ابو سعید ندوی آج ہم بھٹکل کے ساگر روڈ پر واقع، غیرمسلموں کے چھوٹے چھوٹے گاٶں میں راشن تقسیم کرنے کی غرض سے نکلے تھے،تقسیم کرتے ہوئے ایک بستی سے دوسری بستی کی طرف بڑھے تو بستی کے داخلی دروازے پر ہی راستے کو بند پایا،اس بستی کے راستے کو بڑے بڑے پتھروں سے بند […]
آج ہم بھٹکل کے ساگر روڈ پر واقع، غیرمسلموں کے چھوٹے چھوٹے گاٶں میں راشن تقسیم کرنے کی غرض سے نکلے تھے،تقسیم کرتے ہوئے ایک بستی سے دوسری بستی کی طرف بڑھے تو بستی کے داخلی دروازے پر ہی راستے کو بند پایا،اس بستی کے راستے کو بڑے بڑے پتھروں سے بند کردیا گیا تھا،اس وجہ سے کہ یہاں کوئی مسلمان کسی طرح کی مدد کرنے کے لیے نہ آئے۔ہماریساتھ ایک غیر مسلم رہبر بھی تھے، اس نے کہا کہ کل رات گاٶں والوں نے طے کیا ہے کہ یہاں کسی مسلم کو داخل ہونے نہیں دیں گے اور جو بھی مسلمان راشن کی تقسیم کے لیے یہاں آئے گا اس پر سخت کارروائی کریں گے۔ ہم نے اس غیر مسلم کو گاٶں کے لوگوں سے ملنے اور ہمارے مقصد سے آگاہ کرنے کے لیے بھیجا۔چناں چہ ہم نے گاڑی کو ایک کنارے لگا کر اس کا انتظار کیا۔ اسی دوران میں ایک عورت ہمارے پاس آئی،عورت کیچہرے پر گرد وملال کے آثار نمایاں تھے۔اس نے پریشانی اوربے چارگی سے کہا: صاحب! کیابتائیں ہم یہاں بہت پریشان ہیں،زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔بعض تو دانے دانے کے لیے ترس رہے ہیں،بھکمری اور افلاس کا عجب حال ہے۔اس حالت میں بھی بعض مسلم دشمن بلکہ انسانیت دشمن برابر اس بات پر مُصر ہیں کہ ہم کسی مسلمان کے قریب نہ جائیں،کوئی غم کا مداوا بن کر آئے تو بات تک نہ کریں اور پوری بستی کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی ہے کہ ”کورونا“ کی وبا مسلمانوں کی کارستانیوں سے پھیلی ہے۔ کیا کریں! یہاں کے باشندے سادہ لوح ہیں، سیدھے سادے اور بھولے بھالے عوام کے ذہنوں میں جو بٹھایا جاتا ہے وہ اسی کو سچ مانتے ہیں، کچھ عقل مند ان کو بارہا سمجھاتیہیں لیکن وہ ایسے جری ہوگئے ہیں کہ اپنے ماں باپ کی بھی نہیں سنتے پھر بھلا دوسروں کی کیا سنیں گے! عورت بیچاری،غربت کی ماری اپنی اور اپنے لوگوں کی درد بھری داستان سنا کر ہمیں مایوسیوں کے سیاہ بادل میں امید کی نئی کرن بھی دکھارہی تھی۔ ہم نے بھوکی اور در در کی ستائی عورت کی باتیں سننے کے بعد اس کو راشن دینا چاہا تو اس نے کہا کہ:
”آپ پہلے بستی والوں کو سمجھائیں، امید ہے کہ وہ سمجھ جائیں گے۔ ابھی وہ بات مکمل کرہی رہی تھی کہ اسی وقت ہمارے رہبر واپس آگئے،اس کے ساتھ وہ شخص تھا جو کل رات سب سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلانے میں پیش پیش تھا،ہم نے ہمت کرکے اپنے پیغام کو پہنچانے کی فکر کی،میڈیا میں پھیلائی جانے والی افواہوں کی حقیقت کو سمجھانیکی کوشش کی،اس کٹھن موقع پر انسانیت اور بھائی چارے کو فروغ دینیکی اہمیت پر سیدھے سادے الفاظ میں کچھ بتانے کی ہمت کی۔ پھر کیا تھا! ذہن و دماغ صاف تھے۔تھوڑی سی گرد تھی، محبت کے پانی سے اس کو دھونے کی ضرورت تھی۔ سو اسی کو کیا۔جو بڑے غصے سے آیا تھا انسانیت کی باتوں سے وہ بھی گرویدہ ہوگیا،قدرت کی کرشمہ سازی دیکھیے کہ پھر اسی کی نگرانی میں وہ راشن اس بستی میں تقسیم ہوا۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
ان حالات میں ہمیں انتہائی سمجھ داری کا معاملہ کرنا چاہیے،اینٹ کا جواب اینٹ سے دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟
کوئی ہم پر کانٹے برسائے تو ہم بھی ان کی روش اختیار کرکے کانٹے پھینکیں گیتو معاشرے میں کانٹوں کا راج ہوگا۔ہم تو انسانیت کی بھلائی کے لیے بھیجے گئے ہیں ہمیں تو کانٹوں کا جواب پھول سے دینا ہوگا۔
یاد رکھیں! انسانیت ابھی بھی زندہ ہے بس ذراسی تحریک اور حکمت عملی کی ضرورت ہے-
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں