ظلم توآخرظلم ہے بڑھتاہے تو۔۔۔۔۔

البتہ مسلک کی متعصبانہ جوالامکھی کواپنے دل سے نکالنے کیلئے پڑوس کی کمزورریاستوں پرظلم کے سب ہتھ کھنڈے استعمال کرنے کوعین ثواب سمجھے بیٹھے ہیں۔بہرحال اس ظلم کوبھی ایک دن فناہوناہے۔یہی قانون قدت ہے اورفطرت کااصول بھی۔اس وقت ہم روئے زمین کی سب سے بدبوداراورجابرحکومت اسرائیل کی الٹی گنتی کی ابتداکامشاہدہ کررہے ہیں۔جس کی ابتداتوایک سال پہلے ہی ہوگئی تھی۔مگردوروزقبل عالم عیسائیت کے سب سے بڑے قبلہ وکعبہ ویٹیکن نے باضابطہ طورپرفلسطین کوآزادریاست تسلیم کرلیاہے۔حالاں کہ اس تاریخی اورجرأتمندانہ اقدام پرویٹیکن کے خلاف اسرائیل اورامریکہ کی بھنویں تن گئی ہیں۔مگریہ دونوں شریرخوب جانتے ہیں کہ وہ اسقف اعظم کیخلاف کچھ بھی کرنے طاقت نہیں رکھتے۔
اسرائیل نے ویٹیکن کے اس اعلان پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے قیام امن کے علم پر مثبت اثر نہیں پڑے گا۔قابل ذکریہ ہے کہ فلسطین اور ویٹیکن کے درمیان جو اسرائیل اور فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے مذاکرات کا عمل بیس سال سے جاری تھا۔ابھی چندہفتہ قبل ہی کمزورفلسطین کے طاقتورنمائندہ محمودعباس کو پاپائے اعظم نے امن کاسفیرقراردے کریہ واضح کردیاتھاکہ اب دنیائے عیسائیت اسرائیل کی شرانگیزفطرت کی بہت زیادہ حمایت کرکے ازلی گنہ گارنہیں بنے گی۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق ویٹکن کو اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں زبردست مذہبی دلچسپی ہے۔اللہ کرے دل چسپی اوربڑھے۔ ان میں عیسائیوں کے مقدس مقامات بھی شامل ہیں۔بیت المقدس میں رومن کیتھولک پوپ فرانسس کی طرف سے دو راہبوں کو سینٹ کا درج دینے کی تقریب کی تیاریاں کی جارہی ہے، جو کہ موجودہ دور میں پہلے فلسطینی سینٹ ہوں گے۔غورطلب ہے کہ فلسطین کو علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا ویٹیکن کی طرف سے اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب دوسرے ممالک بھی اس طرف مائل ہیں اوراس کاسلسلہ لگ بھگ ڈیڑھ برس پہلے ہی شروع ہوگیاتھا۔گزشتہ سال یورپی پارلیمنٹ کے علاوہ برطانیہ، رپبلک آف آئرلینڈ، اسپین اور فرانس کے منتخب نمائندے اس طرح کی قراردادیں منظور کر چکے ہیں۔سوئیڈن کی حکومت نے تو سرکاری طور پر بھی فلسطین کو علیحدہ ریاست تسلیم کر لیا ہے۔
اسرائیل کی طرف سے ان تمام اقدامات پر تنقید کی گئی تھی اور اس کا کہنا تھا کہ ان سے مذاکرات نہ کرنے کے بارے میں فلسطین کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ماضی کے دوتین برسوں میں ظالم اسرائیل کوفلسطین کے موقف میں کئی بارمنہ کی کھانی پڑچکی ہے۔جیسے اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین کی رکنیت کااعلان،عالمی عدالت میں اسرائیل کوبین الاقوامی جنگی مجرم اوردہشت گردملک کے خلاف فلسطین کی عرضداشت کومنظوری وغیرہ۔نامساعدحالات اوراپنے اردگردموجودامریکہ کی حواری ریاستیں اگرچہ فلسطین کے معاملے میں زبان کھولنے کوگناہ عظیم تصورکرتی ہیں۔مگران ناگفتہ بہ حالات میں بھی ترکی نے فلسطین کے آنسوپونچھنے کی جرت أضرورکی،جس سے دنیاکایہ احساس اورقوی ہوگیاکہ ترکی ظالم کی حمایت میں سعودی عرب کی طرح اپنے ہی مذہب کادشمن بنناگوارا نہیں کرتا ۔ رجب طیب اردگان اوراحمددؤداوغلونے ترکی میں انسانیت کی عظمت کے حوالے سے بڑاہی مثبت پیغام دیاہے۔یہ پیغام ان آمریت پسندوں کواپنے گناہوں سے بازآنے کاسبق سنارہاہے،جنہوں نے امریکہ کے اشارے پراسرائیلی کازکوطاقت دینے کاعہدکررکھاہے۔ہم کہنایہ چاہ رہے ہیں کہ ایک بار پھردنیاکامکروہ ترین ظالم ملک تازیانہ قدرت کے نشانہ پر آگیاہے اورخالق ارض وسمانے اس کوآخری انجام تک پہنچانے کاشایداٹل فیصلہ کرلیاہے۔ابھی تازہ ترین عالمی سیاسی حالات پرگہری نظررکھنے والے یہ دیکھ کریقیناًحیرت زدہ ہوں گے کہ فلسطین کے حق میں ویٹیکن کے اس جرأتمندانہ قدم پرامریکہ بہادراوراوبامہ خاموش کیوں ہیں۔بہرحال کیتھولک عیسائیوں کے مرکز ویٹی کن نے فلسطین کو سرکاری سطح پر علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی تصدیق کردی ہے۔ ویٹی کن کی طرف سے فلسطین کو علیحدہ ریاست تسلیم کیے جانے کے دو سال بعد گزشتہ روز ویٹی کن نے فلسطین کے ساتھ ایک پہلے تاریخی معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ ویٹی کن نے ایک باہمی مسودے پر دستخط کر کے سرکاری طور پر فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ویٹی کن کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ اس سے اسرائیلوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات شروع ہونے کا امکان بڑھے گا ۔تاہم اسرائیلی حکومت نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور کہا ہے کہ وہ ویٹی کن کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لیں گے۔ اس موقع پر فلسطینی وزیرخارجہ ریاض المالکی نے کہا کہ یہ سب پوپ فرانسس کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ ویٹی کن 2013 سے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکا ہے ۔تاہم ’’کانکارڈٹ‘‘ نامی اس مسودے پر دستخط کے بعد فلسطین کے مسئلے کو مزید اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے 135 ارکان فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم ویٹیکن کی جانب سے اس اقدام کی وجہ سے مسئلے کو روحانی اور اخلاقی وزن ملے گاجس کااحساس انکل سام کوبخوبی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اس موضوع پرچیخنے سے گریزکررہے ہیں۔ دیگر کانکارڈز کی طرح یہ مسودہ کیتھولک چرچ کی سرگرمیوں کو فلسطین اتھارٹی کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں بڑھا دے گا۔ ویٹی کن مشرقِ وسطیٰ میں عیسائیوں کی پوزیشن کو مزید مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ تاہم اسرائیل نے اس اقدام کو جلد بازی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے اسرائیل اور ویٹیکن کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔
اسرائیل کے خلاف دنیاکے مزاج کوبھانپتے ہوئے امریکہ بھی اب کافی محتاط ہوچکاہے۔امریکی صدر باراک اوباما نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی جانب سے فلسطین کے آزاد ریاست کے قیام سے متعلق بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری کو مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے حوالے سے اسرائیل پر اعتماد نہیں۔ اسرائیلی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے باراک اوباما کا کہنا تھا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے معاملے پر اسرائیل عالمی برادری میں اپنی ساکھ کھو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ فلسطین کے ساتھ امن نہیں چاہتے، فلسطین میں قیام امن کے حوالے سے ہم آج تک یورپین ممالک کے بیانات کو پس پشت ڈالتے رہے لیکن اگر اب اسرائیل نے معاملے کے حل کے لئے فلسطین کو اہم فریق نہ سمجھا تو پھر امریکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی حمایت کے حوالے سے اپنے موقف میں تبدیلی پر غور کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ دوسری جانب اسرائیلی نائب وزیر خارجہ تزپی ہوتو ویلی کا کہنا ہے کہ فلسطین کے معاملے پر اسرائیل اپنی پالیسیوں کے حوالے سے کسی سے معافی نہیں مانگے گا، ہم اپنے موقف پر قائم ہیں کہ یہ سرزمین یہودیوں کی ہے اور ہم ہی اس کے اصل حق دار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بین الاقوامی برادری سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے اسے یہودی ریاست کے قیام کی منظوری دے گی۔
تازہ ترین منظرنامہ کچھ اس طرح پلٹاکھایاہے کہ اب مظلوموں کیلئے ہرجانب سے مددکی آوازیں بلندہونے لگی ہیں۔البتہ حمایت کی یہ صدائے دلنوازاکسی ایوان اسلام سے نہیں،بلکہ ایک بڑی اورباطل کی عظیم ترین عقیدت گاہ سے ہوئی ہے۔قابل غورہے کہ حق پسندوں کے اس قافلے میں سوئیڈن،روس اوربالآخرامریکہ بھی دل چسپی لینے لگا ہے۔دنیاکی تاریخ ایک پھرعلامہ اقبال کاترانہ گنگنانے جارہی ہے۔
پاسباں مل گئے کعبے کوصنم خانے سے

«
»

اسامہ بن لادن کے قید و بند کا ڈرامہ

ہم چراغوں کوڈراتے ہو،یہ کیا کرتے ہو؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے