ذیشان کے والد علی احمد خان نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ انھیں اس طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا ،علی احمد ہی کیا مہاراشٹر کے کسی بھی مسلم کے ذہن میں کبھی یہ خیال نہ آیا ہوگا کہ کبھی اس کے ہونہار فرزند کو مسلم ہونے کی بناء پر درخواست مسترد ہونے کا جواب’ تحریری ‘صورت میں دیا جائیگا۔لیکن اب ہندوستان جیسے کثرت میں وحدت رکھنے والے،گنگا جمنی تہذیب کے حامل، ،سیکولر ملک میں جس کی ایک آنکھ ہندو اور ایک آنکھ مسلم ہوا کرتی تھی یہاں ایسا بھی ہونے لگا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ممبئی کے ایم بی اے گریجویٹ ذیشان علی خان نے اپنے دوستوں کے ساتھ ہیرا ایکسپورٹ کمپنی ہری کرشنا پرائیوٹ لمیٹیڈ کو اپنا سی وی روانہ کیا تھاتقریباً ان میں سے آدھے دوستوں کو فوری ملازمت فراہم کی گئی جبکہ ذیشان علی خان کو درخواست داخل کرنے کے اندرون بیس منٹ جواب موصول ہوگیا جس میں بتایا گیا تھا کہ آپ کی درخواست کا شکریہ ۔ہمھیں یہ بتاتے ہوئے افسوس ہے کہ ہم صرف غیر مسلم امیدواروں کو ہی ملازم رکھتے ہیں ۔پہلے تو ذیشان نے اسے ایک مذاق سمجھا لیکن اسے یہ جاننے میں بھی کوئی دیر نہ لگی کے یہ حقیقت ہے۔
مرکز میں مودی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی کئی ایسے واقعات اور بیانات سامنے آ رہے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مودی حکومت کے قیام سے فرقہ پرست طاقتوں کو تقویت حاصل ہوئی ہے اس کے لئے مختلف سادھو،سادھوی ، بی جے پی کے ایم پی،وزراء کے ذریعے دئے گئے متعدد بیانات بطور مثال ہمارے سامنے ہیں۔یوں تو متعدد کمپنیوں میں بھی مسلم امیدواروں کو نوکریوں میں شامل نہ کرنے کا طریق جاری تھا لیکن اسے کھلے عام ظاہر نہیں کیا جاتا تھا جس کے سبب بے شمار لائق و قابل مسلم امیدوار اچھے عہدوں اور روزگار سے محروم ہو رہے تھے اور شاید اپنی قابلیت پر ہی شک کرتے ہوئے احساس کمتری کا شکار ہوتے رہے ہیں۔اب جبکہ ممبئی کی ہری کرشنا ایکسپورٹ کمپنی نے با ضابطہ تحریری صورت میں ذیشان علی خان کو نوکری میں نہ لینے کی وجہ بذریعہ ای میل ارسال کردی تب اس خفیہ امر سے پردہ اٹھ گیا ہے جو اب تک بغیر کسی اعلان کے جاری تھا۔اب کمپنی نے اپنی صفائی میں جو کچھ بھی کہا ہو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔اصل سوال یہ ہے جو ذیشان علی کے والد علی احمد نے اٹھایا ہے کہ’ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان تعلیمی لحاظ سے پچھڑے ہوئے ہیں انھیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہیے اور دوسری طرف ایم بی اے جیسے کورس میں اوّل مقام پا کر نوکری کے لئے درخواست داخل کرنے والے مسلم طالب علم کو اس کی قابلیت اور لیاقت کا ذرا بھی خیال نہ کرتے ہوئے محض اس بنیاد پر کہ وہ مسلمان ہے روزگار سے محروم رکھا جاتا ہے‘ ۔حد تو یہ ہے کہ اسے اعلانیہ جوابی ای میل بھی بھیج دیا جاتا ہے کہ آپ مسلم ہونے کی وجہ سے آپ کو نوکری نہیں دی جا رہی ہے۔ اس کے کیا معنیٰ لینا چاہیے ،کیا نوکری کے لئے کاوشیں کر رہے مسلم امیدواروں کو یہ احساس دلانا کہ تم مسلم ہو اس لئے روزگار سے محروم ہو ؟یا پھر بہتر روزگار چاہتے ہو تو ’گھر واپسی‘ کا راستہ ہم نے کھول رکھا ہوا ہے؟اور اگر ایسا ہے تو مودی نواز یہ ساری کارپوریٹ کمپنیاں آر ایس ایس کی پالیسی کو عملی جامعہ پہنانے کا کام بڑی آسانی سے انجام دے رہے ہیں۔یہ انتہائی قابل مذمت عمل ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے سے ملازمت نہ دینے سے مذکورہ کمپنی اور اس کے مالکان کی سوچ اور فکر ظاہر ہوتی ہے کہ وہ کس قدر متعصب ہیں۔
کوئی انھیں بتائے کہ یہ وہی ملک ہے جہاں مسلمان اشفاق نے ملک کی راہ میں پھانسی پر چڑھتے ہوئے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ ’کچھ آرزو نہیں ہے گرآرزو تو یہ ہے، لاکر ذرا سی رکھ دوخاک وطن کفن میں ‘ ۔یہ وہی ملک ہے جہاں کہ مسلم سپاہی عبد الحمید نے پاکستان کے ٹینک توڑے تھے اور اسی ملک کی آذادی کی خاطر علماء اکرام نے توپ کے دہانے پر بوٹی بوٹی ہونا منظور کیا اور اسی ملک میں ذیشان جیسے مسلم نوکری کے امیدوار کو مسلم ہونے کی بناء پر روزگار سے محرورم رکھا جا رہا ہے یہ دستور ہندکی کھلی پا مالی ہے اور جو کہ ہر حال میں نا قابل قبول ہی ہونی چاہیے۔مذکورہ معاملے میں پولیس نے ایف آر آئی تو درج کردی مگر کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی جبکہ کمپنی کے اس متعصبانہ رویّہ کو سختی سے نمٹنے کی ضررت ہے۔اس دوران ہندوستان کی ایک معروف اسلامی ،تعلیمی و سماجی تنظیم کی جانب سے ہری کرشنا ایکسپورٹ کمپنی کو اس ضمن میں معافی مانگنے اور خلاصے کے لئے لکھا گیا تو کمپنی کی جانب سے معافی تلافی تو دور کسی قسم کا افسوس بھی ظاہر نہ کیا گیا بے شرمی کے ساتھ دئے گئے جواب میں بس اتنا کہاگیا کہ ایک نئے زیر تربیت ملازم سے یہ غلطی ہوئی اس پر ضوابط کے مطابق کاروائی ہوگی۔ حکومت مہاراشٹر کو اس معاملے میں فوری ضروری اقدامات اٹھاتے ہوئے مذکورہ و دیگر کمپنیوں کو پا بند کرنے کی ضرورت ہے۔آج اس واقع کے بعد مسلمانوں کو حکومتی ،نیم حکومتی ، خانگی اداروں اور کمپنیوں میں بھی ریزرویشن کی کیوں ضرورت ہے اس بات کی اہمیت واضح ہو گئی ،چاہے آپ کتنے ہی قابل کیوں نہ ہو صرف مسلم ہونے کی بنیاد پر بے روزگاری،مایوسی اور حوصلہ شکنی کی جانب دھکیلے جا سکتے ہیں۔فرقہ پرست طاقتوں یا پھر متعصب ذہن رکھنے والی طاقتوں کی جانب سے مسلمانوں کو معاشی اور اقتصادی طور پر کمزور ہی رکھنے کے لئے ایسی مذموم حرکتیں پہلے بھی جاری تھیں اور اب بھی جاری ہیں ۔فرق اتنا ہے کہ اب یہ حرکت تحریری صورت میں سامنے آ چکی ہے۔مسلم نوجوانوں کو ان واقعات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ،حالات آج نہیں تو کل ضرور بہتر ہونگے اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلم سیاسی ،ملّی ،سماجی تنظیموں کے ذریعے پوری بیداری کے ساتھ دستور ہند میں درج مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کے لئے اپنی لڑائی جمہوری انداز میں جاری رکھیں اور سرپرست حضرات ایسے واقعات سے نا امید نا ہوکر اپنے بچوں کومعیاری تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے رہیں۔یہ علم کی دولت کبھی بیکار نہ جائیگی یہ بات طئے ہے۔
جواب دیں