لیکن اس بار شری نریندر مودی نے جو معیار رکھا ہے اس کی مصلحت یا تو وہ سمجھ سکتے ہیں یا سنگھ کے مکھیا موہن بھاگوت صاحب اس لئے کہ سادھوی اوما بھارتی یا سادھوی نرنجن جیوتی جس طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں وہ تو ٹکٹ دو تب بھی ان کے ساتھ ہے ٹکٹ نہ دو تب بھی ان کے ساتھ ہے وزیر بناؤ تب بھی ان کے ساتھ ہے اور وزیر نہ بناؤ تب بھی ان کے ساتھ ہے۔ ایسی صورت میں ہم نہیں جانتے کہ ان سادھو سنتوں کو ان کی دنیا سے نکال کر کیوں اس دنیا میں لے آئے جہاں منھ سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو ناپنے کے لئے پیمانے لگے ہیں تولنے کے لئے ترازو اور چھاننے کے لئے چھلنیاں؟
سپریم کورٹ نے جب حکومت سے دریائے گنگا کی صفائی کے متعلق ہلکی سی ناگواری کے ساتھ دریافت کیا کہ اس کی صفائی کا شور مچانے کے بعد اب خاموشی کیوں ہے؟ تو وزیر اعظم کے بجائے وزیر امور گنگا اوما بھارتی نے ایک وزیر کے تیور کے ساتھ جواب دیا کہ حکومت نے گنگا کا الگ منترالیہ بنا دیا ہے اور افسروں کے تبادلے کئے جارہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے اس جواب سے کیا نتیجہ نکالا ہوگا یہ تو وہ جانے لیکن ملک نے دیکھا کہ کورٹ کا رویہ سخت ہوگیا اور ہر پندرہ دن کے بعد جواب طلب کیا جانے لگا۔ اسی طرح جب اشوک سنگھل نے وشوہندو کانگریس کے اجلاس کے بعد کہا کہ آٹھ سو سال کے بعد غلامی ختم ہوئی ہے اور پرتھوی راج چوہان کے بعد اب دہلی میں ہندو حکومت قائم ہوئی ہے تو کسی کے یہ کہنے پر کہ 1998 ء سے 2004 ء تک جو چھ برس اٹل جی کی حکومت رہی تو کیا وہ بھی غلامی تھی؟ تو اوما بھارتی وزیر گنگا نے جواب دیا کہ ہاں وہ بھی غلامی تھی اس لئے کہ اس حکومت میں دوسری پارٹیاں بھی شریک تھیں۔ یہ مسئلہ سنگھل صاحب نے اُٹھایا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دوسری سادھوی نرنجن جیوتی بول پڑیں کہ ہم بھی ہیں پانچویں سواروں میں۔ انہوں نے ایک مجمع کو خطاب کرتے ہوئے بڑے نرالے انداز سے ایک ہاتھ کی دو اُنگلیاں اور دوسرے ہاتھ کی ایک اُنگلی نچاتے ہوئے کہہ دیا کہ ہندوستان میں رہنے والے ہندو مسلمان اور عیسائی سب رام کی سنتان ہیں اور جو نہ مانے وہ بھارتی نہیں ہے۔ جس وقت وہ جہالت کے پھول برسا رہی تھیں ان کے پیچھے کھڑے کچھ جے شری رام تالیاں بجا رہے تھے ایک سردار جی اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے گلے میں ہار ڈالا اور ان کے چرن چھوئے۔ سادھوی اوما بھارتی کابینہ وزیر ہیں اور سادھوی نرنجن جیوتی وزیر مملکت ہیں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں جیسے بم پھٹ گئے بی جے پی کے علاوہ ہر پارٹی کے ممبر نے برخاست کرو مقدمہ چلاؤ ایف آئی آر لکھاؤ۔ وزیر صاحبہ اکڑ گئیں کہ ایک تو وہ سادھوی پھر وزیر یعنی کریلا اور نیم چڑھا۔ انہوں نے کہہ دیا کہ میں کیوں استعفیٰ دوں؟ یا کیوں معافی مانگوں؟ آخرکار نوبت یہ آئی کہ شری مودی کو ڈانٹنا پڑا اور حکم دیا کہ دونوں ایوانوں میں جاؤ اور دونوں جگہ جاکر معافی مانگو۔ سادھوی کو اپنی زندگی میں یہ بھی کرنا پڑا کہ سات سو آدمیوں کے سامنے ہاتھ جوڑکر معافی مانگی اور ٹی وی نے پوری دنیا کو دکھایا کہ جس سادھوی کے پیچھے سب ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں سیاست میں آکر وہ خود ہاتھ جوڑے معافی مانگ رہی ہے۔
سادھوی نرنجن ہوں یا اوما بھارتی یا دوسرے سادھو سنت ان کی پرورش جس ماحول میں ہوتی ہے اس میں یہ ضروری نہیں کہ ان کے پاس اتنا علم بھی ہو کہ 125 کروڑ انسانوں کے متعلق انہیں معلوم ہو کہ ان کا دین ان کا دھرم اور ان کا حسب نسب کیا ہے؟ مسلمانوں اور عیسائیوں کی بات تو بعد میں کریں گے پہلے انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ جنوبی ہند کے کروڑوں ہندو راون کی پوجا کرتے ہیں اور تمل ناڈو میں جو رام مندر ہیں وہ سال میں خاص خاص دن کھلتے ہیں ورنہ وہ بند رہتے ہیں وہ ہندو جو اپنے کو دراوڑ کہتے ہیں جن کے لیڈر کروناندھی اور جے للتا ہیں وہ یہ بھی نہیں مانتے کہ شری رام چندر جی نام کے کوئی بھگوان تھے بھی یا نہیں۔ کروناندھی کا بیان ہے کہ ہمارے ’پوروَج‘ پانچ چھ ہزار سال پہلے بتائے جاتے ہیں لیکن دراوڑوں میں آج کوئی نہیں جانتا کہ ان کا جنم کہاں ہوا اور وہ کب دنیا سے گئے؟ وہی یہ بھی کہتے ہیں رام بھکت بتاتے ہیں کہ رام چندر جی لاکھوں برس پہلے تھے لیکن ان کو بھگوان ماننے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کا جنم کہاں ہوا۔ رام جنم بھومی کہاں ہے اور سیتا رسوئی کہاں تھی؟ یہ بات صرف کروناندھی جے للتا یا ان کے لیڈر انا دورائی ہی نہیں کہتے ہیں بلکہ رابندر ناتھ ٹیگور بھی یہی کہتے ہیں اور نہ جانے کتنے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک فرضی کہانی ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
جہاں تک جنم بھومی اور سیتا رسوئی کا تعلق ہے تو ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے اپنی بات کہتے ہیں کہ اسلام کے آخری نبی حضرت محمدؐ کی ولادت کو پندرہ سو برس ہوئے ہیں لیکن اتنے قریب کے زمانہ کی تاریخ میں بھی اختلاف ہے اور بہت بڑے بڑے عالموں میں کوئی کہتا ہے ربیع الاوّل کی تین تاریخ تھی کوئی پانچ بتاتا ہے بعض نے سات لکھا ہے اکثر 11 ربیع الاوّل کو مانا ہے لیکن وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں 18 ربیع الاول کو تشریف لائے تھے۔ حضرت محمدؐ کے والد ماجد والدہ ماجدہ دادا اور چچا سب کے نام تاریخ میں موجود ہیں۔ آپؐ کی مکہ میں ولادت پھر مدینہ کے لئے ہجرت پھر فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ کو واپسی جیسے اہم واقعات سب تاریخ میں موجود ہیں لیکن حضرت کی والدہ ماجدہ امت کی ماں آمنہ کی رسوئی کیسی تھی اور کہاں تھی؟ یا ان کے باورچی خانہ میں کھانے پکانے کے برتن کیسے تھے اور سامان کیا کیا تھا؟ یہ شاید کوئی نہ بتاسکے جب اتنے قریب کی باتوں کا یہ حال ہے تو ہم نہیں جانتے کہ وہ کون سا ذریعہ ہے جس سے یہ معلوم ہوگیا کہ لاکھوں برس پہلے رام چندرجی کا جنم کہاں ہوا تھا ان کے پتاجی اور داداجی کون تھے؟ لاکھوں برس پہلے انسان کپڑے پہنتا تھایا پتوں سے سترپوشی کرتا تھا کھانا پکاکر کھاتا تھا یا سب کچھ کچا کھاتا تھا؟ جو لوگ یہ سب باتیں جانتے ہیں تو انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے زمانہ میں اور سنوئی دھرم تھا یا نہیں؟ آبادی صرف اجودھیا میں تھی یا اور بھی ملک یا شہر تھے؟؟ اگر یہی صورت حال رہی تو شری مودی کے سارے خواب بکھر جائیں گے اس لئے بہتر یہ ہوگا کہ وزیر بنانے کا معیار متعین کریں صرف ہندوتو کا پرچار کرنے والے کو وزیر نہ بنائیں بلکہ یہ دیکھیں کہ اسے ملک چلانا ہے اور ملک چلانا سادھو سنتوں کا کام نہیں جن کے نمونے شری مودی خود دیکھ رہے ہیں۔
جواب دیں