زندگی کے دو راستے- ایک آسان، دوسرا مشکل

عبدالعزیز 

    عام طور پر  لوگ برائی کا راستہ جلد اپنالیتے ہیں اور زندگی بھر مشکلات اور دشواریوں میں مبتلا رہتے ہیں لیکن جو لوگ نیکی کا راستہ اپناتے ہیں، بظاہر مشکلات اور دشواریاں نظر آتی ہیں مگر نیکی کا راستہ انسانی فطرت کے مطابق ہوتا ہے، اس لئے آسان ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ بہ جگہ اللہ کی سنت کا یہ ذکر ملتا ہے کہ جو شخص نیکی کی راہ اختیار کرلیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کیلئے راہ کی مشکلات آسان کر دیتا ہے۔ سورہ اللیل میں اللہ بتایا ہے کہ جس طرح رات دن میں فرق ہے، نر اور مادہ میں فرق ہے۔ اسی طرح نیکی اور برائی میں فرق ہے۔ اس کے انجام اور نتائج میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ اللہ سورہ لیل میں فرماتا ہے: 
        ”قسم ہے رات کی جبکہ وہ چھا جائے اور دن کی جبکہ وہ روشن ہو، اور اس ذات کی جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا، در حقیقت تم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں، تو جس نے (راہ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا اور بھلائی کو سچ مانا، اس کو ہم آسان راستے کیلئے سہولت دیں گے، اور جس نے بخل کیا اور (اپنے خدا سے) بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا، اس کو ہم سخت راستے کیلئے سہولت دیں گے اور اس کا مال آخر اس کے کس کام آئے گا جبکہ وہ ہلاک ہوجائے؟ 
        بے شک راستہ بتانا ہمارے ذمہ ہے اور در حقیقت آخرت اور دنیا، دونوں کے ہم ہی مالک ہیں۔ پس میں نے تم کو خبردار کر دیا ہے بھڑکتی ہوئی آگ سے۔ اس میں نہیں جھلسے گا مگر وہ انتہائی بدبخت جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا۔ اور اس سے دور رکھا جائے گا وہ نہایت پرہیزگار جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے۔ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو۔ وہ تو صرف اپنے ربِ برتر کی رضا جوئی کیلئے یہ کام کرتا ہے اور ضرور وہ (اس سے) خوش ہوگا“۔ 
    یہ وہ بات ہے جس پر رات اور دن اور نر و مادہ کی پیدائش کی قسم کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح رات اور دن اور نر اور مادہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان میں سے ہر دو کے آثار و نتائج باہم متضاد ہیں، اسی طرح تم لوگ جن راہوں اور مقاصد میں اپنی کوششیں صرف کررہے ہو وہ بھی اپنی نوعیت کے لحاظ سے مختلف اور اپنے نتائج کے اعتبار سے متضاد ہیں۔ اس کے بعد کی آیات میں بتایا گیا کہ یہ تمام مختلف کوششیں دو بڑی اقسام میں تقسیم ہوتی ہیں۔ 
    نیکی کی راہ: یہ انسانی مساعی کی ایک قسم ہے جس میں تین چیزیں شمار کی گئی ہیں اور غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام خوبیوں کی جامع ہیں۔ ایک یہ کہ انسان زرپرستی میں مبتلا نہ ہو بلکہ کھلے دل سے اپنا مال، جتنا کچھ بھی اللہ نے اسے دیا ہے، اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے میں، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اور خلق خدا کی مدد کرنے میں صرف کرے۔ دوسرے یہ کہ اس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور وہ اخلاق، اعمال، معاشرت، معیشت، غرض اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ان کاموں سے پرہیز کرے جو خدا کی ناراضی کے موجب ہوں۔ تیسرے یہ کہ وہ بھلائی کی تصدیق کرے۔ بھلائی ایک وسیع المعنی لفظ ہے جس میں عقیدے، اخلاق اور اعمال، تینوں کی بھلائی شامل ہے۔ عقیدے میں بھلائی کی تصدیق یہ ہے کہ آدمی شرک اور دہریت اور کفر کو چھوڑ کر توحید، آخرت اور رسالت کو برحق مانے اور اخلاق و اعمال میں بھلائی کی تصدیق یہ ہے کہ آدمی سے بھلائیوں کا صدور محض بے شعوری کے ساتھ کسی متعین نظام کے بغیر نہ ہورہا ہو بلکہ وہ خیر و صلاح کے اس نظام کو صحیح تسلیم کرے جو خدا کی طرف سے دیا گیا ہے، جو بھلائیوں کو ان کی تمام اشکال اور صورتوں کے ساتھ ایک نظم میں منسلک کرتا ہے، جس کا جامع نام شریعت الٰہیہ ہے۔ 
    یہ ہے مساعی کی اس قسم کانتیجہ۔ آسان راستہ سے مراد وہ راستہ ہے جو انسان کی فطرت کے مطابق ہے جو اس خالق کی مرضی کے مطابق ہے جس نے انسان کو اور ساری کائنات کو بنایا ہے، جس میں انسان کو اپنے ضمیر سے لڑکر نہیں چلنا پڑتا، جس میں انسان اپنے جسم و جان اور عقل و ذہن کی قوتوں پر زبردستی کرکے ان سے وہ کام نہیں لیتا جس کیلئے یہ طاقتیں اس کو نہیں بخشی گئی ہیں بلکہ وہ کام لیتا ہے جس کیلئے در حقیقت یہ اس کو بخشی گئی ہے، جس میں انسان کو ہر طرف اس جنگ، مزاحمت اور کشمکش سے سابقہ پیش نہیں آتا جو گناہوں سے بھری ہوئی زندگی میں پیش آتا ہے، بلکہ انسانی معاشرے میں ہر قدم پر اس کو صلح و آشتی اور قدر و منزلت میسر آتی چلی جاتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جو آدمی اپنا مال خلق خدا کی بھلائی کیلئے استعمال کر رہا ہو، جو ہر ایک سے نیک سلوک کر رہا ہو، جس کی زندگی جرائم، فسق و فجور اور بد کرداری سے پاک ہو، جو اپنے معاملات میں کھرا اور راستباز ہو، جو کسی کے ساتھ بے ایمانی، بدعہدی اور بے وفائی نہ کرے، جس سے کسی کو خیانت، ظلم اور زیادتی کا اندیشہ نہ ہو، جو ہر شخص کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے اور کسی کو اس کی سیرت و کردار پر انگلی رکھنے کا موقع نہ ملے، وہ خواہ کیسے ہی بگڑے ہوئے معاشرے میں رہتا ہو، بہر حال اس کی قدر ہوکر رہتی ہے، اس کی طرف دل کھنچتے ہیں، نگاہوں میں اس کی عزت قائم ہوجاتی ہے، اس کا اپنا قلب و ضمیر بھی مطمئن ہوتا ہے اور معاشرے میں بھی اس کو وہ وقار حاصل ہوتا ہے جو کبھی کسی بدکردار آدمی کو حاصل نہیں ہوتا۔ یہی بات ہے جو سورہ نحل میں فرمائی گئی ہے کہ ”جو شخص نیک عمل کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن، اسے ہم اچھی زندگی بسر کرائیں گے“ (آیت:97)۔ اور اسی بات کو سورہ مریم میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ ”یقینا جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کئے رحمن ان کیلئے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا“ (آیت:96)۔ پھر یہی وہ راستہ ہے جس میں دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کیلئے سرور ہی سرور اور راحت ہی راحت ہے۔ اس کے نتائج عارضی اور وقتی نہیں بلکہ ابدی اور لازوال ہیں۔ 
    اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم اسے اس راستے پر چلنے کیلئے سہولت دیں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ بھلائی کی تصدیق کرکے یہ فیصلہ کرلے گا کہ یہی راستہ میرے لائق ہے اور برائی کا راستہ میرے لائق نہیں ہے، اور جب وہ عملاً مالی ایثار اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرکے یہ ثابت کر دے گا کہ اس کی یہ تصدیق سچی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس راستے پر چلنا اس کیلئے سہل کر دے گا۔ اس کیلئے پھر گناہ کرنا مشکل اورنیکی کرنا آسان ہوجائے گا۔ مالِ حرام اس کے سامنے آئے گا تو وہ یہ نہیں سمجھے گا کہ یہ نفع کا سودا ہے بلکہ اسے یوں محسوس ہوگا کہ یہ آگ کا انگارہ ہے جسے وہ ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ بدکاری کے مواقع اس کے سامنے آئیں گے تو وہ انھیں لطف اور لذت حاصل کرنے کے مواقع سمجھ کر ان کی طرف نہیں لپکے گا بلکہ جہنم کے دروازے سمجھ کر ان سے دور بھاگے گا۔ نماز اس پر گراں نہ ہوگی بلکہ اسے چین نہیں پڑے گا جب تک وقت آنے پر اس کو ادا نہ کرلے۔ زکوٰۃ دیتے ہوئے اس کا دل نہیں دکھے گا بلکہ اپنا مال اسے ناپاک محسوس ہوگا جب تک وہ اس میں سے زکوٰۃ نکال نہ دے۔ غرض ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو اس راستے پر چلنے کی توفیق و تائید ملے گی، حالات کو اس کیلئے سازگار بنایا جائے گا اور اس کی مدد کی جائے گی۔ 
    یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے سورہئ بلد میں اسی راستے کو دشوار گزار گھاٹی کہا گیا ہے اور یہاں اس کو آسان راستہ قرار دیا گیا ہے۔ ان دونوں باتوں میں تطبیق کیسے ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس راہ کو اختیار کرنے سے پہلے یہ آدمی کو دشوار گزار گھاٹی ہی محسوس ہوتی ہے جس پر چڑھنے کیلئے اسے اپنے نفس کی خواہشوں سے، اپنے دنیا پرست اہل و عیال سے، اپنے رشتہ داروں سے، اپنے دوستوں اور معاملہ داروں سے، اور سب سے بڑھ کر شیطان سے لڑنا پڑتا ہے کیونکہ ہر ایک اس میں رکاوٹیں ڈالتا ہے اور اس کو خوفناک بناکر دکھاتا ہے، لیکن جب انسان بھلائی کی تصدیق کرکے اس پر چلنے کا عزم کرلیتا ہے اور اپنا مال راہ ِخدا میں دے کر اور تقویٰ کا طریقہ اختیار کرکے عملاً اس عزم کو پختہ کرلیتا ہے تو اس گھاٹی پر چڑھنا اس کیلئے آسان اور اخلاقی پستیوں کے کھڈ میں لڑھکنا اس کیلئے مشکل ہوجاتا ہے۔ 

    برائی کی راہ: یہ انسانی مساعی کی دوسری قسم ہے جو اپنے ہر جز میں پہلی قسم کے ہر جز سے مختلف ہے۔ بخل سے مراد محض وہ بخل نہیں ہے جس کے لحاظ سے عام طور پر لوگ اس آدمی کو بخیل کہتے ہیں جو روپیہ جوڑ جوڑ کر رکھتا ہے اور اسے نہ اپنے اوپر خرچ کرتا ہے نہ اپنے بال بچوں پر بلکہ اس جگہ بخل سے مراد راہ خدا میں اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مال صرف نہ کرنا ہے اور اس لحاظ سے وہ شخص بھی بخیل ہے جو اپنی ذات پر، اپنے عیش و آرام پر، اپنی دلچسپیوں اور تفریحوں پر تو خوب دل کھول کر مال لٹاتا ہے مگر کسی نیک کام کیلئے اس کی جیب سے کچھ نہیں نکلتا یا اگر نکلتا بھی ہے تو یہ دیکھ کر نکلتا ہے کہ اس کے بدلے میں اسے شہرت، نام ونمود، حکام رسی یا کسی اور قسم کی منفعت حاصل ہوگی۔ بے نیازی برتنے سے مراد یہ ہے کہ آدمی دنیا کے مادی فائدوں ہی کو اپنی ساری تگ و دو اور محنت و کوشش کا مقصود بنالے اور خدا سے بالکل مستغنی ہوکر اس بات کو کچھ پروا نہ کرے کہ کس کام سے وہ خوش اور کس کام سے وہ ناراض ہوتاہے۔ رہا بھلائی کو جھٹلانا تو وہ اپنی تمام تفصیلات میں بھلائی کو سچ ماننے کی ضد ہے۔ اس لئے اس کی تشریح کی حاجت نہیں ہے، کیونکہ بھلائی کی تصدیق کا مطلب ہم واضح کرچکے ہیں۔ 
    اس راستے کو سخت اس لئے کہا گیا ہے کہ اس پر چلنے والا اگر چہ مادی فائدوں اور دنیوی لذتوں اور ظاہری کامیابیوں کے لاچ میں اس کی طرف جاتا ہے لیکن اس میں ہر وقت اپنی فطرت سے، اپنے ضمیر سے، خالق کائنات کے بنائے ہوئے قوانین سے اور اپنے گرد و پیش کے معاشرے سے اس کی جنگ برپا رہتی ہے۔ صداقت، دیانت، امانت، شرافت اور عفت و عصمت کی اخلاقی حدوں کو توڑ کر جب وہ طریقے سے اپنی اغراض اور خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب اس کی ذات سے خلق خدا کو بھلائی کے بجائے برائی ہی پہنچتی ہے اورجب وہ دوسروں کے حقوق اور ان کی عزتوں پر دست درازیاں کرتا ہے تو اپنی نگاہ میں وہ خود ذلیل و خوار ہوتا ہے اور جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اس سے بھی قدم قدم پر لڑ کر اسے آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ اگر وہ کمزور ہو تو اس روش کی بدولت اسے طرح طرح کی سزائیں بھگتنی ہوتی ہیں اور اگر وہ مال دار، طاقت ور اور بااثر ہو تو چاہے دنیا اس کے زور کے آگے دب جائے لیکن کسی کے دل میں اس کیلئے خیر خواہی، عزت اور محبت کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا، حتیٰ کہ اس کے شریک کار بھی اس کو ایک خبیث آدمی ہی سمجھتے ہیں۔ اور یہ معاملہ صرف افراد ہی تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتور قومیں بھی جب اخلاق کے حدود پھاند کر اپنی طاقت اور دولت کے زعم میں بدکرداری کا رویہ اختیار کرتی ہیں، تو ایک طرف باہر کی دنیا ان کی دشمن ہوجاتی ہے اور دوسری طرف خود ان کا اپنا معاشرہ جرائم، خود کشی، نشہ بازی، امراض خبیثہ، خاندانی زندگی کی تباہی، نوجوان نسلوں کی بد راہی، طبقاتی کشمکش، اور ظلم و جور کی روز افزوں وبا سے دو چار ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ بام عروج سے گرتی ہے تو دنیا کی تاریخ میں اپنے لئے لعنت اور پھٹکار کے سوا کوئی مقام چھوڑ کر نہیں جاتی۔ 
    اور یہ جو فرمایا گیا کہ ایسے شخص کو ہم سخت راستے پر چلنے کی سہولت دیں گے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس سے بھلائی کے راستے پر چلنے کی توفیق سلب کرلی جائے گی، برائی کے دروازے اس کیلئے کھول دیئے جائیں گے، اسی کے اسباب اور وسائل اس کیلئے فراہم کر دیئے جائیں گے، بدی کرنا اس کیلئے آسان ہوگا اور نیکی کرنے کے خیال سے اس کو یوں محسوس ہوگا کہ جیسے اس کی جان پر بن رہی ہے۔ یہی کیفیت ہے جسے دوسری جگہ قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ”جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کر دیتا ہے اور ایسا بھینچتا ہے کہ (اسلام کا تصور کرتے ہی اسے یوں محسوس ہونے لگتا ہے) جیسے اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے“ (البقرہ، آیت:125)۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے: ”بے شک؛ نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر فرماں بردار بندوں کیلئے نہیں“ (البقرہ، آیت:46)۔ اور منافقین کے متعلق فرمایا: ”وہ نماز کی طرف آتے بھی ہیں تو کَسمَساتے ہوئے آتے ہیں اور راہ خدا میں خرچ کرتے بھی ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں“ (التوبہ، آیت:54)۔ اور یہ کہ ”ان میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو راہ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اسے اپنے اوپر زبردستی کی چَٹی سمجھتے ہیں“ (التوبہ، آیت:98)۔ 
    دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ ایک روز اسے بہر حال مرنا ہے اور وہ سب کچھ دنیا ہی میں چھوڑ جانا ہے جسے اس نے یہاں اپنے عیش کیلئے فراہم کیا تھا۔ اگر اپنی آخرت کیلئے کچھ کما کر وہ ساتھ نہ لے گیا تو یہ مال اس کے کس کام آئے گا؟ قبر میں وہ کوئی کوٹھی، کوئی موٹر، کوئی جائداد اور کوئی جمع پونجی لے کر نہیں جائے گا۔ 
    مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

دہلی فسادات میں کجریوال حکومت کا مایوس کن رول اور رویہ

پھر سے اْجڑی دِلّی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے