احمد خزیمہ ابن محمد مصدق ہلارے۔(متعلم جامعہ اسلامیہ بھٹکل )
زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوش نوا
شاخ پر کچھ دیر بیٹھا چہچہایا اُڑ گیا
آج دادا جان اور دادی جان کے قبر سے ہو کر آیا تو احساس ہوا کہ وقت کتنا تیزی سے گزرتا ہے کہ دادا جان اور دادی جان کو انتقال ہوئے ایک مہینہ مکمل ہوگیا
رات اپنی تاریکی کو لیے ہوئی تھی، ماحول پوری طرح پرسکون تھا ، میں اپنے مدرسہ میں امتحان کی تیاری میں مصروف تھا کہ اتنے میں استاد محترم نے مجھے بلا کر مشفقانہ انداز میں دادی جان کے اس دنیا سےانتقال کرجانے کی خبر دی اس خبر کا سننا تھا کہ دل بدحال ہوگیا، آنکھیں اشک بار ہوگئیں، ہاتھ پاؤں کانپنے لگے، گویا پیروں تلے زمین کھسک گئی، مدرسہ سے مغموم دل اور کانپتے بدن ۔بہتے انسوں کو لے کرگھر پہنچا ، کیا دیکھتا ہوں کہ زار و قطار رونے کی آوازیں آرہی ہیں،ان آوازوں کو سنتے ہوئے دادی کے کمرے میں داخل ہوا …کوئی بہتی آنسوؤں کے ساتھ دادی کے قریب بیٹھا تھا تو کوئی کہیں کونے میں اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا، ڈب ڈباتی آنکھوں کے ساتھ میں نے بھی ایک نظر دادی جان پر کی،دل زور زور سے دھڑکنے لگا ، ذہن ودماغ میں ماضی کی یادیں پھرنے لگیں، دادی کی ایک ایک صفت ذہن ودماغ میں گردش کرنے لگی ،اس کا میرے ہاتھوں کو پکڑ کر اور اپنی نظروں کو میری نظروں سے ملا کر مشفقانہ انداز میں نصیحت کرنا ، صحت کے بارے پوچھنا، گھر کے حالات دریافت کرنا، کچھ دن نہ آنے پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کے فضائل سنا کر بار بار آنے کی ترغیب دینا، اپنی زندگی کے آخری ایام میں بار بار دعاؤں کی درخواست کرنا وغیرہ وغیرہ.. الغرض پوری رات اسی طرح دادی کے ساتھ بیتے ہوئے سہانے لمحات یاد کرنے میں گزر گئی
دادی ماں ہم سب کی تعلیمی ترقی پر بہت خوش ہوتی تھی۔بالخصوص اپنے پوتوں میں مجھے حفظ قرآن کی اول سعادت ملنے پر مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتی تھی، اور مجھے حفظ قرآن کی تکمیل پر مجھے بہت ہی قیمتی سائیکل بھی انعام میں دیا تھا، ابھی انتقال کے چند ہی روز قبل میرا حیدرآباد حفظ مسابقہ میں جانا ہوا ،سفر سے پہلے دادی ماں سے دعاؤں کیلۓ حاضر ہوا،دادی ماں خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے دعاؤں کے ساتھ سفر کیلۓ پیسے بھی دیے ، دوسرے ہی روز اسی مسابقہ میں میرے مکرم ومعزز چچا حافظ مزمل ہلارے ندوی بھی اپنے محلے کے حفاظ کو لے کر اسی مسابقہ میں شریک ہورہے تھے تو پھر ان کے ہاتھ میرے لیے مزید پیسے بھیجے
الغرض وہ بہت نیک صفت اور صاف دل عورت تھی ۔ اپنے بچوں سے انکو بہت ہی زیادہ محبت تھی ۔ اسی وجہ سے اپنے ناتی اور پوتوں سے بہت ہی پیار تھا ۔ نمازوں کی پابند تھی ، ذکر و اذکار سے زباں تر رہتی تھی، قران کی تلاوت پابندی سے کیا کرتی تھی، اپنے بچوں کی خبر گیری، ہم سایہ اور اقربا کا بےحد خیال تھا،مہمان نوازی میں بے مثال تھی، بیماروں کی تیماداری ان کا شیوہ تھا ،گھر کی مکمل ذمہ داری، صفائی ستھرائی اور سب سے بڑھ کر قناعت ان کا خاص وصف تھا
آج ان کے اس دنیا سے چلے جانے پر پورا خاندان اشکبار ہے ،پڑوسی بھی ابھی تک اداس ہیں
میرے والد مکرم کا کہنا تھا کہ ہماری ماں ہماری ایسی حفاظت کرتی تھی جیسے مرغی اپنےچوزوں کی حفاظت کرتی ہے ،مزید کہتے ہیں کہ والدہ ھمیشہ ہمیں دعاؤں سے نوازتی تھی جسکی بدولت ہرکام میں ہمیں مدد ملتی تھی ،آج اس نعمت سے ہم محروم ہوگئے ۔۔۔
آہ آہ آہ
ابھی دادی جان کے وصال کا چوتھا دن تھا ،میرےوالدمحترم اور ہمارے تمام چچا اپنے والد (دادا جان )کے ساتھ ہی وقت گزار رہے تھے اور اپنے غم کو اپنے والد کے ساتھ ہلکا کرنے کی کوشش کررہے تھے اورشہر میں عشاء کی نماز مکمل ہورہی تھی،میں اپنی دادی جان کے متعلق اپنے احساسات کو لکھ ہی رہا تھا کہ اچانک خبرگردش کرنے لگی کہ دادا جان کا بھی انتقال ہوگیا
آہ
گھر میں ابھی کچھ دن قبل اپنی شریک حیات کی جدائی پر آنسو بہانے والے غم کی تاب نہ لا کر خود اسی راہ پر چل دیے . گویا زبان حال سے یہ کہہ رہے تھے
جانِ جاں ہے زندگی دشوار تر ، تیرے بغیر
یہ کوئی جینا نہیں، جینا ہے گر تیرے بغیر
دادی کے غم میں سب کے آنسو ابھی تھمے نہیں تھے کہ دادا جان کی فرقت کا غم برداشت سے باہر ہو گیا
اور سب یہی سوچ رہے تھے
کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
گمان تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے
لیکن تمام اہل خانہ خدا کے فیصلے پر راضی ہو کر اپنی زبان سے انا للہ وانا الیہ راجعون کا ورد کرنے لگے اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے لگے ۔
دادا جان بہت ہی نیک طبیعت والے تھے، دین کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے، پیڑ پودوں سے بہت ہی زیادہ لگاؤ تھا، گھر کے مشقت زدہ کام اپنے بچوں کے روکنے کے باوجود خود کیا کرتے تھے ، خیر خیرات میں ہاتھ اونچا تھا اپنے چھوٹے پوتے پوتیوں سے محبت تو تھی ہی بلکہ بڑے پوتے پوتیوں سے بھی حد درجہ لگاؤ تھا۔ پیروں میں تکلیف کے باوجود گھر سے چل کر مسجد میں نماز با جماعت ادا کرتے تھے، قرآن پاک کی تلاوت، ذکرو اذکار اور تہجد کے پابند تھے رشتہ داروں کی خبر گیری ان کا شیوہ تھا ،اپنے بچوں سے بےحد پیار و محبت تھا، ان کے گھروں کی مکمل نگرانی اور انکو محنت اور زندگی کے ہر موڑ پر آگے بڑھنے کے لیےرہنمائی کرنا اور ھمت دیناان کا وطیرہ تھا،بچوں کےساتھ بچے بن کر کھیلنا اور سب سےہنستے ہنستے ملنا ،بیماروں کی عیادت، نماز جنازہ میں پابندی کے ساتھ شرکت ان کا معمول تھا ،مسجد سے ہمیشہ دل اٹکا رہتا تھا ،علماء وحفاظ سے بےحد لگاؤ تھا،جب میں رمضان میں تراویح سنانا تھا تو میری تروایح سننے کیلۓ دور دور تک بہت شوق سے اتے تھے ۔ وہ دنیاسے بے غبت تھے ۔ کہ میرے والد محترم نے مھجے بتایا کہ دادا جان سے کسی نے پوچھا کہ عثمان بھاو اپ نے زندگی کے 50 /55 سال تک بڑی محنت کرکے گزارے کتنی جایٕداد پروپرٹی بنایٕی ۔ دادا جان کا جواب تھا بچوں کے رہنے کلیۓ یہ گھر اور میرے بچے میری جایٕداد ۔۔ واہ کیا جواب تھا۔دل کے پاک تھے، بہت محنتی ،اور وسیع القلب تھے، گویا پورے خاندان کے ذمہ دار تھے ،باوضو رہنا پسند کرتے تھے، آخر وقت میں بھی جب عشاء کی اذان ہوئی توانجکشن کی تکلیف کے باوجود دادا جان نے فورا وضو کیا اور نماز کی تیاری میں لگ گیے، وقت موعود آیا، کلمہ کاورد اللہ اللہ کرتے کرتے ہم سب کو چھوڑ کر اللہ کے حضور حاضر ہوئے۔۔۔
اناللہ وأنا الیہ راجعون
اب بروز قیامت نماز کیلۓ ہی اٹھیں گے
ان کا ہم سے جدا ہونا گویا ایسا تھا کہ
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے گھر کو ویران کر گیا
اور دادا جان و دادی جان زبان حال سے ہم سے کہہ رہے تھے
شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ
اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَهُمَا وَارْحَمْهُمَا، واعذھمامن عذاب القبر ومن عذاب النار ، وأَسْكِنْهُمَا فِسیح جَنَاته برحمتک یا کریم یا رحیم ۔
جواب دیں