بیسویں صدی کے مہذب جمہوری دور میں ایک بار پھر عرب کے جدید فرعونوں نے نہ صرف اخوان کے نوجوانوں اوربوڑھوں کو بھی اس زنداں میں ڈال دیا بلکہ انہیں موت کی سزا سنائی جا رہی ہے۔باحجاب دوشیزاؤں کو بھی پابند سلاسل کرتے ہوئے ایسی شرمناک اذیتوں سے گذارا جا رہا ہے جسے سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔دی ٹیلی گراف لندن کی ایک کالم نگار رادھیکا سگھائی نے حال میں ہی لکھا ہے کہ ۲۰۱۳ ء میں مصر کے فوجی انقلاب کے بعد احتجاج کرنے والی بہت ساری نوجوان دوشیز اؤں کو جب گرفتار کیا گیا تو انہیں ذلیل اور رسوا کرنے کے لئے نہ صرف ان کے حجاب اور نقاب کو اتارکر پھینک دیا گیاانہیں بے آبرو بھی کیا گیا تاکہ وہ حکومت کے سامنے احتجاج کی بھی جرأت نہ کر سکیں۔جیسا کہ ان کے مضمون کا عنوان ہی ہے کہ۔Any one who has not been raped is the exceptional گرفتاری کے وقت اگر کسی عورت کی عصمت دی نہیں کی گئی تو اسے استثناء ہی کہا جا سکتا ہے۔
بہر حال اس وقت مصر اور شام کی جو صورت حال ہے یہاں کی جیلوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ نوجوان عورتوں کے ساتھ جودرندگی اور حیوانیت کا سلوک کیا جا رہا ہے۔کہیں نہ کہیں ان کے ساتھ اللہ کی مدد ضرور شامل ہے جو اللہ پران کے ایمان اوریقین کو مزید پختہ کئے ہوئے ہے جب کہ دنیا کی تمام جیلوں میں ظالم حکمرانوں کے کارندے بار بار ان مظلوم مسلمانوں کو طعنہ دے دے کر کہتے ہیں کہ پکارو اپنے اللہ کو اگر تمھاری مدد کر سکتا ہے؟اللہ کہتا ہے کہ کتنے نادان ہیں یہ لوگ جو ایسی باتیں کرتے ہیں۔انہوں نے اللہ کے عذاب کو نہیں دیکھا ہے اور اگر دیکھ لیں اور دھر لئے جائیں تو اپنی ساری دولت و جائیداد اور حکومت کے عوض جہنم کی آگ سے بچنے کی بھیک مانگیں گے۔جنت اور جہنم پر اعتماد کا یہی وہ جذبہ تھاکہ جب مصری خاتون مجاہدہ زینب الغزالیؒ سے جمال عبدالناصر کے سپاہیوں نے کہا کہ وہ اپنی تحریک سے باز آجائیں تو نہ صرف انہیں رہا کر دیا جائے گابلکہ انہیں حکومت کے اہم عہدوں پر فائز بھی کر دیا جائے گا۔اس خاتون مجاہدہ کا جواب تھا کہ میرے لئے میرے اللہ کا اجر ہی کافی ہے۔مولانا مودودیؒ سے پاکستانی حکمراں جنرل ایوب نے پیش کش کی کہ اگر وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لیتے ہیں تو ان کی سزائے موت کے فیصلے کو منسوخ کیا جا سکتا ہے مولانا نے کہا کہ موت اور زندگی کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔اللہ جو نہ صرف انسانوں کے ارادہ کو بدل دیتا ہے بلکہ حکومتوں کو بدل دینا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔مولانا مودودیؒ جیل سے رہا بھی ہو گئے مگر جیل سے رہا ہو جانا ان کے لئے کسی خوشی یا فخر کی بات نہیں تھی اہم بات یہ تھی کہ اللہ کی آزمائش پر پر کھرے اترے اور اللہ نے ان کے دل و دماغ پر سے موت کے خوف کا پردہ ہٹا دیااسی طرح مصر کی عدالت کے ذریعہ سنائے گئے فیصلے سے پہلے صدر مرسی کی زبان سے یہ تاریخی الفاظ سنے گئے کہ جو لوگ اس راہ میں شہید ہو چکے ہیں میری جان ان سے زیادہ قیمتی نہیں ہے اس تحریک کی جڑیں سیکڑوں شہداء کے خون سے سیراب ہیں۔میرا خون بھی ان کے خون میں مل کر اس کی توانائی میں اضافہ کرے گا۔صدر مرسی کے بیٹے اسامہ نے اپنے والد کے خلاف فیصلہ سن کر کہا کہ یہ فیصلہ ہمارے لئے غیر متوقع نہیں ہے مگر ظالموں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس فیصلہ سے نہ تو ہمارے عزائم پر اثر پڑا ہے اور نہ ہی ہمارے قدم ڈگمگائے ہیں۔اور نہ ہی صدر مرسی کے اور سچ تو یہ ہے کہ ہماری تحریک آزادی کا محور کبھی اشخاص نہیں رہے۔ڈاکٹر مرسی تو بہر حال حافظ قرآن ہی ہیں اور انہوں نے اپنی پوری زندگی تحریک اسلامی کے لئے وقف کر دی تھی اللہ تعالیٰ ایسوں کی ہی مدد کرتا ہے جو اپنے گناہوں سے توبہ کر کے حق کی طرف رجوع ہو جاتے ہیں۔عراق کا فوجی ڈکٹیٹر جس نے اپنی پوری زندگی عیش و عشرت میں گذاری مگر جب اس نے اپنے مسلمان ہونے کا مظاہرہ کیا تو اللہ نے نہ صرف اسے باطل سے ٹکرانے کی جرأت دے دی بلکہ موت کے وقت اس کی آنکھ پر سے خوف کا پردہ ہی ہٹا دیااور انہوں نے خوشی خوشی اللہ اکبر کہتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو گلے لگا لیا۔اقبال نے انہی شیروں کے لئے کہا تھا کہ !
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
یہ اسی عزم اور خدا پر یقین کا مظاہرہ تھا کہ جب پچھلے سال مصر کی ایک عدالت نے تقریباََ بیس نوجوان خواتین کو دس دس سال کی سزا سنائی تو انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنی انگلیوں سے فتح کا علامتی نشان ظاہر کیا اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی گویا وہ کہہ رہی تھی کہ السیسی تم ہار گئے ہم جیتے ہیں تم نے تو ہمیں وہی دیا ہے جو ہر مومن کی تمنا ہوتی ہے۔مسلمانوں میں کچھ وہ لوگ جو عقیدے سے کمزور ہیں ان میں ایک باطل تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اگر یہ لوگ اچھے تھے اور اچھے ہیں تو ان کے اوپر یہ تکلیفیں کیوں آ رہی ہیں۔ دراصل یہ مومن کی فطرت اور عادت نہیں ہے کہ وہ کسی بھی تکلیف اور مصیبت وقت شکوہ یا گریہ و زاری کرے یہ خواہش اور فطرت منافقین کی ہوتی ہے۔اور وہ اپنی ہر اچھائی اور برائی کا فیصلہ سامنے اور اسی دنیا میں دیکھ لینا چاہتے ہیں۔شہید حسن البناؒ نے اپنی شہادت سے پہلے کہا تھاکہ اے اخوان جب قید خانے تمہارے لئے کھول دئے جائیں اور تمہارے لئے پھانسی کی لکڑیاں لٹکا دی جائیں تو جان لو تمہاری دعوت نے نتیجہ خیز ہونا شروع کر دیا ہے۔یہ بات سچ بھی ہے کہ اللہ کی آزمائش اوردشمنوں کے عتاب سے اللہ کے خاص بندوں کو ہی گذرنا پڑ تا ہے۔قرآن کہتا ہے کہ کیا تم نے سمجھ یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی تمہیں جنت میں داخلہ مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا۔ان پر سختیاں گزریں ،مصیبتیں آئیں اور ہلا مارے گئے حتیٰ کہ وقت کے رسول اور ان کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟اس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔یہ بات اصحاب کہف اور اصحاب اخدود کے تعلق سے بھی کہی جا سکتی ہے کہ نہ تو ان سے کوئی غلطی ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی لغزش اور نہ ہی ان کے ایمان میں نقص تھا مگر اللہ نے انہیں حضرت یوسف ؑ اور سلیمان ؑ کی طرح سلطنت نہ دے کر اپنی آزمائش کے ذریعے ان کے مرتبے کو بلند کیا اور پھر حق و باطل کی کشمکش اور مشکل حالات پیدا کرکے اللہ عام لوگوں اور وقت کے حکمرانوں کو بھی آزماتا ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔عرب بہار کی شورش اور ڈاکٹر مرسی کی معزولی کے بعد عرب حکمرانوں اور جو لوگ ان عرب حکمرانوں کے ساتھ ہیں ان سب کے چہرے بالکل واضح ہو چکے ہیں ۔فرق اتنا ہے کہ حرم کی پاسبانی کا دعویٰ کرنے والے سعودی حکمراں نے اگر مرسی کے سینے پر وار کیا ہے تو خلافت کے دعویدار ایران کے صفوی حکمراں نے پیٹھ میں خنجر پیوست کیا۔مگر وہ ممالک جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن سمجھے جاتے تھے مغربی میڈیا اور ان کے صحافیوں نے السیسی کے ظلم کو پوری طرح بے نقاب کیا ۔اخوانی رہنما محمد احمد الراشد نے اپنی کتاب آزادی سے فرار میں لکھا ہے کہ مصر کے مقامی میڈیا نے تو اسلام پسندوں کی برائیاں کرنے میں اپنے ضمیر تک کو فروخت کردیا لیکن عالمی میڈیا نے انصاف سے کام لیا ۔لہٰذا مجلہ ٹائمز نے جہاں ہمارے موقف کی تائید و حمایت کی یوروپ کے تمام اخبارات یعنی نیو یارک ٹائمز ،گارجین ،ڈیلی ٹیلیگراف اور فارین افیئر کے علاوہ ترکی میڈیا نے بھی غیر جانبدار ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور حقیقی صورتحال کو واشگاف کیا اور معروف مصنف اور مغرب کے عظیم فلاسفر نوم چومسکی، رابرٹ فسک اور ہیومن رائٹس کی تنظیموں نے ہمارے مسئلے کی تشریح کرتے ہوئے ہمارا دفاع کیا۔
اب جہاں تک داکٹر مرسی کو سزا ئے موت کے فیصلہ کی بات ہے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس دوران مصر اور عرب میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تو مرسی اور مرسی کے ساتھیوں کو ان کے دشمن جو ان کے خون کے پیاسے ہیں اسی طرح تختہ دار پر لٹکا دیں گے جیسا کہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے ساتھ ہورہاہے اور ماضی میں مصر کی انہی جیلوں میں سید قطب ؒ ،عبدالفتاح اسمعٰیل ؒ اور محمد یوسف ہواش ؒ کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ۔زینب الغزالی نے اپنی کتاب ’’زنداں کے شب وروز‘‘ میں لکھا ہے کہ جس وقت ہمارے ان بھائیوں کو موت کی سزا دی گئی ہم اور سید قطب کی بہن جیل کی کوٹھری میں ہی تھے اور میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح ایک بہن کی دلجوئی کروں اور اپنے آپ کو سمجھاؤں ۔یہ حادثہ انتہائی جانکاہ ہے ،یہ مصیبت انتہائی سنگین و شدید ہے ۔سید قطب اور دیگر دونوں بھائیوں کی موت اللہ کے راستے میں ہوئی ہے ،اللہ کے راستے میں جہاد کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے ۔ایک شاعر نے بالکل درست کہا ہے کہ
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
جواب دیں