زندگی بدل دینے والی ایجادات و تحقیقات

یو این این ڈیسک

پچھلے برس سائنس دانوں نے انسان کی زندگی کتنی آسان کر د ی ہے اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ آسانیاں ہم تک کئی سال بعد پہنچیں گی، لیکن ہم ان کے بارے میں مختصر سی معلومات تو آج بھی دے سکتے ہیں اور بتاسکتے ہیں کہ پچھلے سال میں سائنس دانوں نے ہمارے لئے کتنی اہم ایجادات کیں اور ہمیں کاکیا فائدہ پہنچنے والا ہے۔سب سے پہلے ہم بتاتے ہیں کہ سائنسدانوں نے مصنوعی جلد بنانے پر ابتدائی تحقیق مکمل کر لی ہے۔
انسانی جلد کی طرح یہ جلد بھی روبوٹ کو ذہنی پریشانی، دباؤ یا ایسی کسی بھی حس کا احساس دلائے گی۔ ہوسٹن یونیورسٹی میں مکینکل انجینئرنگ کے پروفیسر شن ڑیانگ یو(cunjiang yu) نے کہا کہ ربڑ الیکٹرانک اور سینسر کی مدد سے جلد بنائی جا سکتی ہے۔جلد کو توانائی مہیا کرنے کے لیے ایک سرکٹ بیٹری کی ضرورت ہوگی۔ تھر ی ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے سرکٹ کی تیاری پر کام ہو رہا ہے۔سائنسد انوں نے گریویٹی بلینکٹس کے نام سے انسانی جسم کے تقریباً 10فیصد کے وزن کے برابر طبی رضائی تیار کر لی ہے۔ یہ رضائی ذہنی دباؤ، پریشانی یا کسی اور وجہ سے نیند کے خلل کا شکار افراد کے لیے یہ بہترین چیز ہے۔
 برطانوی ا دارے ”نیشنل ہیلتھ سروس“ کے مطابق 2014ء  سے 2019ء  تک موبائل ٹیکنالوجی کے ذریعے سے ڈیٹا اور صحت عامہ کی ایپلی کیشنز سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد 13فیصد سے بڑھ کر 43 فیصد ہو گئی ہے۔ برطانوی ادارے اس سلسلے میں عالمی سطح پر اپنی خدمات مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ چین میں موبائل سے علاج کی مارکیٹ 14لاکھ افراد تک پہنچ چکی ہے۔ یورپ، ایشیاء  اور افریقی مریض بھی موبائل ٹیکنالوجی سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ مصنوعی ذہانے کی مدد سے ہسپتالوں اور طبی اداروں کو ا?پس میں منسلک کرنے کا عمل جاری ہے۔ ان ہسپتالوں میں مریضوں کا مکمل ڈیٹا موجود ہو گا۔یورپی یونین ایشیاء  اور امریکہ کی طبی مارکیٹ کو حاصل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت اور ایپلی کیشنز پر 24ارب ڈالر خرچ کرے گی۔ گوگل نے بھی صحت عامہ کے شعبے میں کنزیومر ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے وسیع سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شاید اگلے 10سے 20سالوں میں یہ گوگل کا سب سے بڑا کام ہوگا۔ ادویات کی فراہمی پر اربوں ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں،وقت الگ ضائع ہوتا ہے۔اب سپلائی کا ”بلاک چین“ (Blockchain)کے نام سے نیا نظام قائم ہو گا۔اس سے 2025ء  تک علاج سپلائی کے اخراجات میں 100 ارب ڈالر سے150 ارب ڈالر سالانہ کی بچت ہوگی، اس منصوبے پر 2025ء  تک 5.5 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔

گھڑیا ں شوگر چیک کریں گی!
شہری مستقبل میں (Health Wearablesیا Health Care Wearables) کہلائی جانے والی گھڑیوں اورآرمز بینڈ کی مدد سے شوگر اور دل کی دھڑکن معلوم کر سکتے ہیں۔کن ملیسنز سمیت کئی ادارے اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کر رہے ہیں۔ 
امریکہ کی ”فوڈ اینڈ ٹرگ ایڈمنسٹریشن“ نے صحت عامہ کے شعبے میں تھر ی ڈی میڈیکل پراڈکٹ کی تیاری کے لیے پہلا جامع فریم ورک جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ میں سالانہ صرف گھٹنوں کی سرجری میں استعمال ہونے والے ایک لاکھ آلات تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے ہی بنائے جارہے ہیں۔ ان کا حجم تھری ڈی پرنٹنگ کی وجہ سے انتہائی درست ہوتا ہے۔ اس سے سرجن اور مریضوں کے مابین تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔ 

آپریشنز میں ڈرونزکی مدد 
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ادارے نے انسانی زندگی کو بچانے کیلئے ڈرونز کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ یہ ڈرونز 128کلو میٹر سے 160کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 2کلو تک وزنی خون یا طبی آلات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔جلد ہی دنیا بھر میں علاج معالجے کے لئے ان کی مدد سے طبی آلات اورادویات کی ایک جگہ سے دوسری جگہ آسان ہو جائے گی۔وقت کی بچت سے مریضوں کو بہت سہولت ہو گی۔

جانوروں کی جین میں تبدیلی 
 واشنگٹن میں ہونے والی ”امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس میٹنگ“ میں کئے گئے اعلان کے مطابق سائنسدانوں نے جین ٹیکنالوجی کی مد د سے جانوروں کی نئی نسل تیار کی ہے۔تیزی سے پروان چڑھنے والی نسل موسمیاتی تبدیلیوں اور بیماریوں کا سامنا کرنے کی بھی زیادہ صلاحیت رکھتی ہے۔”ٹراپیکل لائف سٹاک جینیٹک اینڈ ہیلتھ کیئر سنٹر“کے ڈائریکٹر پروفیسر اپولی نائرڑی کینگ نے کہا کہ ”ہم بھینسوں،گائیوں اور مرغیوں کی ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جو امراض کیخلاف مزاحمت رکھتی ہوگی اور جن کی پیداوار بھی موجودہ نسلوں کی پیداوار سے کہیں زیادہ ہو گی“۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم جین میں ردو بدل کے ذریعے دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافے کے لئے کراس بریڈنگ کر رہے ہیں۔اس سے صحت مند جانور پیدا ہوں گے اور یہ ایشیاء  اور افریقہ سمیت دنیا کے غریب ترین لوگوں کی غربت دور کرنے میں معاون ثابت ہوں گے“۔ اس قسم کی ایک اور نسل امریکہ میں تیار کی گئی ہے۔ ورجن آئر لینڈز میں اس گرمی کی حدت برداشت کرنے والی نسل کی افزائش کی گئی ہے۔ ان کے جسم پر کافی بال گرمی کی حدت سے بچاتے ہیں اس سے جسم کا ٹمپریچر کم ہو جاتا ہے اور برازیل میں یہ 45ڈگری سینی گریڈ تک کا درجہ حرارت برداشت کر سکتی ہے۔

جلد پر بڑھاپے کے اثرات میں کمی 
سائنسدان ایلزبتھ بلیک برن نے کروموسومز میں ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کا خاکہ بنا لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کروموسومز میں جینیاتی کوڈ موجود ہوتے ہیں۔ کروموسومز میں ٹیلومیرز(Telomeres) کی کمی سے جلد پر بڑھاپا آنے لگتا ہے۔ یہ کروموسز بڑھاپے کے بارے میں سگنل جاری کرتے ہیں۔نوبیل انعام یافتہ ایلزبتھ نے کہا کہ آخر کروموسومز میں ہونے والی تبدیلیو ں کو 2سے 4سال کے لیے روکا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ موت کو شکست دے دیں۔ یہ ممکن نہیں۔ یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ جلد پر بڑھاپا نظر نہ آئے۔

زمین کے نیچے ایک اور زمین 
بڑے زلزلوں کی مدد سے سائنسدانوں نے زمین کے نیچے 410میل کی گہرائی میں ماؤنٹ ایورسٹ جیسے بلند و بالا پہاڑوں کا سراغ لگا لیا ہے۔ان لہروں کی مدد سے ہی وہ یہ جان سکتے ہیں کہ زمین کی گہرائی میں کیا ہے ورنہ راکٹ چاند پر تو جا سکتا ہے، مریخ کا سفر بھی کر سکتا ہے مگر زیر زمیں کیا ہو رہا ہے، یہ جاننا راکٹ کے بس میں نہیں۔اس کے لئے ایک ایسے زلزلے کی تلاش تھی جس نے زمین کی انتہائی گہرائی میں بھی بھونچال پیدا کیا ہو،اسی سے انہیں پتہ چل سکتا تھا کہ وہاں کس قسم کے کیمیائی عمل جاری ہیں۔ نیچے کا حصہ ٹھوس ہے یا نہیں۔ تباہ کن زلزلوں کا جواب بھی ان سوالوں سے مل سکتا تھا۔ 1994ء  میں ریکٹر سکیل پر 8.2کی طاقت والے اس زلزلے نے بولیویا کی ”اینٹ سے اینٹ“ بجا دی تھی۔سائنسدانوں نے اس زلزلے کے مرکز پر تحقیق کے لیے سپر کمپیوٹروں کا ایک سسٹم کر کے سیسمک لہروں کی مدد سے زیر زمین کی ساخت معلوم کی۔ انہیں پتہ چلا کہ نیچے سے زمین زیر زمیں پہاڑوں کی طرح سخت، پتھریلی اور ٹھوس ہے یعنی پہاڑ جیسی کوئی چیز زمین کے نیچے بھی موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ ”زیر زمیں ماؤنٹ ایورسٹ جیسے پہاڑ موجود ہیں۔ تحقیق کے مطابق زمین کا 84فیصد تک حصہ خاص چٹانوں پر مبنی ہے۔410میل کی گہرائی میں چوٹیاں شروع ہوتی ہیں۔یہ مینٹل پر بالائی اور زیریں سطحوں پر مشتمل ہے۔ یعنی نیچے بالکل نئی زمین شروع ہوتی ہے۔ وہاں پہنچتے ہوئے مزید ٹھوس اور سخت چٹان جیسی چیز ملتی ہے۔

جدید ڈیئری فارمز!
سائنسدانوں نے لیفن ہائی سٹریٹ میں سو فٹ نیچے دوسری جنگ عظیم کی پناہ گاہوں کو کھیتوں میں بدل کر 16منزلہ غذائی ٹاورز اور تیرتے ڈئیری فارمز بنا دیئے ہیں۔ یہ زیر زمین فارمز فضائی حملوں سے بچاؤ کے لیے بنائے گئے تھے اب غذائی کمی سے بچاؤ میں کام آرہے ہیں۔یہاں ٹیوب ریل گاڑیوں کے نیچے بنائی گئی بد نماحفاظتی سرنگوں میں غذائی ماہرین نے سلاد کے پودو ں کی افزائش کا کام شروع کر کے خوبصورت بنفشی یا سرخی مائل یا سبز پتے اگا دیئے ہیں۔ ہر پولی ٹینل میں پودوں کی افزائش نے انہیں خوبصورت تفریح گاہ میں بدل دیا ہے۔اس زراعت کا ایک بانی رچرڈ بیلٹ کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہوہ سلاد کی فراوانی کر دے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ برطانوی منڈیوں میں سلاد پہلے ہی بہت سستی ہے لہٰذا ہم کہیں اور مارکیٹ کریں گے۔ زرعی سائنسدانوں نے اربن کمرشل فارمنگ کو فروغ دیتے ہوئے 3 لاکھ 3ہزار الاٹمنٹ میں اس کا انتظام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ورلڈ اکنامک فورم میں بھی یہ زرعی مارکیٹیں موضوع بحث رہی ہیں۔ اور اب پالیسی سازوں کے مطابق یہ نیا غذائی نظام موٹاپے اور کم خوراکی دونوں سے بنی نوع آدم کو نجات دلا دے گا۔ اس سے سال بھر میں 60فصلیں لی جاسکتی ہیں یہ شہری زراعت، زرعی زراعت کے مقابلے میں کہیں بڑا غذائی انقلاب ہوگا۔ کیونکہ روایتی طور پر ترقی یافتہ ممالک بھی 7سے زیادہ فصلیں حاصل نہیں کر سکتے۔ جبکہ پولی ٹینل میں 25کے قریب فصلیں آسانی سے تیار کی جاسکتی ہیں۔

انقلابی زرعی ٹیکنالوجی 
ہمیں کروڑوں افراد کوپوری روٹی دینے کے لئے ٹیکنالوجی کاسہارا لینا پڑے گا، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔جدید ٹیکنالوجی مناسب مقدار میں مداخل استعمال کرنے میں بھی مدد دے گی۔جیسا کہ زیر کاشت رقبوں کی جینیاتی ساخت اور ضروریات کا پتہ چلانے کے لئے (Trace Genomics) کے نام سے ایک مشین تیار کی گئی ہے۔مشین سے زمین میں موجود جراثیموں کا بھی پل بھر میں پتہ چل جائے گا۔اس سے فصل اگانے میں آسانی اور مداخل کے استعمال میں کمی ہو جائے گی۔ بسا واقات مداخل ضرورت سے زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے پیداوار کم ہو جاتی ہے۔اس سلسلے میں بیجوں کی نئی ٹیکنالوجی زیادہ اہم ہے۔کم پانی میں بھی جینیاتی طور پر تیار شدہ بیج اضافی پیداوار دینے میں بہترین ہیں۔اس کام میں ہم کہیں پیچھے ہیں۔ایک کمپنی نے امریکہ، پاکستان ،ہندوستان اور آسٹریلیا کے موسم میں سویابین سے دس گنا زیادہ پیداوا دینے کی صلاحیت کے حامل بیج تیار کر لئے ہیں۔جن سے خطے میں سویابین کی درآمد کا مسلہ حل ہو سکتا ہے۔ہم بھی ایسی ٹیکنالوجی تیار کر سکتے ہیں۔ایک لیب نے مخصوص لہریں چھوڑنے والا آلہ تیا کرلیا ہے۔ کھیت کے درمیان میں کہیں رکھے جانے والے اس آلے سے نکلنے والی لہروں کی مدد سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ زمین کو کتنے پانی اور کھاد کی ضرورت ہے۔ پانی اور کھاد کی بچت کے علاوہ دوسرے مداخل کا استعمال بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ سائنسدانوں نے کیڑوں اورسنڈیوں کی بر وقت اطلاع دینے والا آلہ بھی تیار کیا ہے۔جو صرف چھ منٹ میں فصلوں کو لگنے والے کیڑے مکوڑود ں اور سنڈیوں کابتا دے گا۔ فصل پر نقصان دہ کیڑے کا حملہ ہوتے ہی یہ آلہ سگنل دے گا۔اس کی مدد سے کاشت کار سنڈیوں، مکھیوں اور تیلوں کوچھ سات منٹ کے اندر اندر ختم کر سکیں گے۔اس طرح کاشت کار مزید نقصان سے محفوظ رہے گا۔ ایک اور سافٹ ویئر کی مدد سے کاشت کاراپنے رقبوں کا مکمل ریکارڈ رکھ سکیں گے۔انہیں پتہ چل جائے گا کہ کس رقبے پر کس موسم میں کون کون سی فصل کاشت کرنی ہے۔ زمین کی ساخت،کھادوں اور دوسرے زرعی مداخل کے بارے میں بھی جب چاہیں گے، اس سافٹ ویئرکی مدد سے سب کچھ جان جائیں گے۔

گہری نیند سے امراض میں کمی 
سائنسدان یوں تو روزانہ ہی کچھ نہ کچھ نئی بات کہتے ہی رہتے ہیں۔ اس مرتبہ دماغ ان کی توجہ کا مرکز ہے۔یونیورسٹی آف راچسٹر (Rochester)میں دماغی صحت کے شعبہ سے منسلک لارین ہیبلس نے پہلی مرتبہ گہری نیند کا تعلق کئی جسمانی عوارض سے جوڑ دیا ہے۔ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ گہری نیند لینے والے کئی امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔یہ ہر کسی کے لئے امرت سے کم نہیں۔ انہوں نے کہاہے کہ ”گہر ی نیند لینے والے کچی نیند سونے والوں کی بہ نسبت دماغی طورپر زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ گہری نیند کے دوران دماغ سے نقصان دہ پروٹین خارج ہوجاتی ہے،کچی نیند کی صورت میں الزائمر سمیت کئی امراض پیدا کرنے والی عمل مکمل نہیں ہوتا دن بھر کے کام کاج کے نتیجے میں دماغ میں بھی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ اور افزائش کے عمل جاری رہتے ہیں۔ دوران نیند فاضل مادے (بالخصوص ڈیمنشیا اور الزائمر پیداکرنے والی پروٹین)خارج ہوجاتے ہیں۔“
لارین ہیبلس 2012ء  سے اپنی ٹیم کیساتھ گہر ی نیند اور دماغ کے فاضل مادوں کے باہمی تعلق پر تحقیق کر رہی ہیں۔انہوں نے چوہوں کے مختلف گروپوں کو مختلف مقدار میں نیند کی گولیاں دے کر ان پر تجربات کیے۔ایک مرحلے میں چوہوں کے 6گروپ بنائے گئے تھے۔ ہرگروپ کو نیند کی مختلف نوعیت میں رکھا گیا۔اس دوران ماہرین نے ہر گروپ کے چوہوں کے دماغ سے خارج ہونے والے فاضل مادوں کی مقدار کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔
ایک گروپ کی سرگرمیاں اوردل کی دھڑکن گہری نیند لینے والے انسانوں کے برابر تھی، دوسرے گروپ میں کچی نیند لینے والے چوہے شامل تھے۔ گہری نیند لینے والے چوہے دماغی طورپر زیادہ صحتمند اور بری نیند والے چوہے کئی دماغی امراض کاشکار ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ دماغ میں موجود فاضل ٹشوز کے اخراج کے نظام کو”گلم فیٹک سسٹم“ کہاجاتاہے۔کچی نیند یا دوران نیند بارباراٹھنے سے یہ عمل مکمل نہیں ہوپاتا جوڈی منشیا ء  اور الزائمر کے خدشات کوبڑھا دیتا ہے۔ہماری  نوجوان نسل  گہری نیند نہیں لیتے،رات گئے تک جاگنا،کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کا استعمال انسانی صحت کے لیے بہت خطرناک ہے اس سے ذہنی امراض ہی جنم نہیں لیتے بلکہ کئی جسمانی عوارض بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔

تھری ڈی پرنٹرز سے جلد کی پیوند کاری 
سائنسدانوں نے تھری ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانی جسم کی پیوند کاری میں بھی کامیابی حاصل کرلی ہے۔تھری ڈی پرنٹر ز مینوفیکچرنگ کی مدد سے جلدی امراض کے علاج اور پیوند کاری میں بہت بڑا انقلاب آیا ہے۔Wake Forest Institute For Regenerative Medicine (WFIRM) نے 2014ء  میں ایک خاص قسم کی پروٹو ٹائی مشین بنائی جو انسانی جلد کے خلیوں کے عین مطابق ایک لمبی شیٹ بناسکتی تھی، پھر اسے کاٹ کر متاثرہ حصے پر رکھ کر جلد تیار کی جاتی ہے۔ اس مشین کو دیوار یا کسی جگہ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں۔کھانے کی ٹرالی کی طرح اسے مریض کے بستر تک بھی لے جایا جا سکتا ہے۔ مریض پرنٹر مشین کی نوزل کے نیچے اپنی جلد کو رکھتا ہے،جس سے انسانی جلدتیار ہو جاتی ہے۔سائنسدان جلد کی تیاری میں مریض کے اپنے ہی خلیوں سے تیار کردہ خاص قسم کی ”سیاہی“ استعمال کررہے ہیں، اسی لئے جسم کا دفاعی نظام بھی نئی جلد کو فوری طورپر قبول کرلیتاہے۔ علاج سے پہلے جلدکے صحت مند حصے سے کھال کاٹکڑا حاصل کر کے اس میں سے دوخاص قسم کے خلیوں کو الگ کردیاجاتا ہے۔ خلیوں کی ایک قسم ”فائبروں بلاسٹ“زخموں کو صحت مند بنانے میں کام آتی ہے۔ جبکہ خیوں کی دوسری قسم ”کیرا ٹینو سائٹ“ جلد کے بیرونی حصے میں پائے جاتے ہیں۔ان خلیوں کی مدد سے ”بائیو پرنٹر انک“ بنائی جاتی ہے،جو تھری ڈی پرنٹرز میں جلد بنانے کے کام آتی ہے۔ یہ ٹیکنیک جلد کے قدرتی خلیوں کے قریب تر ہے،اسی لئے زخم بھی تیزی سے ٹھیک ہوتاہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کامتفق ہونا ضروری نہیں۔
18/ جنوری 2020
ادارہ فکروخبربھٹکل

 

«
»

سنبھل کا پکا باغ۔ دوسرا شاہین باغ

یہ داؤ بھی الٹا پڑگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے