سپریم کورٹ نے منگل کے روز تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کی جانب سے متعدد بلوں کو روکے رکھنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اور عوام اس تاخیر کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ عدالت نے کہا، "عوام پریشان ہیں، ریاست مشکلات میں ہے، اتنے زیادہ بل زیر التوا ہیں۔”
عدالت تمل ناڈو حکومت کی جانب سے دائر ان دو عرضیوں پر سماعت کر رہی تھی جن میں گورنر پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ قانون ساز اسمبلی کے کام میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور 2020 سے 2023 کے درمیان منظور کیے گئے 10 بلوں کو جان بوجھ کر روکے ہوئے ہیں۔یہ تمام 10 بل، جو زیادہ تر اعلیٰ تعلیم سے متعلق تھے اور جن میں گورنر کو ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر کے عہدے سے ہٹانے کی شقیں شامل تھیں، 18 نومبر 2023 کو صدرِ جمہوریہ کو بھیجے گئے تھے۔ صدر نے ان میں سے ایک کی منظوری دے دی، سات کو مسترد کر دیا، جبکہ دو بل تاحال غیر حل شدہ ہیں۔
سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ وہ اس تنازع کو آئینی اصولوں اور جمہوری تقاضوں کی روشنی میں حل کرے گی۔ عدالت نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ 6 فروری کی اگلی سماعت سے قبل یہ تعطل کسی بات چیت کے ذریعے ختم ہو سکتا ہے۔ تاہم، تمل ناڈو حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ گورنر کا یہ رویہ جمہوری نظام کے خلاف ہے۔ریاستی حکومت کے وکیل مکول روہتگی نے عدالت کو بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے مطابق، اگر ریاستی اسمبلی کسی بل کو دوبارہ منظور کرے تو گورنر کے پاس اس پر دستخط کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہوتا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو "جمہوری نظام مکمل طور پر ناکام ہو جاتا ہے۔” وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے مزید کہا، "گورنر کوئی سپر چیف منسٹر نہیں ہیں۔ ان کا منتخب نہ ہونا ایک خاص مقصد کے تحت ہے تاکہ وہ سیاست سے بالاتر رہیں، لیکن یہاں وہ خود سیاسی کھیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔”
دلچسپ بات یہ ہے کہ گورنر کے وکیل اٹارنی جنرل آر وینکٹرمانی نے عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ "گورنر کی میز خالی ہے، وہاں کچھ بھی نہیں۔” تاہم، ریاستی حکومت کے مطابق حقیقت اس کے برعکس ہے اور گورنر نہ صرف اپنی آئینی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں بلکہ حکومت کے کاموں میں رکاوٹ بھی ڈال رہے ہیں۔
یہ معاملہ صرف تمل ناڈو تک محدود نہیں، بلکہ تلنگانہ، پنجاب اور کیرالہ نے بھی سپریم کورٹ سے شکایت کی ہے کہ ان کے گورنر بھی اسی طرح قانون سازی اور انتظامی امور میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔