شعبان کا مہینہ رمضان کا دروازہ ہے


ڈاکٹرسراج الدین ندوی
ناظم جامعۃ الفصل ۔تاج پورضلع بجنور

دن ،مہینوں اور سال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ۔اس کے بنائے ہوئے ایام میں کوئی منحوس گھڑی نہیں ۔البتہ بعض ایام کو بعض ایام پر اور بعض مہینوں کو بعض مہینوں پر فضیلت و برتری حاصل ہے ۔جمعہ کے دن کو باقی ایام پر ،ماہ رمضان کو باقی مہینوں پر ،شب قدر کو باقی راتوں پرفضیلت حاصل ہے ۔اس فضیلت و برتری پرقرآنی آیات و احادیث نبویہ دلالت کرتی ہیں ۔اسی طرح تین اوقات وہ ہیں جن میں کوئی نماز یہاں تک کہ نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جاسکتی ۔جس طرح رمضان کو باقی گیارہ مہینوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اسی طرح رسول خدا نے کچھ دوسرے مہینوں کو بھی بابرکت اور فضیلت والابتایا ہے ۔مثلاً محرم کے مہینہ کو شہر اللہ کہا گیاہے ۔ اسی طرح شعبان کے مہینہ کو بھی بابرکت بتایا گیاہے ۔شعبان کا مہینہ رمضان سے پہلے آتا ہے ۔حدیث میں آتا ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے:”اللہمّ بارِک لنا فی رجب وشعبان، وبلَّغنا رمضانَ” ”اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینہ میں برکت عطا فرما، اور ہمیں خیر وعافیت سے رمضان تک پہنچا”(کتاب الصیام فی شعب الایمان)نبی ﷺ کے متعلق یہ بات بھی کتب حدیث میں وارد ہوئی ہے کہ آپ رمضان کا چاند دیکھنے کا جس قدر اہتمام فرماتے اسی طرح شعبان کا چاند دیکھنے کا بھی اہتمام کرتے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس قدر اہتمام شعبان کے چاند دیکھنے کا فرماتے اس قدر دوسرے مہینوں کا نہیں فرماتے تھے۔(سنن ابی دائود)آپ ؐ فرماتے تھے کہ رمضان کے لیے شعبان کا شمار رکھو۔یعنی شعبان کے دنوں کی گنتی یاد رکھو۔ظاہر ہے اس زمانے میں کلینڈرتو تھے نہیں ،سب کچھ چاند دیکھ کر متعین ہوتا تھا ۔اگر کسی مہینہ میں مغالطہ ہوجائے اور دوسرے مہینہ مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند دکھائی نہ دے تو تاریخوں میں بھول لگنے کا اندیشہ ہے ۔
شعبان کا لفظ عربی قواعد کے اعتبار سے ’’شعب‘‘ سے بنا ہے، جس کے لفظی معنی شاخ در شاخ کے ہیں، اس مہینے میں چونکہ خیرو برکت کی شاخیں پھوٹتی ہیں، اور روزہ دار کی نیکیوں میں درخت کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے، اس وجہ سے اس کو شعبان کہا جاتا ہے۔شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب ’’ماثبت بالسنۃ‘‘ میں حضرت انس بن مالکؓ کے حوالہ سے یہ لکھا ہے کہ روزہ دار کی نیکیوں (کے ثواب) میں درخت کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ شعبان کے مہینے میں بہت سی نیکیاں تقسیم کی جاتی ہیں، جیسے رمضان کے مہینے میں گناہ جلا دیئے جاتے ہیں، اس وجہ سے اس کو شعبان کہتے ہیں۔
نبی ﷺ یوں تو عام مہینوں میں بھی روزے رکھتے ۔ایام بیض کے روزوں کا اہتمام فرماتے ۔کبھی پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے ،لیکن شعبان کے مہینے میں آپ ؐ روزوں کا کثرت سے اہتمام کرتے تھے ۔اس کی وجہ بھی آپؐ نے ایک حدیث میں بیان فرمائی ۔حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:۔’’ میں نے آپ کو جس قدر کثرت سے اس مہینہ میں روزے رکھتے دیکھا اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ۔’’رجب اور رمضان کے درمیان ایک عظمت والا مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں ، اور اس مہینہ میں لوگوں کے اعمال اللہ رب العزت کے حضور پیش کیے جاتے ہیں، اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے اعمال اس حالت میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں۔ ‘‘(کتاب الصیام فی شعب الایمان)
شعبان کے تعلق سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ اس میں ایک رات آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور انسانوں کے گناہ معاف کرتے ہیں نیز اس رات میں ایک سال کی تقدیر لکھی جاتی ہے ،کون پیدا ہوگا اور کون مرے گا اسی رات میں فیصلہ کردیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔اس ضمن میں بعض کتابوں میں دوچارالفاظ کے فرق کے ساتھ درج ذیل حدیث وارد ہوئی ہے :۔
حضرت عائشہ صدّیقہ ؓروایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ۔’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس رات (پندرہویں شعبان) میں کیا ہے؟‘‘ عائشہ صدّیقہ ؓنے عرض کیا :۔’’ اے اللہ کے رسولؐ! اس رات میں کیا ہے؟ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔’’ جس بچے کو اس سال پیدا ہونا ہوتا ہے، وہ اس رات میں لکھا جاتا ہے، اور اس سال میں جو بنی آدم ہلاک ہونے والا ہوتا ہے، اس کا نام لکھا جاتا ہے، اور اس رات میں ان کے اعمال اُٹھالیے جاتے ہیں، اور اسی رات میں ان کے رزق نازل ہوتے ہیں۔‘‘ پھر عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ:۔’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کوئی بھی ایسا نہیں کہ جو اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل ہو۔‘‘پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بھی ایسا نہیں کہ جو اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں جا سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی، تو حضرت عائشہ ؓنے کہا کہ کیا آپؐ بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جاسکیں گے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک سر پر رکھ کر فرمایا:۔’’ اورکہا میں بھی نہیں جا سکوں گا، مگر اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی تین دفعہ ارشاد فرمائی۔ (بیہقی)
اس رات کی فضیلت کی ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس میں قیام کرنے اور پندرہویں شعبان کے دن کا روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی اور اسے بڑے اجر کا باعث بتایا ۔اگرچہ یہ روزہ و قیام نفل اور مستحب ہے ،واجب یا فرض نہیں ہے ۔لیکن آپ ؐ کا اشارہ بھی امت کے لیے کافی ہے ۔گناہ گاروں کو بخشش کا کوئی ادنیٰ موقع بھی مل جائے تو انھیں اس کا فائدہ اٹھانا چاہئے ۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔’’جب شعبان کی پندرہویںرات ہو، تواس رات کو قیام(عبادت) میں گزارو، اور اس کے دن میں روزہ رکھو، اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی تجلی آفتاب کے غروب ہونے کے وقت سے ہی آسمانِ دنیا پر ظاہر ہوتی ہے، پس وہ فرماتا ہے: ۔’’خبردار!کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ اس کو بخش دوں؟ خبردار!کوئی رزق لینے والا ہے کہ اس کو رزق دوں؟ خبردار! کوئی مصیبت زدہ ہے کہ(وہ عافیت کی دعا مانگے، اور میں) اس کو چھڑادوں؟ خبردار!کوئی فلاں فلاں حاجت والا ہے؟ طلوعِ صبح صادق تک اللہ تعالیٰ یہی آواز دیتا رہتا ہے‘‘ ۔ (رواہ ابن ماجہ، وروح المعانی)
بعض محدثین نے پندرہویں شعبان کے روزے والی حدیث کو ضعیف بتایا ہے ۔ہوسکتا ہے ایسا ہو ۔لیکن نبی ﷺ کی ایک دوسری حدیث میں ایام بیض کے روزے رکھنے کی فضلیت بیان کی گئی ہے ۔اس کی رو سے چودہ ،پندرہ اور سولہ شعبان کا روزہ رکھنا چاہئے ۔’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہر مہینے کے تین روزے رکھے یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے اس نے ہمیشہ روزے رکھے۔‘‘(ترمذی)آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جس سے ہو سکے ہر مہینے میں تین روزے رکھے۔ ہر روزہ دس دن کے گناہ مٹاتا ہے اور وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے پانی کپڑے کو پاک کر دیتا ہے۔’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر اور حضر میں ایامِ بیض کے روزے رکھا کرتے تھے۔‘‘(سنن النسائی)
ان احادیث اور اسوہ رسول کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شعبان کا چاند دیکھنا چاہئے ،اس ماہ میں رمضان کا انتظار کرنا چاہئے ،رمضان کے لیے خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرنا چاہئے ۔پندرہویں شب کو نفل نمازوں کا اہتمام کرنا چاہئے اور دن کو روزہ رکھنا چاہئے ۔ایک ایسا ماحول بنانا چاہئے کہ رمضان کی آمد و اہمیت محسوس کی جاسکے ،غیر مسلم تک یہ جان لیں کہ رمضان آنے والا ہے ۔گھر میں بار بار تذکرہ کیا جائے کہ رمضان آرہا ہے ۔اہل خانہ کے ساتھ رمضان گزارنے اور اس میں عبادت کرنے کی منصوبہ کی جانی چاہئے ۔قرآن کی تلاوت ،اس کو سمجھنے کی کوشش ،اس پر عمل کا احتساب ،ضرورت مندوں کی امداد ،کمزوروں کی کفالت وغیرہ کے بارے میں منصوبہ بنانا چاہئے تاکہ رمضان سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہوا جاسکے ۔
امت میں شعبان کے مہینہ میں بعض خرافات بھی رائج ہیں ۔جن کا نیکی اور عبادت سے دور تک کا بھی تعلق نہیں ۔اب بھلا بتائیے آتش بازی کا اسلام اور دین سے کیا رشتہ ہے ؟موٹر سائکلوں کی دوڑکا مقابلہ کرنا ،اس پر چار پانچ نوجوان بیٹھتے ہیں اور تیز رفتار سے چلاتے ہیں اور خوب تماشہ دکھاتے ہیں ،جب کہ یہ صرف غیر اخلاقی و غیر شرعی توہے ہی غیر قانونی بھی ہے ۔اس دن حلوہ بنانے کی بھی کوئی ہدایت نہیں ہے ۔ان خرافات سے خود کو بچانے کی ضرورت ہے ۔ہم اللہ کے بندے ہیں اور اس کے احکام کے پابند ہیں ۔اگر ہم شعبان میں نفل عبادات نہیں کرسکتے تو نہ کریں فرائض کی ادائیگی ہی کافی ہے ،لیکن خرافات کرکے اپنے حساب میں گناہ تو نہ لکھوائیں۔

مضمون نگار کی رائے سےا دارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔