طویل علالت ایک آزمائش

(134)یادِ رفتگاں
محمد ناصر سعید اکرمی
(ایڈیٹر نقوشِ طیبات ، بھٹکل)
انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے اس کی جملہ کیفیات کواللہ تعالیٰ نے مادر رحم میں لکھ دیا ہے کہ وہ دنیا میں آکر کیا کرے گا، کیسے رہے گا ، کن حالات سے دوچار ہوگا ، اس پر کیا بیتے گی اور کیا گزرے گی ، کیا کھائے کیا پیئے گا ، کن کن لوگوں سے اس کی ملاقات ہوگی ، دنیا کے کس خطے میں وہ زندگی کے دن کاٹے گا ، رزق ، علم ، عمل او رعمر تمام چیزیں لکھی جاچکی ہیں اور انسان اپنی زندگی میں ان سب کا مشاہدہ کر رہا ہے ، جو اس پر گزررہی ہے وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔قرآن میں ہے: { وَکُلُّ صَغِیرٍ وَکَبِیرٍ مُّسْتَطَر}(سورہ قمر:۵۳) یعنی لوح محفوظ میں ہر چھوٹی بڑی چیز لکھی جاچکی ہے۔
ایک جلیل القدر صحابی تھے، ان کا نام نامی اسم گرامی حضرت عمران بن حصینؓ تھا ،وہ ایک بیماری کی وجہ سے ۳۰/ سال کی ایک لمبی مدت تک بستر پر پڑے رہے ، ان کومرض استسقاء لا حق ہوا تھا ، مرض استسقاء و ہ مرض ہے جس سے پیٹ میں پانی بھر جانے کی وجہ سے پیٹ پھول جاتا ہے ، اس مرض کی وجہ سے ان کا پیٹ اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ جس سے وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تھے ، ایک لمبے عرصے تک صاحب فراش ہو گئے تھے ، قال ابن سیرین : سقی بطن عمران بن حصین ثلاثین سنۃً ، کل ذلک یعرض علیہ الکیّ ، فیأبی : فَاکتوی ، فکان یعج‘‘ ( سیر اعلام النبلاء،ج:۲/ص: ۵۰۸ ) حضرت عمران بن حصین کی صحت بہت خراب تھی ، آخر میں ان کو استسقاء کا مرض لاحق ہوگیا تھا ، لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس مرض میں داغنے سے فائدہ ہوتا ہے، لیکن وہ آں حضور ﷺ سے داغنے کی ممانعت سن چکے تھے ، اس لیے راضی نہ ہوئے ، ان کا مرض برابر بڑھتا گیا ، آخر نو بت یہاں تک آئی کہ پیٹ میں شگاف ہو گیا ، لیکن اس حالت میں بھی وہ فرمان رسول کے خلاف عمل کرنے پر آمادہ نہ ہوئے ، احباب نے کہا کہ تمھاری حالت دیکھی نہیں جاتی ، تمھارے پاس کیسے آئیں ، فرمایا: نہ آؤ لیکن جو چیز خدا کے نزدیک ناپسند یدہ ہے اس کو میں کسی طرح پسند نہیں کر سکتا ،آخر میں جب تکلیف ناقابل بر داشت حدتک پہنچ گئی تو ابن زیاد کے اصرار سے راضی ہوگئے ، لیکن سخت نادم و شرمسار تھے، آخر کار اس بیماری میں ان کی وفات ہو جاتی ہے ، اللھم اغفر لہ و رحمہ ۔
زیادہ لمبی مدت تک بستر پر پڑے رہنے کا دوسرا واقعہ جو وطن عزیز بھٹکل کا ہے ، وہ یہ ہے کہ ادھر دوڈھائی ماہ قبل بھٹکل میںمرحوم امتیازگوائی نام کے ایک شخص کی وفات ہوگئی تھی ، انتقال کے وقت اس کی عمر ۶۳ سال کی تھی ، یہ اپنی نو جوانی میں ایک حادثے کا شکار ہو گیا تھا ، جس کی وجہ سے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا ،اس نے اپنی عمر کے ۳۵ سال گھر کی چار دیواری میں گزار دیے، مرحوم کے بارے میں جو بات معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ وہ بیرون ملک میں بر سرروز گار تھا ، وطن آکر شادی کی پھر چند دن قیام کرنے کے بعدوہ اپنے کام پر چلا گیا ، وہاں چند دنوں کے بعد اس کا حادثہ ہو جاتا ہے ،پھر وہاں سے اس کو وطن لا یا جاتا ہے ، علاج و معالجہ کیا جاتا ہے ، لیکن کو لہے کی ہڈی نہ ملنے کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے صاحب فراش ہو جاتا ہے ، نئی نویلی دلہن اور وہ بھی ۲۸ سال کا نو جوان ، کتنی آرزوئیں اور خواہشات، سپنے اور ارمان ان کے دلوں میں رہے ہوں گے ، لیکن وہ سب اس حادثے کی وجہ سے کافور ہوجاتے ہیں ، دنیا میں انسان بہت کچھ سوچتا ہے ، لیکن وہ سب ادھورے رہ جاتے ہیں ۔
ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو وہ سب اس کے ساتھ پیش آتا ہے جو لو ح محفوظ میں لکھا جا چکا ہو تا ہے ، مرحوم امتیاز صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا ،شادی کے بعد چند ماہ ہی وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہا،اس کی کوئی اولاد نہیں ہے ۔
دنیا میںجوواقعات اور حادثات رونما ہوتے ہیں وہ حادثات ہمارے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہیں ، نو جوانوں کو با لخصوص اس طرح کے واقعات سے سبق لینا چاہیے اور یہ خیال کرنا چاہیے کہ خدا نخواستہ ہماری زندگی میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آسکتے ہیں ، ہم دعائے قنوت میں روزانہ یہ دعا پڑھتے رہتے ہیں ’’ وقناشر ماقضیت ‘‘ اے اللہ! بری تقدیر سے تو ہم کو بچا ، لکھی ہوئی تقدیر کا بدلنا نہ بدلنا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ،لیکن ہمارا تویہ فرض بنتا ہے کہ ہم ہر وقت محتاط رہیں ، رات گئے دیر تک بازاروں اور نکڑوں پر کھڑے ہو کر گپ شب نہ کریں جو کہ ہمارے نو جوانوں کا معمول بن چکا ہے ، فرائض کا حد درجہ اہتمام کریں ، سنن و نوافل کی پابندی کریں ، اپنا زیادہ وقت گھروں میں گزاریں،حدیث میں ہے کہ آخر ی زمانے میںفتنے وقوع پذیرہوں گے ، ایسے وقت میں اپنا زیادہ وقت گھر وں میں گزارنے کی تاکید کی گئی ہے ، ’’ الْزَمْ بَیْتَکْ ‘‘ کے الفاظ حدیث میں آئے ہیں یعنی اپنے گھروں کو لازم پکڑو ، لیکن ہمارے نو جوانوں کی توجہ اس طرف نہیں ہے ، رات گئے دیرتک بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں ، ایسے میں صبح کی نماز کہاں ملے گی؟ جب کہ ہمارے حضور ﷺ کا معمول رات میں جلدی سونے کا تھا ۔
ہمارے نو جوان اپنی سواریاں چلاتے وقت بھی بے قابو ہو جاتے ہیں ، جس سے کثرت سے حادثات ہوتے ہیں ، روز کوئی نہ کوئی واقعہ سننے میںآجاتا ہے ، ان حادثات سے ہاتھ پاؤں کی ہڈیوں کے ٹوٹ جانے سے مہینوں بستر پر پڑے دن کاٹتے ہیں ، اگر ہم اپنی زندگی میں احتیاط کا پہلو اپنائیں توحادثات کے نہ ہونے یا کم سے کم ہونے کے امکانات ہوں گے۔
آدمی دن دودن گھر پر پڑے رہے تو کتنی تکلیف اور بو ریت ہوتی ہے ، اب جبکہ کوئی مہینوں اور سالوں بستر پر پڑا رہے تو اس کو کتنی بوریت اور کوفت ہوگی ، اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے اوپرحالات آنے سے پہلے ہی سوچ لے ، یہی عقل مندی کا تقاضا بھی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ تقدیر میں جو ہوگا وہ ہو کر رہے گا ، لیکن محتاط رہنے کا حکم بھی دیا گیا ہے ، کیا قرآن کی وہ آیت نہیں پڑھی یا سنی ’’وَلَا تُلْقُوْا بِأیدیکم إلَی التَّھْلُکَۃِ ‘ ‘ ( بقرۃ ) یعنی اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو، یہ آیت ہمارے لیے اور خاص طورسے ان نوجوانوں کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے جو اپنی سواریوں کو بے تحاشا چلاتے ہیں اور بعض اوقات موبائیل کان میں لگائے گردن ٹیڑھی کیے باتیں کرتے ہوئے گاڑیاں چلاتے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر حادثات کے شکار ہوجاتے ہیں، خود بھی ہلاکت کے گڑھے میں گرجاتے ہیں اور دوسروں کو بھی گرا دیتے ہیں ، خود بھی اپنی جان کھو دیتے ہیں اور دوسروں کی زندگی کے ساتھ بھی کھلواڑ کرتے ہیں ، کیا یہ جان اللہ کی امانت نہیں ہے ؟ اس کا جواب آپ اللہ میاں کو کیا دیں گے ؟

بہر حال ہمارے نوجوانوں سے گذارش ہے کہ ’’ موتوا قبل أن تموتوا ‘‘ یعنی مرنے سے پہلے مر کر زندگی گزارو،اپنی زندگی کو اور دوسروں کی بھی زندگی کو اللہ کی امانت تصور کرو اور مذکورہ باتوں کی طرف خصوصی توجہ دو ، ہم نے کئی لوگوں سے سنا کہ نو جوانوں کی بے راہ روی بڑھتی جا رہی ہے اور ہمارے نوجوان دن بدن بد اخلاقی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ، میں یہاں زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتا ، ہم خود اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں کہ ہم سے کیا کوتاہیاں اور نا فرما نیاں سرزد ہورہی ہیں ، حدیث پاک میں اس نو جوان کے لیے قیامت کے دن اللہ کے سائے میں رہنے کی خو ش خبری سنائی گئی ہے جو اپنی جوانی کو اللہ کی عبادت میں گذار دے ، آپﷺ نے فرمایا: ’’ شَابٌّ نَشَأ فِی عِبَادَۃِ اللّٰہِ ‘‘ وہ نو جوان جس کی نشو نما اللہ کی عبادت میں ہوجائے ۔
زیادہ مدت تک بستر پر پڑے رہنے کا ایک اور واقعہ ہے ، اور وہ ہے ہمارے مولانا عبد الباری ؒ کی والدہ کا ، مرحومہ ۱۲/ ۱۰ سال بستر پر کسی بیماری کی وجہ سے پڑی رہی ، ادھر دو ماہ پہلے ان کی وفات ہوئی ،مرحومہ کے بارے میں سنا کہ زندگی کی آخری سانس تک اپنے معمولات نماز و روزہ ، سنن و نوافل کی پابندرہی ، کمر کی تکلیف کی وجہ سے بیٹھ نہیں سکتی تھی ، اللہ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہم کو اپنی مرضیات پر چلائے اور بری تقدیر سے ہم سب کی حفاظت فرمائے اور مرحوم امتیاز صاحب کی مغفرت فرمائے اور جنت میں درجات عا لیہ سے نوازے (آمین )۔

«
»

یہ خبر پڑھ کر آپ بھی چونک جائیں گے!

ہوشیار! بھری بالٹی میں گرکر ایک سالہ بچی جاں بحق