ظلم و بربریت کا بازار صرف ایوانِ اقتدار تک محدود نہیں۰۰

عالمی سطح پر پلس پولیو کے ذریعہ بچوں کو صحت مند و تندرست رکھنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ ہر ایک چاہتا ہے کہ انکے ملک میں معذور بچے پیدا نہ ہوں اس کے سدّباب کے لئے حکومتوں کی جانب سے پلس پولیو کی مہم چلائی جاتی ہیں۔صحت عامہ کے مراکز پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہر بچہ صحت مند اور تندرست پیدا ہو۔ لیکن پاکستان جیسے اسلامی جمہوریہ ملک میں جہاں پر حکومت اور صحت عامہ کے مراکز اپنے ملک کے معصوم بچوں کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے کے لئے پلس پولیو کا اہتمام کرتے ہیں۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں پلس پولیو کے خلاف احتجاج ہوا اور ڈراپس ڈالنے والے عہدیداروں کو ہلاک کیا گیا ۔جس کے پیشِ نظر حکومت نے پولیو ڈراپس ڈالنے والے عملے کے تحفظ کے لئے سیکوریٹی انتظامات کئے ۔ لیکن تحفظ فراہم کرنے والوں کے خلاف ہی یعنی سیکیورٹی عملے کو ہی نشانہ بنایا گیا ۔ جو لوگ پاکستان کو اسلامی مملکت کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں اور شرعی قوانین کے لاگو کرنے کی بات کرتے ہیں وہی پاکستان میں اپنے بھائیوں اور بہنوں اور بچوں کا ناحق خون بہارہے ہیں۔ان کے دعوے اب کتنے سچے ہیں ان بے رحمانہ کارروائیوں سے ظاہر ہوجاتے ہیں۔اور یہ لوگ معصوم شہریوں کی جان لے کر مذہب اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بچوں کی صحت و تندرستی کو نظر انداز کرکے حملے کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں طلبا و طالبات کو علم سے محروم کرنے کی کوششیں جاری ہیں کہیں پر خودکش حملوں کے ذریعہ مدارس کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کہیں پر پلس پولیو کے ذریعہ خدمات انجام دینے والوں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ گذشتہ دنو ں پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع چارسدہ میں پولیو ٹیموں کی حفاظت پر مامور پولیس ویان پر حملہ کیا گیا جس میں چھ پولیس اہل کاروں سمیت سات افراد ہلاک اور چار افراد زخمی ہوگئے۔ ضلعی پولیس سربراہ شفیع اللہ خان کے مطابق سڑک کے کنارے نصب ایک ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعہ ویان میں ڈیوٹی پر جارہے عملے پرحملہ کیا گیا ۔ اس سے قبل بھی ضلع چار سدہ میں حملے کئے جاچکے ہیں اور یہ تیسرا حملہ تھا۔ پاکستان میں پولیو مہم کا آغازہوا لیکن خیبر پختون خوا کے تین اضلاع پشاور، ہری پور اور چترال میں بعض وجوہات کی بناء پر پولیو سے بچاؤ مہم کو موخر کردیا گیا ہے۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت بھی ان شدت پسندوں کے سامنے ہتھیار ڈال دی ہے۔

گذشتہ دنوں تحریک طالبان پاکستان نے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں فوج کی چھاؤنی کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے ایک قافلہ کے قریب دھماکہ کیا جس میں 20اہل کار ہلاک اور 20سے زاید زخمی ہوگئے۔ اس دھماکے کے بعد وزیر اعظم پاکستان نواز شریف جو سوئزرلینڈ کا دورہ کرنے والے تھے اسے منسوخ کردیا۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں21؍ جنوری کی شام شیعہ زائرین کی بس کو نشانہ بنایا گیا ہلاک ہونے والوں میں 18افراد بشمول خواتین و بچے بھی شامل ہیں۔جبکہ 25افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ بس ایران سے زائرین کو لے کر واپس آرہی تھی ۔ اس سے قبل بھی ایران سے آنے والے زائرین پر حملہ کیا گیا۔ وزیر اعظم پاکستان ان حملوں کی سختی سے مذمت کرتے ہیں ۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور حملوں کے پیش نظر حکومت اور فوج سخت رویہ اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بنوں میں فوجی چھاؤنی پر ہونے والے حملے کے خلاف پاکستانی فوج نے میر علی، قبائلی علاقے شمالی وزیر ستان میں شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر فضائی حملے کئے جن میں 40شدت پسند ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ فوجی ذرائع کے مطابق میر علی اور میران شاہ میں شدت پسندوں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاعات کے بعد یہ کارروائی کی گئی جبکہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کے بیان کے مطابق 50خواتین اور بچے مارے گئے جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ترجمان کے دعوی کے مطابق میر علی کے علاقے میں ایک مسجد پر بھی بمباری کی گئی اور وہاں پر متعدد افراد ہلاک ہوئے ، جٹ طیاروں کی بمباری میں عام شہریوں کے مکان بھی نشانہ بنے ہیں۔ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ پاکستانی فوج کی یہ کارروائی گذشتہ دنوں پشاور کے قصہ خوانی بازار اور بنوں میں فوج پر ہونے والے حملوں سے بتایا جاتا ہے گذشتہ سال ماہ ستمبر میں صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے تاریخی بازار قصہ خوانی میں ہونے والے بم دھماکے میں 42افراد ہلاک اور 90زخمی ہوئے تھے ۔ پاکستانی فوج کی میر علی اور میران شاہ میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی ان ہی حملوں کا جواب تصور کیا جارہا ہے۔ غرض یہ کہ پاکستان کے تقریباً علاقوں میں خودکش بم دھماکے،قتل و غارت گیری ، لوٹ مارکا راج ہے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہونے والا تھا لیکن سیکوریٹی فورسس اور طالبان کے درمیان ہونے والے ان حملوں کی وجہ سے اب مذاکرات کا عمل دشوار گزار نظر آتا ہے۔ پاکستانی طالبان کی اعلیٰ قیادت خود مذاکرات کے عمل کو بے فیض بتاتی ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ حکومت مذاکرات کی بات تو کرتی ہے لیکن اندرونی طور پر وہ دوغلہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جبکہ پاکستانی حکومت کی ذمہ دار قیادت طالبان سے مذاکرات کی بات کرتی ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ اگر طالبان ہتھیار ڈالتے ہیں تو بہتر ہے ورنہ وہ ان سے نمٹنا اچھی طرح جانتی ہے۔ اب جبکہ میرعلی اور میران شاہ میں ہونے والی فوجی کارروائی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فوج پوری مستعدی سے طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کریں گی۔ اگر پاکستان میں طالبان اور فوج کے درمیان حملوں میں شدت پیدا ہوگئی تو اس سے عام شہریوں کی ہلاکت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جبکہ معاشی طور پر بھی اسکے برے اثرات مرتب ہونگے۔ جس طرح پاکستان اور افغانستان میں تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جاتا رہاہے اسی طرح شام کے حالات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ شام میں گذشتہ تین سال سے جاری خانہ جنگی کے نتیجہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور کئی لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان تین سالوں سے بچوں کی تعلیم شدید متاثر ہوئی ہے جبکہ عام شہریوں کا روزگار کے لئے گھر سے باہر نکلنا دشوار ہوگیا ہے۔ ملک شام میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر حملے کررہے ہیں ان حملوں کی زد میں معصوم شہری بھی آرہے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی سطح پر کوئی بھی اتنا طاقتور نہیں کہ فتح حاصل کرلے اور دونوں جانب شکست تسلیم کرنے کے لئے کوئی کمزور دکھائی نہیں دیتا۔ شام میں صدر بشارالاسد کو طاقتور اتحادیوں روس، ایران اور تنظیم حزب اللہ کا تعاون حاصل ہے ۔ 2011سے جاری خانہ جنگی کو کچلنے میں بشار الاسد نے ہر ممکن کوشش کی ہے اور کررہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق شام میں 11ہزار افراد کو پھانسی دی گئی۔جبکہ جنگی قیدیوں پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔ ہزاروں افراد فاقہ کشی کا شکار ہیں ان حالات کے پیشِ نظر سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک بشارالاسد کو اقتدار سے محروم کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے وہ امریکہ اور اقوام متحدہ پر دباؤ بھی ڈال چکے ہیں۔اقوام متحدہ اور امریکہ کی نرم پالیسی کی وجہ سے سعودی عرب ان سے ناراضگی کا اظہار بھی کرچکا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ شام کے حالات کب بہتر ہوتے ہیں اگر اسی طرح خانہ جنگی جاری رہی تو مزید ہلاکتوں کا اندیشہ ہے جبکہ بے گھر لوگوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔ عالمی سطح پر شام کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے متحدہ لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا اور صدر بشارالاسد کسی بھی طرح قائل کرنا ہوگا کہ وہ ملک میں امن و آمان کی فضا کو بحال کریں یا اقتدار سے کنارہ کشی اختیار کریں۔
سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ سلمان بن سلطان آل سعودنے پاکستان کا دورہ کیااور وہ پاکستانی فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کئے ہیں ان کا یہ دورہ کس نوعیت کا تھا یہ الگ بات ہے کہ لیکن ماضی میں جس طرح پاکستان کو عرب ممالک مستحکم دیکھنا چاہتے تھے ابھی بھی اس سے یہی امید ہونگی لیکن ان ممالک کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا کہ نہیں یہ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ ملک بھر میں خودکش حملے، لوٹ مار، قتل و غارت گیری کا بازار گرم ہے اگر حکومتِ پاکستان دہشت گردانہ سرگرمیوں پر قابو پاتی ہے تو یہ پاکستان ہی نہیں بلکہ اسلامی ممالک کے لئے نیک آئند اقدام ہوگا کاش پاکستان اور عالم اسلام میں ۔

«
»

ہندوستان میں کاسہ بدست بچوں کی بہتات

جنیوا ٹو کی کامیابی کے امکانات کم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے