ذوالقرنین احمد
مہاراشٹرا ریاست میں 288 سیٹوں پر اسمبلی انتحابات کا سلسلہ آخر تکمیل کو پہنچا، ریاست و ملک میں گزشتہ انتخابات میں بھی بھاری اکثریت سے بی جے پی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی اور اب اگلے پانچ سالوں کیلے پھر سے اقتدار پر قابض ہوگئیں ہیں۔ مہاراشٹر اسمبلی انتحابات میں کانگریس پارٹی سے زیادہ این سی پی نے سیٹوں پر جیت حاصل کی، بی جے پی و شیو سینا کے ایگزٹ پولز پر پانی پھیر گیا ہے۔ لیکن پھر بھی دونوں پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ بھلے ہی ان میں اقتدار کو لے کر اختلافات جاری ہے۔ لیکن کسی ایک پارٹی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا ہوگا۔ کیونکہ اسکے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ شیو سینا ادیتہ ٹھاکرے کو وزیر اعلی بنانے کیلے بضد ہے۔ لیکن بی جے پی پانچ سالوں کیلے یہ عہدہ شیو سینا کو نہیں دینا چاہتی ہے۔ لیکن انکے پاس دوسرا کوئی متبادل بھی موجود نہیں ہے اسی لیے بی جے پی ڈھائی سالہ مدت کیلے ادیتہ ٹھاکرے کو وزیر اعلی بنا سکتی ہے۔
گزشتہ 70 سالوں سے مسلمانوں نے صرف سیکولر پارٹیوں کی غلامی کی ہے۔ پورے ملک میں آج بھگوا پارٹی کا اقتدار ہے۔ کانگریس بکھرتے وجود کی شاید یہی وجہ ہے کہ جن کے بل بوتے پر وہ اقتدار حاصل کرتی آئی ہے۔ جنہیں صرف ووٹ کے طور پر استعمال کرتی آئی ہے۔ انہیں سیاسی و سماجی طور پر محروم رکھا گیا نا ان کیلئے اعلی تعلیمی اداروں کو بنایا گیا نا انہیں ملک میں معاشی طور پر مستحکم کیا گیا اور نا ہی سرکاری اداروں میں انہیں نوکریاں فراہم کی گئی۔ اسی طرح سیاسی میدان میں نظر انداز کیا گیا مسلمانوں کے مفاد پرست لیڈروں نے اپنے شخصی فائدے کی خاطر قوم کا سودا کرتے رہے۔ اور ملت کو تمام ترقیاتی و تعمیری کاموں سے محروم رکھا گیا ہے یہ ایسی گندی سیاست کرتے آئے ہیں کہ مسلمانوں کے ووٹوں کا سودا کرنے میں دلالی کرتے ہوئے انکے ووٹوں کو بے قیمت کیا گیا۔
مسلم قیادت کے فقدان کی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ نئی نسل کو تیار نہیں کیا گیا یا پھر انہیں ابھرنے نہیں دیا گیا۔ جو نئے حوصلے اور قوم کی فکر کو لے کر کھڑے ہوتے ہیں انہیں دبایا جاتا ہے۔ انہیں مختلف طریقے سے پریشان کیا جاتا ہے کہ ہمارے غلامانہ تجارت بند نا ہوجائے۔ دیگر قوم کے افراد کے ساتھ ہمارے تعلقات کمزور نا ہوجائے ہمارا جھوٹا وقار اور جھوٹی عزت و شہرت کئی ماند نا پڑ جائے۔ اور نالیوں کے انتخابات میں ہمارے ٹیکٹ کے لالے نا پڑ جائے۔ یہ ان نا اہل نام نہاد مسلم قیادت کو کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ہم قوم کا سودا کر رہے ہیں۔ ہم اپنی نسل کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں اپنے ہی دشمنوں کی مدد کر رہے ہیں۔
دراصل موجودہ سیاست ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ جوا اور سٹہ بازی بن چوکی ہے۔ حال ہی میں اسمبلی انتخابات میں کروڑوں روپے کا سٹہ لگایا گیا تھا۔ مختلف اخبارات نے یہ خبر شائع کی تھی۔ اگر ہم اس پر غور کرے تو پتہ چلتا ہے۔ کوئی بھی پارٹی ہو وہ انتخابات میں ایسے شخص کو ٹیکٹ دیتی ہے کہ اسکے پاس پیسہ کتنا ہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کون کتنا پیسہ انتخابات میں ووٹوں کو خریدنے کیلے ووٹرس پر لگا سکتا ہے۔ اور ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹکٹوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ جس کے لیے میدان میں درجنوں افراد کھڑے ہوتے ہیں۔ اور ٹیکٹ نا ملنے پر آزاد امیدوار کے طور پر پارٹی سے بغاوت کرتے ہوئے مخالفت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک بات یہ بھی کہ اسمبلی انتحابات کیلے ٹکٹوں کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کروڑوں روپے میں ایک ایک ٹیکٹ بیچا جاتا ہے۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان سیکولر پارٹیوں کو پہنچتا ہے۔ پہلے ٹیکٹ کو خرید کر انتخابات لڑے جاتے ہیں۔ اور جیت حاصل کرنے کے بعد ان پیسوں کو وصول کرنے کیلے کروڑوں روپیہ کے ٹنڈروں کو پاس کیا جاتا ہے۔ اور شہر کے ترقیاتی کاموں کو مکمل نہیں کیا جاتا ہے یا بھر بوگس کام کیے جاتے ہیں۔ اور بلڈروں، کانٹریکٹروں، سپلائروں سے فرضی بل بنوائے جاتے ہیں۔ اور ان پیسوں کو مل بانٹ کر ہضم کرلیا جاتا ہے۔ اور ملک کے خزانوں کو اسطرح سے لوٹا جاتا ہے۔ اور عوام ہر چیز کا ٹیکس باقاعدہ ادا کرتی رہتی ہے۔ اور حکمران اقتدار اپنے اقتدار کے نشے میں عوام پر مہنگائی میں ٹیکس میں اضافہ کرکے عوام کا خون چوستی رہتی ہے۔ سیاست دان ٹیکس کے ڈر سے اپنے چاہنے والوں کے نام پر غریب عوام کے ناموں پر زمین خرید کر رکھ لیتے ہیں۔ بڑے بڑے کمپنیاں شروع کر لیتے ہیں۔ پلاٹنگ کے بزنس کرتے ہیں۔
اتنا ہی نہیں یہ افراد شہر کی نالیوں اور سڑکوں کے تعمیری کام کے پیسہ تک کھا جاتے ہیں۔ اور شرم تک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اور شفاف لباسوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ عوام بھی اس وجہ سے انکی بد عنوانیوں پر خاموش ہونے پر مجبور ہوتی ہے۔ کہ وہ انتخابات میں چند روپیوں میں اپنا ووٹ فروخت کردیتی ہے۔ اور پھر ان لیڈروں کے سامنے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ایک لفظ بولنے کی کسی کی ہمت نہیں ہوتی ہے۔ اسی طرح شہر کے بریجوں کے بوگس کام کیے جاتے ہیں۔ اور جب وہ بریج گرتے ہیں تو اس میں معصوم عوام کے جانیں جاتی ہے۔ اور پھر کام کرنے والے افراد پر کاروائی کی جاتی ہے۔ ناکہ ان بدعنوان سیاستدانوں پر جو پیسہ کھا جاتے ہے۔ یہ افراد دراصل ملک کی معیشت کو خراب کرنے میں اہم کردار کرتے ہیں۔ چند ہی افراد کے ہاتھوں میں پیسہ آجاتا ہے اور یہ اپنے اقتدار اور طاقت کے نشہ میں عوام پر ظلم کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جب پیسہ چند لوگوں کی مٹھی میں آ جاتا ہے تو پھر وہاں غریب اور بھی غربت کی پستیوں میں چلا جاتا ہے۔ وہاں غریبوں کی عزتیں نیلام ہوجاتی ہے وہاں بھوک سے نڈھال بچے دم توڑ دیتے ہیں۔ اور غریب مریض ہسپتال کی دہلیز پر آخری سانسیں گنتے ہیں۔ لیکن حکومت وقت کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا نا انہیں فرق پڑتا ہے۔
مہاراشٹر کے انتخابات میں مسلمانوں نے اس بار کافی حد تک سنجیدگی سے کام لیا اور علمائے کرام نے بھی اپنے ذمے داری کا مظاہرہ کیا لیکن پھر بھی چند نا اہل اور بکاؤ نام نہاد مسلم سیاست دانوں کی وجہ سے آپسی اختلافات اور رنجشوں کی بنا پر مسلم قیادت کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ہر بار انتخابات میں مسلمان یہ امید لگا کر بیٹھتے ہے کہ اس بار ہماری قیادت میں اضافہ ہوگا۔ لیکن افسوس آپسی رنجشوں کی بنا پر ہم مزید پستیوں میں جارہے ہیں۔ نئی قیادت کے ابھرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں لیکن وہ خواب تعبیر ہی نہیں ہو پاتا ہے۔ اسکی وجوہات بہت ساری ہے۔ اس میں عوام بھی ذمہ دار ہےجو اپنے علاقوں کے دلالوں کے ہاتھوں اپنا ووٹ بیچ دیتی ہے۔ اور اسی طرح فرقہ پرست عناصر اپنی چال چلتے ہیں۔ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی مسلم قیادت کو ابھرنے نہیں دیتی ہے۔ اور اسکی کھلی دشمنی ہم اس بار دیکھ چکے ہیں کہ ونچت اور کانگریس و راشٹروادی و دیگر پارٹیوں کی وجہ سے مسلم امیدواروں کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ 12 امیدوار ایسے ہیں جو دوسرے نمبر پر ہے بہت کم ووٹوں سے جن کی ہار ہوئی ہے۔ اور اس میں اپنے بھی شامل ہیں غیر تو غیر ہی ہے۔ اس بار اگر یہ افراد اپنی انا اور آپسی دشمنی کو بلائے طاق رکھ دیتے تو آج مہاراشٹر میں ملی قیادت کے ابھرنے کی امکانات تھے۔ اور منظر کچھ اور ہی ہوتا۔ لیکن افسوس ہم متحد ہونے کیلے تیار نہیں ہے۔ ہم صرف ایک جزباتی قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ بغیر پری پلاننگ کے میدان میں اترنا ہماری غلطی ہے۔ اس بار بھی صرف 10 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں عوام کے اندر سیاسی شعور بیدار کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہ اس وقت ہوگا جب قوم میں تعلیمی میدان میں اضافہ ہوگا۔ اور دینی تعلیم پر بھی ملت عمل پیرا ہوگی تو وہ اپنے حق رائے دہی کو فروخت نہیں کریں گی۔ کیونکہ یہ گواہی کا سودا کرنا ہے۔ اور جھوٹی گواہی دینے کی برار ہے۔ کے نا اہل امیدواروں کو ووٹ کے پیسہ لے کر اپنی گواہی درج کی جائے یہ بلکل درست نہیں ہے۔
آج مہاراشٹر میں جس طرح سے اتنی بڑی مسلم آبادی والے علاقوں میں ملی قیادت کی ہار ہونا آپسی رنجشوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ اور ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم دیگر عوام کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔ انکے ووٹوں کو بھی حاصل کرنے کیلے ہمارے سامنے لائحہ عمل ہونا بے حد ضروری ہے۔ جس طرح سے ونچت بہوجن اگھاڑی سے اتحاد ٹوٹنے کی وجہ سے کئی سیٹوں پار ہار ہوئی ہے۔ مہاراشٹر میں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں ایم آئی ایم نے ونچت بہوجن اگھاڑی سے اتحاد کی بنا پر اپنی جیت درج کرائی تھی ۔ آج انھیں علاقوں میں اپنا وجود بچا نہیں سکی ہے۔ اس لیے ضروری ہے۔ کہ عوام کو اعتماد میں لے کر قوم کے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کرتے ہوئے صحیح ملی قیادت کو ابھارنے کی کوشش کی جائے اور اسکے لیے پری پلاننگ ضروری ہے۔ نئی قیادت کو تسلیم کرنے میں عوام کو وقت لگتا ہے اس لیے پہلے ایسے جوانوں کو زمینی سطح پر تیار کیا جانا چاہیے اور زمینی سطح پر عوام کی فلاح و بہبود کیلے ترقیاتی کام اور دیگر سماجی کام کرنے بے حد ضروری ہے۔ ورنہ حالات ہمارے سامنے ہے۔ '
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
27اکتوبر2019(فکروخبر)
جواب دیں