ذرایاد کرو قربانی

 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

 

۱۵؍ اگست۱۹۴۷ئ، رات کے بارہ بجے ، ہندوستان کے گلے سے برطانیہ کی غلامی کا طوق اتر گیا ، جبر واستبداد کی بیٹریاں کٹ گئیں ، پوراملک آزادی کی خوشی منا رہا تھا، کیا شہر، کیا دیہات ، کیا بنگلہ، کیا چوراہا، بلکہ کھیت کھلیان تک پر آزادی کا جشن منایا گیا، ۶۹ سال بیت گئے اس دن وتاریخ کو ، سترّویں سال میں ہم داخل ہو رہے ہیں، آزادہندوستان کے ۷۴ سال، کیا کھویا ، کیاپایا یہ ایک الگ کہانی ہے، طویل داستان ہے،۷۴؍ سال کی بھی ،اور اس سے قبل جد وجہد آزادی کے پورے دو سوسال کی بھی، ان دو سو سالوں میں سے پورے ایک سو سال ہم تنہا لڑ رہے تھے، انگریزوں سے نبرد آزما تھے، دوسرے مذاہب کے لوگ انگریزوں کے ہم نوا تھے، کئی ان کے تلوے چاٹ رہے تھے،مسلمانوں کی جانب سے چلائی جا رہی آزادی کی تحریک کو سبوتاز کرنے میں لگے تھے، ان میں اپنے بھی تھے اور غیر بھی ، اسی سازش کا نتیجہ تھا کہ سراج الدولہ کو پلاسی کی جنگ میںنہ صرف شکست کا سامنا کرنا پڑا بلکہ تین ہزار انگریزی فوج کے مقابلے سراج الدولہ کی ستر ہزارفوج کومنہہ کی کھانی پڑی ، ۲۲؍ جون ۱۷۵۷ء کی تاریخ کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے جب سراج الدولہ کے جسد خاکی کو سڑکوں پر گھمایاجا رہا تھا ، ایک مجاہد کی لاش ،جس نے شہادت قبول کی، لیکن انگریزوں کی غلامی نہیں، غداروں میں سر فہرست میر جعفر تھا ، غداری کا صلہ بنگال کی نوابی کی شکل میں ملا ، لیکن غداری الگ چیزہے اور نوابی الگ چیز ہے، اس کی نا اہلی نے اسے معزول کرایا ، پھر محمد قاسم منتخب ہوا، وہ بھی میدان کارزامیں آیا، لیکن شجاع الدولہ کی بے وفائی نے بکسر میں ہونے والے معرکہ کا رخ بدل دیا ، اور شاہ عالم جو شجاع الدولہ کا اس جنگ میں حلیف تھا اسے بھی ہزیمت اٹھائی پڑی، یہ معمولی لڑائی نہیں تھی، اس شکست نے انگریزوں کی غلامی کا پرچم اودھ سے لے کر بنگال تک لہرا دیا ، تاریخ ۲۲؍ اکتوبر۱۷۶۴ ء کی تھی۔

۱۷۱۶ء میں حیدر علی نے میسور کا اقتدار سنبھالا اور ٹیپو سلطان کو انگریزوں کے مقابل اتارا ، اس وقت ٹیپو سلطان کی عمر صرف سترہ سال تھی، کئی معرکوں میں انگریزوں کو پسپائی ہوئی، دب کر اسے صلح کرنی پڑی، حیدر علی کی وفات کے بعدحکمرانی شیر میسور ٹیپو سلطان کے حصہ میں آئی ۱۷۸۴ء میں جب اس کی حکومت کو صرف دو سال ہوئے تھے، انگریزوں کے خلاف منظم تحریک چھیڑ دیا ، ۳؍ مئی ۱۷۸۶ء کو اس مہم کو انہوں نے جہاد کا نام دیا اور عوام میں ایسا جوش بھر دیاکہ ہر خاص وعام انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو ا، ٹیپو سلطان کا یہ قول تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ، شیرمیسور نے اس کو عملًا برت کر دکھایا اور جب یہ شیر غداروں کی وجہ سے ۱۷۹۹ء مطابق ۱۲۱۳ھ کو شہید ہوا تو انگریزوں نے اعلان کر دیا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے، لیکن اس ملک کے علماء نے اس اعلان کو تسلیم نہیں کیا ، ان کا زور تھا کہ ہندوستان غیر ملکیوں کا نہیں ، ہندوستانیوں کا ہے ۔ 

1803

«
»

جناب عبداللہ صاحب کی کچھ یادیں

مساجد کے ذمہ داران ملی مسائل کے بھی ذمہ دار ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے