ظفرالاسلام خان: راستے سب بند ہیں کوچہ قاتل کے سوا…

   ظفر آغا

یہ ذکر ہے سنہ 1857 کی غدر کے کچھ عرصے بعد کا۔ ظاہر ہے کہ تب دہلی میں انگریزوں کا ڈنکا بج رہا تھا۔ قلعہ معلیٰ پر برطانیہ حکومت کا پرچم لہرا رہا تھا۔ سارے ملک اور بالخصوص دہلی کے مسلمانوں پر انگریزوں کا قہر نازل تھا۔ حد یہ ہے کہ غدر کے بعد کچھ مدت کے لیے دہلی کی جامع مسجد میں مسلمانوں کا داخلہ تک ممنوع تھا۔ مغلوں کی دہلی جس کو اب پرانی دلّی کہا جاتا ہے، اس علاقہ پر انگریزوں نے ظلم ڈھا رکھا تھا۔ ایسے ماحول میں ایک دن یہ خبر عام ہو گئی کہ انگریزوں کی پولس مرزا غالب کو جوا کھیلنے کے جرم میں گھر سے لے گئی۔ لوگوں نے مرزا صاحب کی خیر خبر لینے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ حضرت دریا گنج تھانے میں ہیں۔ وہ تو خیریت یہ ہوئی کہ مرزا جیل نہیں بھیجے گئے۔ کچھ گھنٹوں تھانے میں بیٹھا کر پولس نے وارننگ دے کر مرزا کو رہا کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت ظفر الاسلام کے خلاف لگائے الزامات پر نظر ثانی کرے… ظفر آغا
مرزا جب گھر پہنچے تو خیریت پتہ کرنے کو احباب کا ایک سلسلہ بندھ گیا۔ مرزا سے جب تفصیل پوچھی گئی تو انھوں نے بتایا کہ روز کی طرح احباب کے ساتھ چوسر کھیلنے میں مصروف تھا کہ یکایک پولس گھر میں در آئی اور جوا کھیلنے کے الزام میں ان کو تھانے لے گئی۔ چوسر دراصل شطرنج اور لوڈو سے ملتا جلتا ایک کھیل ہے جو مسلم-ہندو شرفا میں ہمارے بچپن تک وقت گزاری کے لیے عام تھا۔ چنانچہ مرزا چوسر کھیل رہے تھے۔ لیکن پولس نے جوئے کے الزام میں ان کو تھانے میں بیٹھا کر مرزا جیسی دہلی کے مسلم معاشرے کی باعزت ہستی کی ٹوپی اچھال دی۔ آپ سمجھے اس حرکت کا مقصد کیا تھا! انگریز مسلمانوں کو یہ سبق دے رہا تھا کہ دیکھو اب اس ملک کا مسلمان ہمارے رحم و کرم پر ہے۔ اگر ہم مرزا غالب جیسی اہم ہستی کو بلاوجہ جوئے کے الزام میں اٹھا کر ذلیل کر سکتے ہیں تو پھر عام مسلمان ہمارے لیے گاجر مولی ہے۔

 
ابھی حال میں دہلی کے اوکھلا علاقے میں دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ظفرالاسلام خان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ تھا جیسا کہ مرزا غالب کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ظفرالاسلام خان دہلی کے ایک معزز خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ مشہور مسلم اسکالر وحیدالدین خان کے صاحبزادے ہیں۔ بذات خود اتنی حیثیت کے مالک ہیں کہ دہلی حکومت نے ان کو اقلیتی کمیشن چیئرمین کے عہدے پر فائز کیا ہوا ہے۔ ایک عرصہ سے انگریزی میں 'ملی گزٹ' نام کا ایک انگریزی ہفتہ وار اخبار چلا رہے ہیں جس کے وہ خود مالک اور ایڈیٹر ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ ایک باعزت اور دہلی کی مسلم حلقے کی ایک اہم شخصیت ہیں۔

 
آپ واقف ہیں کہ پچھلے ہفتے پولس ان کے گھر پہنچ گئی۔ انھوں نے کویت گورنمنٹ کے تعلق سے ایک ٹوئٹ کیا تھا جس میں کویتی حکومت کا شکریہ ادا کیا تھا۔ یہ شکریہ اس تعلق سے تھا کہ وہاں کی حکومت نے وہاں رہ رہے ان ہندو افراد کے خلاف سخت قدم اٹھایا تھا جو کویت میں مسلم اور اسلام مخالف طرح طرح کی بے بنیاد باتیں سوشل میڈیا پر لکھ رہے تھے۔ اس ٹوئٹ میں ظفرالاسلام صاحب نے آخر میں یہ بھی کہا تھا کہ ہندوستانی حکومت یہاں کے مسلمانوں کو بے یار و مددگار نہ سمجھے۔ بس صاحب ان پر غداری وطن کا مقدمہ قائم ہو گیا اور پولس گھر پہنچ گئی۔ وہ تو لوگ اکٹھا ہو گئے اور پولس کو مجبوراً واپس جانا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں: مودی حکومت کو لاک ڈاؤن کے ڈیڑھ ماہ بعد لوگوں کی صحت کا آیا خیال!

 
جی ہاں، ظفرالاسلام صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کچھ ویسا ہی تھا جیسا کہ کبھی مرزا غالب کے ساتھ ہوا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ عام مسلمانوں کو یہ بتا دیا جائے کہ اگر کسی نے مسلم ہمدردی میں منھ کھولا تو اس کو ظفرالاسلام کی طرح جھوٹ سچ کسی نہ کسی طرح جیل بھیج دیا جائے گا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ این پی آر/این آر سی کے نام پر جو تحریک چلی تھی یا پھر دہلی میں جو حالیہ فسادات ہوئے تھے اس میں جس کسی نے نمایاں کردار ادا کیا وہ سب چن چن کر غداری وطن کے الزام میں جیل جا رہے ہیں۔ عمر خالد، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالب علم صفورا، اور اب ظفرالاسلام خان… یہ سب وہ لوگ ہیں جو اس تحریک کے دوران یا پھر دہلی فسادات کے وقت مسلم حمایت میں پیش پیش تھے۔ ان کو اب اس کی سزا مل رہی ہے۔

 
حکومت ہند کا یہ فیصلہ ہے کہ اس ملک میں اب جو بھی سرکار کے خلاف بولے گا وہ غدار وطن ٹھہرا دیا جائے گا۔ کنہیا کمار سے لے کر ظفرالاسلام خان تک ہر کوئی غدار ہے کیونکہ اس نے حکومت کے خلاف آواز اٹھائی۔ صاحب یہ نئی جمہوریت ہے کہ جہاں حاکمان وقت کے خلاف تنقید ممنوع ہے۔ ملک میں کوئی ایمرجنسی نافذ نہیں ہے لیکن حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔ عدلیہ سے اب کسی معاملے میں لوگوں کو انصاف کی توقع ختم ہوتی جا رہی ہے۔ میڈیا حکومت کی گود میں سوار ہے۔ حاکم وقت حکومت کے خلاف بولنے والوں کو جیل بھیج رہے ہیں۔ ان حالات میں اب بقول فیض احمد فیض 'کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں'۔

جی ہاں، 'راستے سب بند ہیں کوچہ قاتل کے سوا'! اور اگر آپ غلطی سے مسلمان ہیں اور ناقد حکومت بھی، تو جیل کے علاوہ کوئی دوسری جگہ نہیں آپ کے لیے۔ آئین بھلے ہی آپ کو اب بھی دوسرے درجے کا شہری نہ کہے، مگر تمام معاملات میں آپ دوسرے درجے کے شہری ہو چکے ہیں۔ این پی آر/این آر سی کے خلاف بولیے تو دہلی جیسے فساد میں جھلس جائیے۔ ظفرالاسلام خان کی طرح بولیے تو پولس گھر در آئے۔ موب لنچنگ تو جھیل ہی چکے۔ ان حالات میں جائیے تو جائیے کہاں! سچ تو یہ ہے کہ 1857 میں غدر کی ناکامی کے بعد اس وقت کے مسلمان پر جو گزری تھی، ویسی ہی کچھ اس وقت ہندوستانی مسلمان پر گزر رہی ہے۔ کیا کہیے اور کیا سنیے سوائے اس کے کہ بس خدا خیر کرے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

12مئی 2020(فکروخبر)

«
»

قوم کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کی ضرورت

کورونا وائرس کی وبا اور ماہِ رمضان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے