محمد اویس سنبھلی
وبائی مرض کورونا کا قہر پوری دنیا پر جاری ہے۔ بیشتر ممالک اس کورونا وائرس کی چپیٹ میں آچکے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں افراد اس وائرس سے متاثر ہورہے ہیں۔ چین، اٹلی، امریکہ، اسپین، جرمنی، فرانس اور ایران یہ وہ سرفہرست ممالک ہیں جہاں مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔بین الاقوامی پروازوں پر حکومت ہندنے پابندی عائد کرنے میں ذرا دتاخیر کردی جس کی وجہ یہ وبا ہمارے ملک بھارت میں بھی داخل ہوچکی ہے اور تیز رفتاری کے ساتھ اب اس وائرس کے مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے جسے قابو میں کرنا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکومت اس کے لیے بہت فکر مندبھی ہے لیکن طبی وسائل کی کمی کی وجہ سے اس پر فوری قابو پانے یا اس کی بڑھتی تعداد کو روکنے کا واحد راستہ یہ بچا ہے کہ ہم خود کو اپنے گھروں میں اس وقت تک کے لیے قید کرلیں جب تک کہ حالات قابو میں نہ آجائیں۔ بغیر شدید ضرورت کے گھر سے نہ نکلیں۔ خدا ناخواستہ اگر ہم اس وائرس کو روکنے میں ناکام رہے تو اس کے نتائج اتنے بھیانک ہوں گے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
حکومت کی جانب سے، ملی و سماجی تنظیموں اور علماء کرام کی جانب سے مسلسل احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور گھروں میں رہنے کی اپیل کی جارہی ہے۔مسئلہ کی سنگینی کے لیے بس اس کا تصور کرکے دیکھ لیجئے کہ آپ کے اہل خانہ میں اگر کوئی کورونا وائرس کا شکار ہوگیا (خداناخواستہ) تو اسے آپ سے دور بالکل تنہائی میں رکھا جائے گا، آپ کو اس کی نہ تو خدمت کا موقع ملے گا اور نہ ہی ملاقات کا۔اگر مرض پر قابو پا لیا گیا اور مریض ٹھیک ہوگیا تو اسے گھر بھیج دیا جائے گااور اللہ نہ کرے ٹھیک نہیں ہوا تو آپ دوبارہ انھیں کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ان کے آخری رسوم بھی آپ کو ادا نہیں کرنے دیے جائیں گے۔ آپ کو صرف یہ اطلاع دے دی جائے گی کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔حکومت طبی رہنماؤں کی موجودگی میں خود ان کے اخری رسومات ادا کردے گی۔یہی وجہ ہے کہ آپ سے باربار درخواست کی جارہی ہے کہ اگر آپ کو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی فکر ہے اور آپ ان سے محبت کرتے ہیں تو خود کو گھروں میں قید کرلیجئے۔
دنیا کا ہر ملک خواہ وہ کتنا طاقتور ہو، کتنا کمزورہو، کتنا مذہبی ہو یا کتنا آزاد خیال ہو سب اس وبائی مرض سے خوفزدہ ہیں۔کسی کو اس کا نہیں پتا کہ یہ وائرس کب اور کہاں اُسے اپنی زد میں لے لے۔اس مرض کا واحد علاج خود کو دنیا سے دور رکھنے میں بتایا جارہا ہے۔ وباء کا خوف اتنا زیادہ ہے کہ پوری دنیا کی عبادت گاہیں بند ہوگئی ہیں۔ مندر، گرجاگھر، گرودارے اور مساجد سب بند ہیں۔یہ تمام احتیاطی تدابیر اس لیے کی جارہی ہیں تاکہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔مسجدوں کا دروازہ بند ہے تو کوئی بات نہیں توبہ کا دروازہ توکھلا ہوا ہے۔اپنے گھروں کو عبادت گاہوں میں تبدیل کردیں، اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی گذشتہ پوری زندگی پر غور کریں اور سوچیں کہ اگر آپ کی گزری ہوئی زندگی پر مبنی ایک فلم بنائی جائے اور اس میں زندگی کے ہر لمحے کو شامل کیا جائے تو کیا آپ لوگوں کے سامنے یا اپنی فیملی کے ساتھ اس فلم کو دیکھ سکیں گے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو زندگی کو بہتر بنانے کی جانب توجہ دیں کیونکہ آپ کی زندگی بروز محشر سب کے سامنے پیش کی جائے گی۔يومئذ تُعرَضونَ لَا تَخفَیٰ مِنکُم خافیۃُ“ اس دن تم سب لوگوں کے سامنے پیش کیے جاوگے، تمہارا کوئی بھید پوشیدہ نہ رہے گا۔ (الحاقۃ:۸۱)۔گذشتہ روز میرے دوست ڈاکٹر عمیر منظر نے علامہ شبلی کے سفر نامہ روم و مصرکا ایک اقتباس مجھے بھیجا۔اسے پڑھ کر بڑی تقویت ملی۔ شبلی نے ۲۹۸۱ء میں یہ سفر کیا تھا۔شبلی نے لکھا ہے:
”۰۱/مئی کی صبح کو میں سوتے سے اُٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا۔ میں نے دیکھا کہ واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھرتے تھے اور اس کی درستی کی تدبیر کررہے تھے۔ انجن بالکل بے کار ہوگیا تھا اور جہاز نہایت آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا۔ میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے۔ اس اضطراب میں اور کیا کرسکتا تھا۔ دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا۔ وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کررہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو کچھ خبر بھی ہے؟ بولے کہ ہاں! انجن ٹوٹ گیا ہے۔ میں نے کہا آپ کو کچھ اضطراب نہیں؟ بھلا یہ کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے؟ فرمایا کہ جہاز کو اگر برباد ہی ہونا ہے تو یہ تھوڑا سا وقت بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابل قدر وقت کو رائگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے۔ ان کے استقلال اور جرأت سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا۔ آٹھ گھنٹے بعد انجن درست ہوا اور بدستور چلنے لگا۔“
حکومت کورونا سے لڑنے کے لیے اپنا کام کر رہی ہے۔ ہمیں اپنے حصہ کا کام کرنا ہے۔خوف و ہراس میں بالکل مبتلا نہ ہوں، اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتّا نہیں ہلتالہٰذا اللہ سے رجوع کریں،غلط کاموں کو چھوڑیں، صحیح راستوں پر چلنے، سچائی کو اپنانے، کسی کا حق نہ چھیننے، مل جل کر رہنے کی نیت کریں اور کسی کے بارے میں برانہ سوچیں اور ان سب سے زیادہ ہمت اور صبر کا مظاہرہ کریں نیز یہ جوموقع ملا ہے اس کی قدر کریں۔ گھر میں اگر کتابیں موجود نہیں تو آن لائن کتابیں دستیاب ہیں۔تاریخ کے اوراق پلٹیں اوراپنی پسند کے مطابق کتابوں کا مطالعہ کریں۔انشاء اللہ حالات بہتر ہوں۔خدا تو خود محبت ہے وہ زیادہ دیر تک اپنے بندوں کو تڑپتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔اس نے خود اپنے ہاتھوں سے ان بندوں کی تخلیق کی ہے۔ وہ جانتا ہے میرے یہ بندے کتنے کمزور ہیں۔اللہ رحیم ہے، اس کو رحم آئے گا۔وہ بازار و مساجد کوزیادہ دیر تک ویران نہیں رکھے گا۔فقط تم حوصلہ رکھو، ذرا سا ”فاصلہ“ رکھو، جھکا کے سر کو سجدے میں،خدا سے رابطہ رکھو۔
پورے ملک میں لاک ڈاؤن جاری ہے لیکن لوگ کسی طرح احتیاط برتنے پر راضی نہیں ہیں۔ گلیوں، نکڑوں اور سڑکوں پر جھنڈ کے جھنڈ کھڑے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے گھر جارہے ہیں، دعوتیں ہورہی ہیں۔جہالت کی انتہا ہے۔آخریہ کون لوگ ہیں جو اس عذاب الٰہی کے نتیجہ میں برپا ہونے والی تباہی سے بالکل بے خبر ہیں اور ان حالات میں بھی بس اپنے آپ میں رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ وقت رہتے ہوش کے ناخون نہ لیے تو مصیبت سامنے کھڑی ہے۔جب معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا تو اسے روکنے کی طاقت کسی انسان کے اندر نہیں ہوگی۔لہٰذا خیال رکھیں کہ لاک ڈاؤن گلی محلے میں پکنک منانے یا کرکٹ کھیلنے کے لیے نہیں کیا گیا ہے۔نویل کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے لیکن افسوس کچھ باتیں سمجھانے سے نہیں خود پر بیت جانے سے سمجھ آتی ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ کسی پر یہ وقت آئے۔ خدارا اپنے اپنے گھروں میں رہیں۔آپ محفوظ تو سب محفوظ۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے
جواب دیں