ابونصر فاروق
انسان بنیادی ا ور فطری طور پر امن پسندصلح جو،ہمدرد،امداد باہمی اورمحبت کرنے والا ہے۔ خالق کائنات نے اُس کو پیدا کر کے دنیا کا کاروبار چلانے کی ذمہ داری اُس کے کاندھوں پر ڈالی ہے۔خلیفہ کی حیثیت سے اُس کو تمام عالم انسانیت کی بھلائی اور خیر خواہی کا فریضہ انجام دینا ہے۔لیکن ہر انسان یہ نہیں جانتا کہ امن چین محض خواہش اور آرزو کے سہارے قائم نہیں ہوتا ہے۔اس کے بہت سخت اور شدیداصول ہیں۔عدل و انصاف کی تلوار سے ہی امن و سکون کی سرحدوں کی حفاظت کی جاتی ہے۔عدل و انصاف کے نفاذ کے لئے پتھر جیسے دل کی ضرورت ہوتی ہے۔کمزور دل اور ارادے کے لوگ امن اور چین قائم نہیں کر سکتے ہیں۔اس کی پاسداری کے لئے ایسے بے لوث اور بے غرض لوگ درکار ہوتے ہیں جن کا ملنا دودھ کی نہر تلاش کرنے سے کم نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ کہ دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی آبادی میں کبھی بھی عدل و انصاف اور امن و سکون قائم نہیں رہ سکا۔ہمیشہ ہر دور میں طاقتور کمزور کو دباتا رہا۔سرمایہ دار مفلسوں کو لوٹتا رہا۔بے انصاف حاکم کمزور رعایا پر ستم کے پہاڑ توڑتا رہا۔یہ ہر قوم اور ہر علاقے کی کہانی ہے۔ انسانی تاریخ کی ساتویں صدی عیسوی میں جب اللہ کے آخری نبی رحمت عالم ﷺ نے مدینہ میں اسلامی حکومت قائم کی تو پہلے مدینہ میں پھر عرب اور آخر کار اس حکومت کے ماتحت جتنے علاقے تھے سب جگہ مکمل امن و سکون قائم ہو گیا۔اور رحمت عالم ﷺ کی وہ پیشین گوئی پوری ہو گئی کہ ایک تنہا عورت لمبی دوری کا سفر کرے گی اور کوئی اُس کو روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوگا۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا ایسی بنائی ہے کہ یہاں ہر چیز جو پیدا ہوتی ہے وہ ایک دن مر جاتی ہے۔ہمیشہ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔چنانچہ وہ نظام رحمت جسے رحمت عالم ﷺنے عدل و انصاف کی بنیادوں پر قائم کیا تھا اور جس نے مکمل امن و سلامتی کو ممکن بنایا تھا، اُس کو رحمت عالم ﷺ کے ایک فر مان کے مطابق صرف تیس سال تک باقی رہنا تھا، اس کے بعد اُس کا خاتمہ ہو جانا تھا، چنانچہ ٹھیک تیس سال بعد اسلامی حکومت جس کا نام خلافت ہے،ختم ہوگئی اور اُس کی جگہ بادشاہت قائم ہو گئی جس میں دوبارہ ظلم اور ناانصافیوں کا کاروبار شروع ہو گیا اور امن و سلامتی جل کر راکھ ہو گئی۔
وطن عزیزہندوستان میں بھی ایسی ہی افراتفری کا عالم تھا۔جب یہاں مسلمان آئے اورحکومت مسلم بادشاہوں کے ہاتھ لگی تو اُنہوں نے یہاں ایک طویل مدت تک حکومت کی۔اگر چہ وہ سب عدل و انصاف کے حامی و ہم نوانہیں تھے اور اُن کے دور اقتدار میں مکمل امن و سلامتی نہیں پیدا ہوسکی تھی تاہم آج کے جیسا جنگل راج بھی نہیں پیدا ہوا تھا۔قانون فطرت کے مطابق اُن کا دور بھی ختم ہوا اور یہاں انگریز آئے۔جیسے ہی انگریزوں نے یہاں قبضہ جمانا شروع کیا یہ ملک خون میں نہا گیا۔جو لوگ انگریزوں کے طرفدار تھے اُن کے لئے ساری رعایتیں تھیں اور جو اُن کے مخالف تھے اُن کے لئے بندوق کی گولی، جیل کی سلاخیں اور ہر طرح کی مصیبتیں تھیں۔
پھر وہ وقت آیا کہ انگریز بھی یہاں سے رخصت ہوئے اور اہل وطن کے ہاتھوں میں وطن کی حکومت آئی۔لیکن اس آزادی کے ساتھ ایک بدنصیبی یہ ہوئی کہ آزاد ی کا سورج تقسیم شدہ ملک پر طلوع ہوا۔اسی کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم منافرت اور مسلم کش فسادات کی شروعات ہو گئی۔گاندھی جی نہیں چاہتے تھے کہ ملک تقسیم ہولیکن فرقہ پرست اس پر راضی تھے۔چنانچہ اُن کے ایک فرد نے گاندھی جی کو اس راہ کا کانٹا سمجھ کر راستے سے ہی ہٹا دیا۔آزادی کے وقت ایک طرف کانگریس تھی جوبلا شرکت غیرے حکومت کی دعوے دار تھی۔ دوسری طرف مسلم لیگ تھی جو ایک الگ ملک کا مطالبہ کر رہی تھی۔مسلم لیگ میں صرف مسلمان تھے، وہ بھی سب کے سب نہیں۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کانگریس کے ساتھ تھی۔چنانچہ جب ملک تقسیم ہوا تو جو لوگ مسلم لیگ کے حامی تھے وہ مسلم لیگ کے ملک چلے گئے لیکن جو کانگریس کے ہم نوا تھے وہ اسی ملک میں رہ گئے۔
آزادی کے ابتدائی دور میں حکومت اور انتظامیہ میں ایسے لوگ تھے جو رواداری کے قائل تھے چنانچہ اس ملک میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سلسلہ شروع تو ہوا لیکن ہلکے انداز میں۔ رفتہ رفتہ روادار سیاست کاروں کا خاتمہ ہوتا گیا اور تشدد پسند فرقہ پرست سیاست کاروں کی تعداد بڑھتی گئی اور اسی طرح مسلمانوں کے لئے اس ملک میں زندہ رہنے کے مواقع بھی کم ہوتے گئے۔ مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا ناانصافیاں ہونے لگیں۔ اس کا اعتراف صرف مسلمانوں نے نہیں بلکہ بعض انصاف پسند غیر مسلموں نے بھی کیا،اور اب بھی کر رہے ہیں۔بات صرف یہیں تک نہیں تھی کہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیاں ہو رہی تھیں۔خود فرقہ پرست لوگوں کے درمیان جو پسماندہ اور دلت برادری کے لوگ تھے وہ بھی اُن کے ظلم وستم کا شکار ہو رہے تھے۔شروع میں تو اُن بیچاروں کی کوئی آواز ہی نہیں تھی لیکن گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ اُن کے اندر ہمت پیدا ہوئی اور وہ بھی فریاد اور احتجاج کرنے لگے۔
ملک میں یہ جو صورت حال پیدا ہوئی تو اس ملک میں امن و سلامتی کے چمن میں ایسی آگ بھڑکی جو آج تک بجھائی نہیں جا سکی، اور بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔امن و سکون بحال کرنے کی صدائیں تو گونج رہی ہیں لیکن اُن کے لئے جس کارروائی کی ضرورت ہے وہ نہیں کی جاری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا تو اُس کے ساتھ اللہ کا باغی اور نافرمان بندہ شیطان بھی ساتھ آیا۔ شیطان نے عہد کیا تھا کہ وہ انسان کو اس زمین پر چین سے نہیں رہنے دے گا اور جنت کا حقدار بھی نہیں بننے دے گا۔اللہ تعالیٰ نے اُس کو اس کی اجازت دے دی تھی لیکن یہ شرط بھی لگا دی تھی کہ اللہ کے بندوں پر اُس کا بس نہیں چلے گا۔قرآن کے اس بیان میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس زمین پر امن و سلامتی کا قیام صرف اللہ کے مخصوص بندے کر سکتے ہیں جو عدل و انصاف قائم کرنے کو اپنادینی فرض سمجھتے ہیں۔جو انسان اللہ کا فرماں بردار اور وفادار نہیں ہے وہ دراصل شیطان کے خیمے کا فرد ہے۔اُس کے ہوتے ہوئے زمین پر نہ تو عدل و انصاف ہو سکتا ہے اور نہ ہی امن وسلامی کا ماحول بن سکتا ہے۔
اسلامی حکومت یعنی خلافت کے فرائض میں ایک اہم فریضہ معروف (اچھائی)کا حکم دینا اور منکر (برائی) کی روک تھام کرنا ہے۔اس کام کے لئے حاکم اور اُس کے عملے کا بے لوث، بے غرض اور پتھر دل کا ہونا ضروری ہے۔ظالم، بدمعاش، بد کردار، مجرم، بے ایمان،بد دیانت، فریبی اور مکار کی طرف داری اسلام میں گناہ کبیرہ ہے۔ چنانچہ کسی فرد کا جرم ثابت ہو جانے کے بعد اُس کے ساتھ کسی طرح کی ہمدردی اسلامی حکومت یا اُس کے کارندے کر ہی نہیں سکتے ہیں۔اور منکر(برائی) کے مٹانے میں ذرا بھی کمی کر ہی نہیں سکتے ہیں۔قانون کا بے لوث ہو کر ایمانداری کے ساتھ نافذ کرنا وہ نیکی ہے جس کی بدولت انسانی معاشرہ ہر طرح کی برائی سے پاک رہتا ہے اور امن و سلامتی محفوظ رہتی ہے۔عدل و انصاف کا زبردست اہتمام کہیں ظلم و زیادتی ہونے ہی نہیں دیتا۔
اللہ کے ایسے خاص بندوں کے سوا، جن پر شیطان کا بس نہیں چلتا دوسرے لوگ نہ عدل و انصاف قائم کر سکتے ہیں اور نہ ہی امن و سلامتی کا ماحول پیدا کر سکتے ہیں۔امن و سلامتی کی خواہش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جو قوموں کو ہٹاتا اور لاتا ہے، اور اُن کو اقتدار عطا کرتا اور اُن سے چھین لیتا ہے، فیصلہ کر دے کہ اب زمین کا انتظام اُس کے خاص بندوں کے ہاتھوں میں آ جائے تاکہ اُس کی مخلوق امن چین سے رہ سکے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اوریہ انتظام نہیں ہوگا زمین پر عدل و انصاف اور امن چین قائم نہیں ہو پائے گا۔لیکن ا س کے لئے اللہ کی مخلوق کو بھی اللہ کے ساتھ وفاداری کا عہد نبھانا ہوگا۔وفاداری کی شرطیں قرآن میں یہ بتائی گئی ہیں:
آج دنیا میں امن چین اگر نہیں پایا جاتا ہے تو اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری اسلام کے ماننے والوں پر ہے۔پیارے نبیﷺ دین اسلام لائے ہی اسی لئے تھے کہ اس کے ماننے والے اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کر کے عدل و انصاف اور امن چین کا ماحول قائم کریں گے۔انسان کا بنایا ہوا قانون کبھی بے لاگ، عدل پسند اور غیر جانب دار ہو ہی نہیں سکتا ہے۔اللہ نے زمین پر مسلمانوں کو اس کا م کا بہترین موقع بھی دیا۔جب دنیا میں اسلام کی حکومت تھی تو انسانی سماج کا ماحول پرسکون تھا۔لیکن رفتہ رفتہ اسلام کے حکمراں اپنی ڈگر چھوڑ کر شیطانی ڈگر پر چلنے لگے اور خود مسلمانوں کے ملکوں اور علاقوں میں نیکی پر بدی کا غلبہ ہونے لگا۔
یعنی جو قانون کے رکھوالے بنائے گئے تھے وہی قانون توڑ نے والے بن گئے۔اہل دنیا جو اسلام اور ایمان سے بے علم اور ناواقف تھے اُن کو اسلام کا پیغام سنانا اور اللہ کا فرماں بردار بنانا اہل اسلام کا فرض اولین تھا۔لیکن ان بد نصیبوں نے اس اہم اور ضروری کام سے منہ موڑ لیا۔اور پھر ہمارے وطن عزیز میں شیطان کو پوری طرح کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔رفتہ رفتہ حالت یہ ہوگئی کہ پورا ملک کرپشن کی دلدل میں ڈوب گیا۔ملک کے تمام جانکاروں کا اعتراف ہے کہ موجودہ حالات میں کرپشن اتنے عروج پر پہنچ چکا ہے کہ اس کا ہٹانا اور مٹانا مشکل ہی نہیں ناممکن بن چکا ہے۔ہر طرح جھوٹ اور فریب کا دار دورہ ہے۔
جب اہل ملک برائی اور خرابی میں سر سے پاؤں تک ڈوب گئے تو اللہ تعالیٰ کا بے لاگ قانون نافذ ہوا۔اللہ نے ملک پر ایک ایسی حکومت قائم کر دی جیسی کسی جمہوری ملک میں آج تک پیدا ہوئی ہی نہیں تھی۔تمام دانشور اور جانکار چیخ چیخ کر عوام کوآگاہ کر رہے ہیں کہ تمہارا اصل مسئلے سے دھیان ہٹا کر بے کار کی باتوں میں الجھایا جارہا ہے۔جاگو بیدار ہو جاؤ، اپنے نقصان کو پہچانو اور تبدیلی کی کوشش کرو۔ لیکن لوگ بے حسی کا شکار بنے رہے۔
اوراس کی آنچ اُن لوگوں تک زیادہ شدید طریقے سے پہنچ رہی ہے جو خود کواسلام کا ماننے والا تو کہتے ہیں لیکن اُن کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اُن کی زندگی کے کسی رنگ کو بھی دیکھئے تو مسلم غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں دکھائی دے گا۔ موجودہ حالات میں امن و سکون،ایمانداری کے ساتھ کام کرنے کے مواقع اورعدل و انصاف کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہے۔اہل اسلام اہل وطن کی مدد، اعانت اور ہمدردی و خیر خواہی کیا کریں گے، یہ خود اپنی جان اور اپنے مال کی بربادی کا ماتم کر رہے ہیں اور عدل و انصاف کی دہائی دے رہے ہیں۔
تماشے کی بات یہ ہے کہ نامور مذہبی اور سیاسی لوگ جو مسلمانوں کے رہبر اور قائد سمجھے جاتے ہیں،ان کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ کوئی مسئلہ پیدا ہو، کوئی آفت آ جائے تو یہ ریلیف کا کام شروع کر دیتے ہیں او رریلیف کے نام پرکروڑوں جمع کر لیتے ہیں۔اس رقم سے ضرورت مند کی مدد تو برائے نام ہوتی ہے مگر ان کی تجوریاں بھر جاتی ہیں۔ان میں سے کچھ وہ ہیں جو صرف بیانات دیتے ہیں۔ کمیٹی اور انجمن بنا کر مسلمانوں کی مدد کے نام پر فنڈ جمع کرتے ہیں۔پھر میٹنگ، کانفرنس، کنونشن اور جلسے کرتے رہتے ہیں اورقرار دادیں منظور کر تے رہتے ہیں۔ان کی کوششوں کا حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔اہل سیاست کو مسلمانوں کے عملی مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ مسلمانوں کے سروں پر قیامت آتی اور جاتی رہتی ہے اوریہ مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کرتے۔ان کا کام صرف مسلمانوں سے اُن کاووٹ مانگنا ہے۔جب مسلمان ان سے فریاد کرتے اور دہائی دیتے ہیں تو یہ لوگ کوئی عملی کوشش کرنے کی جگہ مسلمانوں کوتسلی دیتے ہیں کہ اللہ کی مدد جلد آنے والی ہے۔سبحان اللہ ووٹ آپ کو چاہئے اور مسلمانوں کی مدد اللہ کے حوالے۔مسلمان بھی کیسے نادان اور بد عقل ہیں کہ ا ن کے بہکاوے میں آجاتے ہیں۔
لیکن اس گھن گھور اندھیرے میں بھی روشنی کی کرن موجود ہے۔اسلام پسندوں میں ایسے نیک لوگ ابھی بھی موجود ہیں، اگر چہ اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے،جن کے اپنے گھر بھی نیکی اور اچھائی کے نمونے ہیں۔ وہ خود بھی ایک اعلیٰ اخلاق و کردار کے انسان تسلیم کئے جاتے ہیں اور اُن کی زندگی خود غرضوں کی طرح صرف اُن کے لئے نہیں بلکہ بندگان خدا کے لئے ہے۔وہ اپنے اور بیگانے کی تفریق کے بغیر ہر محتاج، مجبور اور ضرورت مند کی مدد کرنا اور اُن کے کام آنا بہت بڑی عبادت تسلیم کرتے ہیں اور دن رات اسی عبادت میں لگے ہوئے ہیں۔ صارمؔ کہتے ہیں:
بگڑتی ہے جو بات بنتی بھی ہے وہ، لگن حوصلے اور کوشش سے پیارے
یہ نسخہ اگر آزماتے رہوگے، تو دل کی کلی مسکرا کر رہے گی
بہت سخت ہے امتحاں زندگی کا، یہ کھائی تمہیں پار کرنی ہی ہوگی
مسائل کے جنگل مصیبت کی دنیا، یقینا تمہیں آزما کر رہے گی
تفرقہ، تشدد، تعصب کے کانٹے، محبت کے پھولوں کو زخمی نہ کر دیں
اگر ان سے دامن بچا کر چلے تو، وطن کی فضا جگمگا کر رہے گی
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں