زرعی قوانین: کسانوں کا عزم اور حکومت کا رویہ۔ہمارے لئے بھی ایک لمحہء فکریہ

  از۔ڈاکٹر آصف لئیق ندوی،ارریاوی (عربی لیکچرار، مانو، حیدرآباد)

              کسانوں کے عزم مصمم اور عمل پیہم اور کامیابی کے حصول میں مظلوم اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے بھی بہت بڑا سبق ہے، انکی جہد مسلسل میں جہاں ہمارے لئے ہمالیائی ہمت کا درس ہے تو وہیں انکی محنتوں اور جان و مال کی قربانیوں کی باوجود ہار نہ تسلیم کرنے میں بھی ہمارے لئے بڑی دعوت مبارزت ہے۔۔ملک میں اقلیتوں کیطرح جب کسانوں کے لئے بھی غیر دستوری قوانین بنائے گئے اور اسکا سرکاری اعلان ہوا تو کسانوں نے اپنے مفادات کا نہ صرف گہرائی و گیرائی سے جائزہ لیا بلکہ سرکار کے یاروں، بی جے پی اور آر ایس ایس کے بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں کسانوں کے مفادات سے کھلواڑ انہیں گوارا نہیں ہوا، زرعی قوانین میں سرکار کی بدنیتی کو محسوس کرتے ہوئے کسانوں نے بروقت سرکار کا گھیراو کیا، اسکے لئے بڑا آندولن شروع کیا اور لاکھوں لوگ اس قانون کے خلاف میدان میں نکل پڑے،شاہین باغ کے سی اے اے احتجاج سے سبق حاصل کر کے کسانوں نے حکومت کے سامنے کالے زرعی قوانین کی واپسی کے مطالبات پیش کئے، مگر کہیں سے جب خیر کی امید نظر نہیں آئی، نہ سپرم کورٹ میں فورا کوئی شنوائی ہوئی اور نہ ارباب اقتدار نے کوئی امید دلائی توانکا احتجاج طول پکڑتا گیادیکھتے ہی دیکھتے پورا سال گزر گیا، مگر انکی ہمت نہ تو پست ہوئی اور نہ وہ میدان سے وہ بھاگے، بالآخرحکومت کو زرعی قوانین منسوخ کرنے پڑے، اسکی تنسیخ کے بعد بھی وہ مطالبے لئے میدان احتجاج میں جمے ہوئے ہیں اور ایک قدم بھی اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔اسی کو کہتے ہیں ہمت مرداں۔۔۔۔مدد خدا۔۔۔

              کسانوں کے آندولن سے ہمیں جو بڑا سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے اپنے لئے تمام آرام و سکون، بہتر کھانے پینے اور عمدہ پہننے اوڑھنے کو قربان کیا اور کسی ہوشمند و دانشمند شخص کو اپنا قائد و رہنما تسلیم کیا اور ان کے سلسلے میں کسی فتنہ پرور کی فتنہ پروری اور کسی اختلاف و انتشار پھیلانے والے کے اختلاف و انتشار کے وہ شکار نہیں ہوئے، بلکہ انہوں نے اپنے منتخب اور محبوب قائد اور اسکی سرپرستی میں یہ عہد کیا کہ ہم غیردستوری اور آئین مخالف قوانین کو منسوخ کرائے بغیر کسی بھی نقطے پر راضی نہیں ہونگے،کسی حربے وسازش کا شکار نہیں بنیں گے، حکومت کے آگے ہرگز جھکنا گوارا نہیں کریں گے،وعدے کے مطابق انہوں نے تمام ظلم و زیادتی اور مصیبت و پریشانی کو جھیلا، میدان احتجاج میں ڈٹے رہے، ہر فتنے کا متحدہ مقابلہ کیا اور ہر سازش و حربے کو ناکام ونامراد بنا کر رکھ دینے کابڑا نمونہ پیش کیا، کھلے میدان کو انہوں نے اپنا گھر، آسمانوں کو چھت اور غیر ہموار زمین کو اپنی قیام گاہ بناکر یہ ثابت کردیا کہ وہ بلند ہمت ہیں، قائد کے متبع ہیں، اپنے مطالبے میں بالکل درست ہیں اور اپنے مفادات و حقوق کیلئے کسی ایسے عناصر کے ہاتھوں میں ہم یرغمال بننا قطعا پسند نہیں کرتے ہیں جنکے اندر نہ تو کبھی خدمت خلق کا کوئی جذبہ رہا ہے اور نہ کبھی وہ انسانیت کے خیرخواہ ثابت ہوئے ہیں، بلکہ وہ تو قوم وملک کی سچی خدمت کرنے کے بجائے ذات پات، بھید بھاؤ اور نفرت و عداوت کی اوچھی سیاستوں میں لگے ہوئے ہیں، لوگوں کو الجھا کر اپنے منوادی مفادات حاصل کرناچاہتے ہیں، ملک کی معیشت کو تباہ وبرباد کررہے ہیں اور یہی انکا محبوب مشغلہ بن گیا ہے، سنگھ پریوار، سرمایہ دار، بھکت اور میڈیاکی گھناؤنی حرکتوں اور سازشوں کے سہارے ہی ملک میں یکجہتی و یگانگت اور اخوت ومودت کو فروغ دینے کے بجائے مسموم ماحول قائم کیا جارہا ہے، دوسروں کے حقوق غصب کرکے اپنی جھولیاں بھرنا ہی انکاگھناؤنا دستوربن گیاہے، مسلمانوں کے ناحق خون سے ہولیاں کھیلنا اور انکے مدارس و مساجد اور آبادیوں اور ترقیوں کو نشانہ بنانا ہی انکا شیطانی شیوہ رہ گیا ہے۔

              انہیں ناپاک پلاننگ اور ملک میں ہوتے ہوئے ناانصافی، بڑھتے ہوئے مظالم اوربے تحاشا مہنگائیوں کے پیش نظر کسانوں نے خانہ بدوشوں کیطرح تکلیف دہ زندگی گزارنا گوارا تو کیا، مگر کسی بڑی مشکل و پریشانی سے تنگ آکر اور موت کے منہ سے ڈر اور خوف کھا کراور اپنے مستقبل کو تاریک بنا کر بھاگنا تسلیم نہیں کیا،بڑی طاقت وقوت سے اپنا احتجاج جاری رکھا، بلکہ بڑی ہمت وجوانمردی کیساتھ اپنا سفر جاری و ساری رکھا، اسکے لئے بے شمار مصائب و تکالیف کا انہوں نے سامنا کیا، جانوں کا اتلاف ہوا، کاروں سے روندنے اور ناحق خون کرنے کاملک میں تماشہ ہوا، پولیس کی سختیاں، موسم کی تبدیلیاں اور ارباب اقتدار کی ناپاک پالیسیاں انہیں مزید منظم اور متحد ہونے سے روک نہیں سکی، بالآخر انکے عزائم و مطالبات کے سامنے حکومت کو ہی گھٹنے ٹیکنے پڑے اور انکے سارے حربے اور شرپسندوں کے تمام پروپیگنڈے ناکام و نامراد ثابت ہوئے۔ ہم مسلمانوں کو بھی ان واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہئے، اور اپنے لئے کچھ حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔

              کسانوں نے قانون منسوخ کروالئے، ایوانوں میں اسکی تنسیخ ہوگئی، ملک کے صدرجمہوریہ نے اس کی تنسیخ پر حتمی مہر لگادی، مگر کسانوں نے اسے حکومت کا الیکشن کے پیش نظر حکومت کا ہتھکنڈہ ہی سمجھاالبتہ کسانوں کی انتھک کوششوں، بڑے عزم و استقلال، منظم جدوجہد، مثالی صبر و تحمل، متحدہ کد وکاوش اور طویل احتجاج و مظاہرے کا انہیں قیمتی ثمرہ مل گیااور عمدہ نتیجہ برآمد ہوگیا!! جسکے لئے انہوں نے سال بھر پہلے اپنا گھر باڑ چھوڑا تھا! اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے انہوں نے مسلسل محنتوں کا جو بہترین نمونہ پیش کیا، یقینا یہ انکے لئے بھی بڑا انعام و اکرام ہے اور ہم تمام اقلیتوں، مظلوموں، بے سہاروں اور بے زبانوں کے لئے بھی بڑا درس وعبرت ہے، انکی کامیابی اور خوشی میں ہم بھی شامل ہیں،ہم بھی اپنی بے پناہ خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں، جس کے لیے انہوں نے شب و روز ایک کردیا۔مگر خطرات سے غافل ہوجانا اور مزید اندیشوں کو نظر انداز کرکے خاموش گھر واپس چلا جانا جوانمردوں کا کام نہیں ہے، ابھی بھی وہ میدان میں دیگر حقوق اور اسکا مطالبہ لئے بیٹھے ہیں۔ احتجاج ابھی بھی جاری ہے۔ حکومت سے براہ راست بات چیت کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں، انسانی جانوں کے ضیا ع کا خاطر خواہ بدلہ مانگ رہے ہیں۔

              یقینا کسانوں کے عزم کے سامنے حکومت نے قانون واپس لیا مگر زرعی قوانین کی واپسی میں انکاجو مضبوط لائحہ عمل تھا جس کے حصول  کے لیے وہ پہاڑوں سے بھی ٹکرانے اور چٹانوں کا سامنا کرنے کوتیار بیٹھے تھے، وہ بڑے پر عزم تھے، ان کا حوصلہ بہت بلند تھا، جو نہ موت کے ڈر سے گھبرائے اور نہ کسی سستے سرکاری سودا پر راضی و آمادہ ہوئے، دنیا بھر کی متعدد تکلیفوں کا ان کو سامنا رہا، مگر ان کے عزم و استقلال کے سامنے ساری تکلیفیں ہیچ ثابت ہوئیں، اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے کتنوں نے موت کو گلے لگالیا، اپنے پیروں اور اعضاء جسمانی کو زخمی کیا مگر اسکے باوجود گھر میں بیٹھنا گوارا نہیں کیا اور نہ ہی اپنے منصوبے کو کسی طرح سے بھی کمزور ہونے دیا۔ظاہر ہے انہوں نے جو عہد کیا اس ذمہ داری کے تقاضوں کوانہوں نے پورا کر دکھایا،اپنی ٹانگیں توڑ کر گھر میں بیٹھ جانا بالکل تسلیم نہیں کیا،آج وہ اپنی قسمت کو دوسروں کے ہاتھوں جانے سے بچا لیا، اب وہ اپنی قسمت کے خود مالک ہیں، طرح طرح کی آزمائشوں کا خوب سامنا کیا،نہ وہ گھبرائے اور نہ اکتائے، مرد بن ان تمام ذمہ داریوں کو اٹھایا اورچیلنجز کا کماحقہ مقابلہ کیا۔آج مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائیں اور مردوں کی طرح اٹھائیں، گھبرائے ہوئے نہ اٹھائیں،پریشانیوں کا مقابلہ کرنا چاہئے۔

              باطل طاقتوں نے اپنا رنگ روپ بدل بدل کر کسانوں کے اتحادو اتفاق کو توڑنا چاہا،جسطرح آج وہ مسلمانوں کی صفوں اور انکی آبادیوں کو توڑ کر رکھ دینا چاہتے ہیں، تعلیم و تعلم کے میدا ن میں بھی انکو پیچھے دھکیل دینا چاہتے ہیں، مگر فولاد کی مانند کسانوں کا عظیم اتحاد و اتفاق کمزور پڑنے کے بجائے مزید مضبوط و مستحکم ہوتا چلا گیا، سازشوں اور فتنوں کا جال ان پر بھی ڈالا گیا مگر انھوں نے ہر فتنے اور سازش کا جم کر مقابلہ کیا اور بڑی حکمت و دانشمندی سے اسکا جواب دیا، شرپسندوں نے ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی غلط تدبیریں کیں اور ان کے لئے ہر طرف کنواں کھودنے کا حربہ اختیار کیا، مگر ان کی ہر کوشش ناکام و نامراد ثابت ہوئی اور کنویں میں وہی گرا جنہوں نے اپنے دوسرے بھائیوں کے لئے کنواں کھودا تھا، ارباب اقتدار نے بھی بڑی طاقت وقوت کو انکے خلاف لگا دیا، خود بھی بل کی حمایت کی اور میڈیا کے ذریعے اسکا واویلا بھی مچایا، گودی میڈیاکا کریہہ کردار بھی ہمارے سامنے واضح ہوتے دکھائی دے رہا ہے جیسا کہ وہ مسلمانوں کے معاملات پر وایلا مچاتا ہے کسانوں کے مسائل و مشکلات پر بالکل پردہ ڈال کر اسکے خلاف بولا اور سرکار کا خوب ڈھول بجایا!! مگر پہونچی وہیں پر خاک جہاں کا خمیر تھا۔

              کسانوں کا مسئلہ تو صرف تین زرعی قوانین کی منسوخی پر مبنی تھا جو ان کے وجود و بقا اور دین ودھرم سے بالکل متعلق نہیں تھا پھر بھی انہوں نے لاکھ جتن کیا، اسکے لیے خون اور پسینہ ایک کردیا سال بھر سے زائد کا عرصہ گزار دیا پھر بھی وہ میدان احتجاج میں جمے رہے اور اس کے لیے سخت ٹھنڈی، سخت گرمی اور شدید بارش اور ہزار دقتوں کا سامنا کیا اور اسکو برداشت کیا مگر ان کے پائے ثبات اور عزم و حوصلہ میں ذرہ برابر کوئی تزلزل برپا نہیں ہوا، کامیابیاں ان کے قدم چومیں، نئے زرعی قوانین ان کے مطالبے کے مطابق منسوخ کر دیے گئے، کسانوں کو فتح حاصل ہوئی اور حکومت کو شرمندگی اٹھانی پڑی، کسانوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں ہی رکھا، ملک کے کسی سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں میں اپنی قسمت حوالے کرنے کا مرکزی حکومت کا رویہ نامنظور کیا، کسانوں نے ہی اپنے اتحاد کے ذریعے اسے ناکام بنا دیا، ان کی محنت رنگ لائی، ان کا احتجاج کامیاب ثابت ہوا۔

              ایک مسلمان اور اس کی قوم و ملت کے لیے یہ کتنا اہم واقعہ ہے کہ وہ ہمارے ہی اوصاف تھے جنکو فالو کرکے کسانوں نے بھرپورفائدہ اٹھالیا اور ہمارا معاملہ جوں کا توں معلق رہا! کیا سی اے اے اور این آرسی کے خطرات ہم پر باقی نہیں ہیں؟اسکے علاوہ اس ملک میں کسانوں سے کہیں زیادہ ہم مسلمانوں کے حقوق غصب کئے جارہے ہیں، ہرجگہ ہمارا ناحق خون بہایا جارہا ہے، ہمارا قتل ہورہا ہے، ظلم وستم کی طویل داستانیں ہیں، جن کی مکمل تفصیل رقم کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔اس لیے ہم مسلمانوں کو کسانوں سے کہیں زیادہ بڑھکر منظم، متحد، متفق، تعلیم یافتہ، متشرع، ماہر دین وشریعت اور بڑے ہوشیار و دانشمند بننے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہاں تو مسلمانوں اور ان کی  نسلوں کے وجود و بقا کا مسئلہ درپیش ہے، ان کے خلاف طرح طرح کی سازشیں ہورہی ہیں، پروپیگنڈے ہورہے ہیں، مسلمانوں کے مدارس و مساجد، مکاتب و مراکز اور ان کی شہریت ووطنیت کے اوپر بھی خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں، ان کی آبادی دشمنوں کے نشانے پر ہے، ان کی شریعت پر کھلے عام حملے ہو رہے ہیں، ان کے نوجوانوں کو ہر میدان میں پیچھے دھکیلا جارہا ہے، انکی نسلوں کو غلط رخ پر لے جانے کی تیاریاں ہورہی ہیں، ان کی لڑکیوں کو حرص و ہوس اور ارتداد و الحاد کا شکار بنایا جارہا ہے، غیروں سے ان کی شادیاں رچائی جا رہی ہیں اور ہم جہیز کے مطالبے سے شادیوں کو مشکل بنا کر ان مسلمان لڑکیوں کو دوسرے مذاہب میں شادیاں رچانے پر مجبور کررہے ہیں،ارتداد و الحاد کے ہم بھی مجرم ہیں اور ہمارا کردار و رویہ بھی۔

              کیا ہمارے لیے ضروری نہیں کہ ہم کسانوں سے کہیں زیادہ متحد و متفق رہیں، دین اسلام کو فالو کریں، دین کو مکمل اپنی زندگی میں سمولیں، اتحاد و اتفاق کی طاقت وقوت کیساتھ اور کسانوں کے مذکورہ بالا اوصاف سے بڑھ کر ہم اسلامی اوصاف و صفات کے سچے پکے حامل بن جائیں اور اسلام و شریعت کو اپنے قول وعمل، سیرت و کردار سے مکمل بقا و تحفظ کی ضمانت فراہم کریں۔کوئی آپ کے دین و شریعت کیساتھ کتر بیونت کیسے کرسکتا ہے جب تک ہم اسکے ساتھ زندہ رہیں؟کبھی نہیں!دین اسلام کوئی گھر نہیں جسکو اجاڑ دیا جائے یہ تو ایک فکر ہے جو ہمارے دلوں اور طریقوں سے متعلق ہے۔ یہ کبھی نہیں اجاڑا جا سکتا جب تک اسے فالو کرتے رہیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

مسلم اور غیر مسلم تعلقات

اصلاحی وتنقیدی مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے