عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ اس بات میں کسی کو دورائے نہیں کہ معاشرے کی صلاح وفلاح کامدار اور سماج کے عروج و ارتقاء کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اس معاشرے میں بسنے والے تمام افراد کو ادنی اور اعلی کے امتیاز،رنگ ونسل کی تفریق اور مذہب وملت کی ترجیح کے بغیر یکساں اور […]
اس بات میں کسی کو دورائے نہیں کہ معاشرے کی صلاح وفلاح کامدار اور سماج کے عروج و ارتقاء کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اس معاشرے میں بسنے والے تمام افراد کو ادنی اور اعلی کے امتیاز،رنگ ونسل کی تفریق اور مذہب وملت کی ترجیح کے بغیر یکساں اور مساوی حقوق حاصل ہوں،کسی کو انسان ہونے کی حیثیت سے کسی پر کوئی فضیلت و برتری نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔لیکن افسوس صد افسوس کہ آج وطن عزیز میں انصاف اپنا حقیقی معنی کھوچکا ہے، ایک مخصوص قسم کی ذہنیت تمام باشندگان وطن پر تھوپنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں اور لفظ مساوات خود اپنے دوہرے معیار پر شرم سے پانی پانی ہے۔ ملک بھر میں ظلم کی حکمرانی اور لاقانونیت کا بول بولا ہے، برسراقتدار جماعت کی تانا شاہی اورمن مانی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عوام کی بے چینی اور بے کلی کا کوئی احساس نہیں،گھروں سے بے گھرسراپااحتجاج خواتین کا کوئی پاس نہیں،درجنوں افراد کی شہادت پر کوئی افسوس نہیں۔ان سب کے باوجود۔۔۔۔۔ ہمیں معلوم ہے کہ مظلوم کمزور و بے بس ہے،جب کہ ظالم طاقت و اقتدار کا مالک ہے،ہم جانتے ہیں کہ مظلوم نہتا اور مغلوب ہے اور ظالم جاہ وسلطنت پر قابض ہے،ہم واقف ہیں کہ مظلوم لاچار وعاجز ہے،اس کے بالمقابل ظالم بااختیار وحاکم ہے۔۔۔۔۔ہمیں اس بات پر پورا یقین ہے کہ ظلم ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے،ظلم کو ہر حال میں مٹنا ہے،وہ مٹ کر رہے گا۔تاریخ انسانی میں کتنے ایسے سرکش و بدمست حکمراں گزرے،جنہیں یہ خیال ہوچلا تھا کہ وہ فاتح عالم ہیں،ساری کائنات ان کی ہتھیلی میں پڑی ہے، وہ جب چاہیں،جہاں چاہیں،جسے چاہیں تختہئ دار تک پہونچا سکتے ہیں یا تاج خسروی پہنا سکتے ہیں؛مگرقدرت نے ان سے کیسا انتقام لیا؟تاریخ نے ان کے ساتھ کیسا کھیل کھیلا؟انہیں مظلوموں کے پیروں تلے ذلیل ہونا پڑا، اور خودان کے غلاموں نے ان کا وہ حشر کیا کہ وہ تاقیامت درس عبرت بن گئے۔جب ظلم اپنی حدیں پار کرتا ہے تواللہ رب العزت اس کی روک تھام کے لیے کوئی بہترتدبیر مظلوموں کے حق میں پیدا فرمادیتاہے،اور ظالموں کو وہاں سے چوٹ پڑتی ہے کہ ان کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں، پھر وہ راہ فرار ڈھونڈنے پرمجبورہوتے ہیں،اور اللہ رب العزت انہیں سرعام ذلیل و رسوا فرماتے ہیں اور ان کے تمام منصوبے چاہے وہ پہاڑوں سے بلندتر کیوں نہ ہوں، ناکام ہوجاتے ہیں۔ ظلم کی قباحت کے لئے اس سے بڑھ کر سند اور کیا چاہیے کہ خود اللہ جل شانہ نے کتاب مبین میں اپنی ذات والاصفات سے ظلم کی نفی فرمائی ہے۔ ایک دو جگہ نہیں؛بلکہ درجنوں مقامات پراس کا ذکرملتاہے، کہیں فرمایا:”یقین جانوکہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں فرماتا“۔(یونس آیت: ۴۴)کہیں ارشادہوا:”آپ کا پروردگار کسی پر ظلم نہیں ڈھاتا“۔(کہف: ۹۴) اور کہیں کہاگیا:”بلا شبہ اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا“۔(نساء:۰۴)اور ظالموں کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا:”اور انھوں نے (دولت واقتدارکے نشہ میں بدمست ہوکر)اپنی طرف سے بڑی فریب کاریاں کیں جبکہ اللہ کے پاس ان کے ہر فریب کا توڑ تھا، اگرچہ ان کی مکارانہ تدبیریں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی اکھڑ جائیں“۔(ابراہیم)حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں اپنی امت کے حق میں تین باتوں سے ڈرتا ہوں! ایک تو چاند کے منازل کے حساب سے بارش مانگنا، دوسرے بادشاہ کا ظلم کرنااور تیسرے تقدیر کا جھٹلانا یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ تقدیر الہی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ انسان جو بھی فعل کرتا ہے وہ خود اس کا خالق ہوتا ہے۔(مشکوۃ) نظام الملک طوسی سلطنت سلجوقیہ کا وزیر اعظم تھا۔ اس نے دوسلجوقی حکمرانوں، الپ ارسلان اور ملک شاہ کے زمانہ میں نہایت کامیابی کے ساتھ حکومت کا نظام سنبھالا- وہ حکومت کے معاملات میں اتنا زیادہ دخیل تھاکہ کہا جاتاہے کہ بادشاہ وقت کا کام تخت پر بیٹھنا رہ گیا تھا یا شکار کھیلنا- سلجوقی حکومت کے حریفوں نے نظام الملک کو قتل کرادیا،جس کے مرتے ہی سلجوقی سلطنت کا شیرازہ بکھرگیا،قصہ مختصریہ کہ نظام الملک نے طریق حکومت پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا فارسی نام سیاست نامہ ہے۔اس کتاب میں اس نے لکھا ہے: '' حکومت کفر کے ساتھ باقی رہ سکتی ہے مگر وہ ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتی''-یہ اصول بادشاہ کے لئے بھی صحیح ہے اور ایک عام آدمی کے لئے بھی۔ ہر آدمی کا اپنا ایک دائرہ عمل ہوتا ہے۔ بادشاہ کا دائرہ بڑا ہوتا ہے اور عام آدمی کا چھوٹا۔ جو آدمی کامیابی کے ساتھ زندہ رہنا چاہتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دائرہ میں ظلم کرنے سے بچے۔ اگر اس نے دوسروں پر ظلم کرنے سے اپنے کو نہ بچایا تو یقینی طور پر وہ قدرت کی پکڑ میں آ جائے گا۔ خدا کی سنت ہے کہ آدمی کے دوسرے جرموں کی سزا تو اس کو آخرت میں دی جاتی ہے مگر جو شخص ظلم کرے اور ناحق دوسروں کو ستائے اس کی سزا اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے۔ ظلم کرنے والا خدا کی پکڑسے بچ نہیں سکتا، خواہ جلد پکڑا جائے یا دیر میں۔ظلم ایک ایسی برائی ہے جس کا خمیازہ اولاد تک کو بھگتنا پڑتا ہے۔ظلم کرنے والا خواہ کوئی حکمران ہو یا غیر حکمران،اگر وہ
اپنے ظلم پر قائم رہتا ہے تو لازما ایسا ہو گا کہ اس کے ظلم کا انجام اس کے خاندان تک پہنچے گا-آدمی اپنے بچوں کی خاطر ظلم کرتا ہے حالانکہ بچوں کے حق میں اس سے زیادہ بری وراثت اور کوئی نہیں -(ملخص ازاسباق تاریخ)
ظالم کو ظلم سے روکنا ضروری ہے! یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مفاد پرست عناصر اورتشددپسندافرادکے ہاتھوں سیاست گندی اور گدلی ہوچکی ہے، اس کوپاک وصاف کرنے کاواحد راستہ یہی ہے کہ ملت کاباوقار طبقہ علماء کرام، پروفیسرزاور لکچرارز،دانشوران اور خوفِ خدا رکھنے والے حضرات سیاست کے عملی میدان میں اترجائیں اوراپنی صدق بیانی،خدا ترسی اورسچی خدمت کے ذریعہ سیاست کی موجودہ گندگی کودھونے کی سعی کریں اور متحد ہوکر خودغرض اوردہشت گردعناصر سے سیاسی قوت چھین لیں، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ اگرلوگ ظالم کے ظلم کودیکھ کر اس کاہاتھ نہ پکڑیں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پراپنا عذاب نازل فرمادیں، ظالم کو ظلم سے روکنا اور اس کے خلاف آواز اٹھانا معاشرے کے ہرفرد کے لئے لازم و ضروری ہے۔نبی اکرمﷺنے صرف بیس سال کی عمر میں حلف الفضول کاقیام عمل میں لایا،یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبل از نبوت زندگی کا بہت روشن باب ہے، جورفتہ رفتہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوچکاہے۔واقعہ یہ ہے کہ قبیلہ بنوزبید کا ایک فرد مکہ آیا، عاص بن وائل سے کچھ کاروباری معاملہ کیا، عاص نے وعدہ خلافی کی، اس کا واجب پیسہ نہیں دیا، زبیدی نے پریشان ہوکر مکے کے ہر در پر دستک دی کہ کوئی ہے جو میرا حق مجھے دلادے، جبل ابوقبیس پر چڑھ کر اس نے اپنی داستانِ مظلومیت بیان کی،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سمیت چند نوجوانوں کے ساتھ اس مظلوم کی داد رسی کے لئے اکٹھے ہوئے، اور یہ معاہدہ طے ہواکہ ہم سب مل کر ایک ہاتھ اور ایک قوت بنیں گے، ہر اس ظالم کے خلاف رہیں گے جو کسی کا حق مار لے، جب تک وہ حق ادا نہیں کردے گا اس وقت تک ہم اس کے خلاف ایک متحدہ قوت بن کر رہیں گے۔چناں چہ زبیدی کو اس کا حق مل کر رہا، اس معاہدے کو حلف الفضول (خوبیوں کا معاہدہ) کہا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بعد میں فرمایاکرتے تھے کہ:”آج بھی اگر کوئی یہ معاہدہ کرنا چاہے تو میں سب سے آگے آکر اس کوقبول کروں گا۔“(سیرت ابن ہشام) آپ غور کیجئے! یہ معاہدہ مکہ کے سماج کے چند ایسے نوجوانوں کا تھا، جو بہت زیادہ با اثر نہیں تھے، جو شخص ظلم کررہا تھا، دوسروں کا حق چھین رہا تھا وہ اپنے دور کا اور مکہ کا بہت بااثر اور مضبوط شخص تھا؛ لیکن حق اورانصاف وہ چیز ہے جو کسی طاقت والے کی طاقت، کسی اقتدار والے کے اقتدار، کسی قوت والے کی قوت کے سامنے نہیں جھکتی، ظالم کو ظلم سے روکنے کے لئے، مظلوم کو انصاف دلوانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ معاہدہ کیا، ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت نہیں ملی ہے، ابھی بیس سال باقی ہیں؛ لیکن بنیاد قائم ہوگئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت ظالم کے ظلم کو ختم کرے گی، مظلوموں کو حق دلائے گی،پوری دنیا میں نظام انصاف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ قائم ہوگا۔حضرت ابو سعیدکہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:سب سے افضل جہاد اس شخص کا ہے جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) جابر و ظالم حکمران کے سامنے حق گوئی کو بہترین جہاد اس لئے فرمایا گیا کہ جو شخص کسی دشمن سے جہاد کرتا ہے وہ خوف و امید دونوں کے درمیان رہتا ہے اگر اس کو یہ خوف ہوتا کہ شاید دشمن مجھ پر غالب آ جائے اور میں مجروح یا شہید ہو جاؤں تو اس کے ساتھ ہی اس کو یہ امید ہوتی ہے کہ میں اس دشمن کوزیر کر کے اپنی جان کو پوری طرح بچا لوں گا۔ اس کے برخلاف جو شخص ظالم و جابرحکمران کے سامنے حق بات کہنے کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لئے امید کی کوئی ہلکی سی کرن بھی نہیں ہوتی؛بلکہ خوف ہی خوف ہوتا ہے چنانچہ وہ اس حکمران کے مکمل اختیار وقبضہ میں ہونے کی وجہ سے اس یقین کے ساتھ احقاق حق کا فرض ادا کرتا ہے کہ اس کاانجام دنیا میں نری تباہی و نقصان کے علاوہ اور کچھ نہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جس مہم میں انسان کو اپنی زندگی اور اپنے مال و متاع کے باقی رہنے کی ہلکی سی امید بھی نہ ہو اس کو انجام دینا اس مہم کو انجام دینے سے کہیں زیادہ صبر آزما، ہمت طلب،مردانگی کا کام اور بدرجہا افضل ہو گا جس کی انجام دہی میں اپنی زندگی اور اپنے مال و متاع کے باقی رہنے کی بہتر حد تک امید ہو۔ اس کو بہترین جہاد اس لئے فرمایاگیا ہے کہ حکمران کا ظلم و جور ان تمام لوگوں کو متاثر کرتا ہے جو اس کی رعیت میں ہوتے ہیں وہ کوئی دو چار دس آدمی نہیں؛بلکہ ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں بندگان خداہوتے ہیں لہٰذا جب کوئی شخص اس حکمران کو اس کے ظلم و جور سے روکے گا وہ اپنے اس عمل سے خدا کی کثیر مخلوق کو فائدہ پہنچائے گا۔ جب کہ دشمن سے جہاد کرنے میں یہ بات اس درجہ نہیں پائی جاتی۔
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مددہوتی ہے!
آج لوگوں کے درمیان اس بات کا شعور تو ہے کہ ظلم ایک قبیح عمل ہے، ظلم کو دوام حاصل نہیں؛ مگر وہ اس بات سے یکسر غافل رہتے ہیں کہ ظلم سہنا،ستم پر خاموش رہنا، ظالم کی مذمت میں آواز بلند نہ کرنا بھی بہت بڑے فسادکا پیش خیمہ اور نہایت ناپسندیدہ عمل ہے؛جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ستم قبول کرنا ستم کرنے سے زیادہ جرم نہیں تو کم بھی ہرگز نہیں۔ستم پذیری ستم گری کو دعوت دیتی ہے، ستم گروں کو جرات فراہم کرتی ہے، ظالموں کو قوی اور مستحکم بناتی ہے- اس لحاظ سے ستم گری سے بڑا جرم ستم پذیری ہے۔ ظالم حکمرانوں اور ان کے حامیوں کی توصیف میں کچھ کہنا،لکھنا تو دور کی بات ہے، آقا علیہ السلام نے تو محبت بھری نظروں کے ساتھ ان کی طرف دیکھنے سے بھی منع فرمایاہے۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”اپنی آنکھوں کو ظالموں کے مددگاروں سے نہ بھرو(یعنی ان کی طرف نہ دیکھو) مگر اس حال میں کہ تمھارے دل ان کا انکار کررہے ہوں، ورنہ تمھارے نیک اعمال ضائع ہو جائیں گے“۔یعنی اگر تم نے ظالموں اور ان کے حامیوں کو نفرت اور قلبی انکار کی نظر سے نہ دیکھا توتمھارے اعمال ضائع کردیے جائیں گے۔ اسی طرح امام ذھبی نے ”کتاب الکبائر“ میں لکھا ہے کہ:”ایک درزی حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آیا اور اس نے کہاکہ میں بادشاہ کے کپڑے سیتا ہوں، کیا میں بھی ظالموں کے مدد گاروں میں شامل ہوں؟حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ نے فرمایا کہ تو خودتو ظالموں میں سے ہے ہی۔ ظالموں کے مددگار تو وہ لوگ بھی ہیں جو تجھے سوئی اور دھاگہ بیچتے ہیں“۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر عہد میں جماعتِ مجاہدین کے ساتھ ساتھ منافقین کا ٹولہ بھی سرگرم عمل رہا۔ ایک طرف مجاہدین جرئت وبے باکی کے ساتھ باطل کا مقابلہ کرتے اور قید قفس یا جاں سپاری کے لیے تیاری رہتے تودوسری طرف منافقین دن بھر بادشاہ کی رضا جوئی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیاہ کو سفید اور دن کو رات کہتے نہ تھکتے۔ اکبر بادشاہ کا مشہور نورتن ابوالفضل فیضی جو اس کا دودھ شر یک بھائی بھی تھا، چاپلوسی اور خوش آمد کے مختلف طریقوں میں غیرمعمولی مہارت رکھتا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ تملق وچاپ لوسی کا فن سب سے زیادہ شاہی دربار میں پروان چڑھا؛کیونکہ بادشاہ کی ذات کو تمام اختیارات حاصل ہوتے تھے؛ اس لیے خوشامد کرنے والے اپنی چرب زبانی کے ساتھ خوبصورت اشعارپیش کرتے، ان کی شجاعت و بہادری کے قصے سناتے، زمین و آسمان کے قلابے ملاتے اور مال وزرکی وافر مقداراپنے ساتھ لے جاتے۔ آج بھی جب ایک طرف ملک کے آئین کوتحفظ فراہم کرنے، اس کی جمہوریت کو بچانے،اس کی صدیوں پرانی تہذیب کو باقی رکھنے کے لیے قوم کی اکثریت مستقل احتجاج میں لگی ہوئی ہے تو دوسری طرف کچھ ایسے کاسہ لیس اور حاشیہ نشیں افراد بھی ہیں جومعمولی وزارتوں اور مختصر سے مال و زرکے لیے ظلم کی حمایت میں پیش پیش ہیں اور باشندگان وطن کے اس احتجاج کو بغاوت سے تعبیر کررہے ہیں۔فیا اسفاہ۔کسی شاعر نے ایسے ہی ضمیرفروشوں کے سلسلہ میں کہا تھا ؎ خوشامد بڑے کام کی چیز ہے زمانے میں آرام کی چیز ہے خوشامدپہ کچھ خرچ آتا نہیں خوشامد کے سودے میں گھاٹا نہیں
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
30/ جنوری 2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں