقعی اللہ تعالیٰ سے اجر عظیم کا طالب ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے والدین کے پاس جا اور ان کی خدمت کر۔
(صحیح مسلم)

ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ میرے حُسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں ۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہارا باپ۔
(صحیح بخاری)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے ۔ چنانچہ تمہیں اختیار ہے خواہ ( اس کی نافرمانی کرکے اور دل دکھا کے) اس دروازہ کوضائع کردو یا ( اس کی فرمانبرداری اور اس کو راضی رکھ کر) اس دروازہ کی حفاظت کرو۔
(جامع ترمذی)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر دراز کی جائے اور اس کے رزق کو بڑھا دیا جائے اس کو چاہئے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے ۔
(مسند احمد بن حنبل)

آپ ﷺنے ارشاد فرمایا وہ شخص ذلیل وخوار ہو۔ عرض کیا یا رسول اللہ ! کون ذلیل و خوار ہو ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص جو اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر(ان کی خدمت کے ذریعہ) جنت میں داخل نہ ہو۔
(صحیح مسلم)

حضرت ابو اسید الساعدی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یارسول اللہ ؐ! والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لئے کرسکوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ہاں کیوں نہیں ۔ تم ان کے لئے دعائیں کرو،ان کے لئے بخشش طلب کرو ، انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو ۔ ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حُسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ۔
(ابوداؤد کتاب الادب باب فی برالوالدین)

حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ۔ جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور رزق میں فراوانی ہو تو اس کو چاہئے کہ اپنے والدین سے حُسن سلوک کرے (اور اپنے عزیزواقارب کے ساتھ بنا کر رکھے) اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے۔
(مسند احمد بن حنبل)

انسان کی پیدائش کا مقصد ہی یہ ہے کہ اللہ کو راضی کرے ، اس کو حاصل کرنے کا آسان طریقہ آنحضور ﷺ نے بیان فرمایا کہ بندے سے اللہ کا راضی ہونا بندے سے اللہ کا ناراض ہونا، والدین کی رضامندی و ناراضگی کے ساتھ وابستہ ہے۔
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا رب کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے،رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔
(الجامع الصغیر)

حضرت ابو طفیل ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو مقام جعرانہ میں دیکھا ۔ آپ گوشت تقسیم فرما رہے تھے ۔ اس دوران ایک عورت آئی تو حضور ﷺ نے اس کے لئے اپنی چادر بچھا دی اور وہ عورت اس پر بیٹھ گئی ۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون خاتون ہیں جس کی حضور ﷺ اس قدر عزت فرما رہے ہیں؟ لوگوں نے کہا یہ حضور ﷺ کی رضاعی والدہ ہیں۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بات نہایت واضح ہوجاتی ہے کہ والدین کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے۔ والدین کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا ہمیں والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ خاص کر جب والدین یا دونوں میں سے کوئی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا حتیٰ کہ ان کو اُف تک نہیں کہنا چاہئے۔ ادب و احترام محبت و خلوص کے ساتھ ان کی خدمت کرنی چاہئے۔ ان کا ادب واحترام کرنا چاہئے۔ ان سے محبت کرنی چاہئے۔ ان کی فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ ان کی خدمت کرنا،ان کو حتی الامکان آرام پہنچانا ، ان کی ضروریات پوری کرنا ، یہ سب ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
29 جون 2020 ( ادارہ فکر وخبر بھٹکل)

«
»

یادوں کے جھروکے۔(1)

ارطغرل سیرئیل پر دار العلوم دیوبند کا فتوی؛کیا تنگ نظری پر مبنی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے