ذبیحہ گاؤ پر پابندی کے بہانہ

حکومت کے عمل پر مختلف رد عمل کے با وجود فرنویس حکومت کے اس فیصلہ سے اس کا اصل مقصد اس میں واضح نہ ہو سکا کہ نئے سرے سے امتناع گؤ کشی پر پابندی کے جواز میں حکومت کے اس اقدام کو جس طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے اسکے بجائے اس بات کا جائزہ لینا ضروری رہے گا کہ ریاست میں اس قانون کے نفاذ کی کیا واقعی ضرورت تھی؟ کیونکہ 1976ء سے ہی مہاراشٹر میں ذبیحہ گاؤ پر تحفظ مویشی قانون کے تحت مکمل طور سے پور ی ریاست میں سختی سے پا بندی جاری تھی؟
1996ء میں منظور شدہ اس ایکٹ کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوجا ئیگا کہ مرکز کی جانب سے دفعہ ۳۸ کے تحت ریاستوں کو گائے کی نسل کے تحفظ کے لئے جو ہدایات جاری کی گئی تھیں اس پر اس زمانہ میں مہاراشٹر میں اس قانون پر مکمل عمل آوری میں گائے کے علاوہ بھینس کے ذبیحہ پر پابندی عائد تھی۔ دودھ نہ دینے اور افزائش نسل کے قابل نہ رہنے والے مویشیوں کو اس ایکٹ میں گنجائش رہنے کے با وجود گائے اگر نا کارہ ہو تب بھی محض ہندوؤں کے مذہبی احساسات کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے ذبیحہ پر یہ پابندی عائد تھی۔ صرف بقر عید کے موقع پر قربانی کے طریقۂ کار کے بموجب تین دنوں کے لئے بچھڑوں ‘ بیل ذبیحہ منظوری کا قانون کا 1995ء میں نفاذ عمل میں آیا ۔اس قانون کی منظوری کے با وجود ذبیحہ گاؤ پر مکمل طور پر امتناع تھا۔ یہاں یہ وضاحت قابل توجہ ہے کہ 1976ء میں منظور شدہ ایکٹ اس سلسلہ میں متوازن تسلی بخش قانون تھا۔مزدوروں و محنت کشوں کے مفادات کی نگرانی کے لئے سر گرم عمل کمیونسٹ و سوشلسٹ پارٹیوں کے اثر ٹریڈ یو نین تحریک کو ختم کرنے کے ذمہ دار سابق کانگریس وزیر اعلی وسنت راؤ نائک کی کرم فرمائی کا طفیل تھا کہ اس حکومت کی جانب سے شیو سیناکو مستحکم کرنے کی روایت کی داغ بیل پڑی ۔ وسنت راؤ نائک نے اکثریتی طبقہ کا دل مزید جیتنے کے لئے 1976ء میں تحفظ مویشیان ایکٹ Animal Husbandary Act کی تدوین کے ذریعہ تحفظ گؤ کشی کی جزوی کوشش کا آغاز کیا تھا۔ 
1976ء کے اس ایکٹ کے بموجب زراعت کے لئے نا قابل استعمال بیل کی فرو ختگی کے ذریعہ کسان اپنی ضروریات کی تکمیل کرسکتاتھا۔ اس کی وجہ سے ناکارہ شدہ گائے چھوڑ کر بیل اور بھینس کے ذبیحہ کی اجازت کی وجہ سے غریبوں کی مرغوب غذا کا استعمال مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کے جنون کے ساتھ ہی کسانوں کو جس طرح مشکلات سے دو چار ہونا پڑے گاوقت ضرورت اپنے ناکارہ جانور قدرتی آفات کے شکار کسانوں کے لئے اس قانون کی منظوری سے نئی مصیبت میں مبتلا ہونے کی نوبت آپڑی ہے۔ اقلیتی طبقہ کو پریشان کرنے کی اس حکومت کی روش سے دیگر طبقات کو جو نقصان پہنچے گا اس پر اس حکومت نے توجہ دینا کیوں ضروری نہیں سمجھا؟ اس کے علاوہ مذکورہ قانون کی منظوری سے آئین کااحترام و سپریم کورٹ کے دئیے فیصلوں کے وہ بر خلاف ہے۔ اس جانب آج کسی نے توجہ دینے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کی؟ 
یہاں ہم اس بات کو حوالہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ملک کا دستورمرتب کرتے وقت اس سلسلہ میں آئین سازی کے دوران امتناعی ذبیحہ گاؤ کے اس موضوع پر بحث کے دوران اس مشاورتی اجلاس میں جو تبادلہ خیال کیا گیا اس میں گائے کے تحفظ کے لئے اکثریت کے احساسات کی ترجمانی کے موضوع پرآئین سازی کے لئے منعقد ہ اجلاس میں سیٹھ گو یند داس نے قرار دادپیش کی تھی مگر ان کی پیش کردہ اس قرار داد کی اجلاس میں موجود تمام شرکاء نے بھی اس کی مخالفت کی تھی۔ اس پر امتناع گؤ کشی کے زبردست حامی پنڈت ٹھاکر داس بھارگو نے اس موضوع پر دونوں فریقین کے احساسات کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے آئین کے رہنما خطوط میں شامل کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اس ایکٹ کے نفاذ کی وجہ سے غیر ہندوؤں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو نگے۔ ان کی اس تجویز پر سیٹھ گویند داس نے اس میں تصیح کے ذریعہ گائے کی وضاحت کے ساتھ اس میں بچھڑے ‘ بیل کی شمولیت کی ان کی تجویز ایک معنوں میں ذبیحہ گاؤ پر پابندی میں اس کی نسل کے دیگر جانوروں پر اس کے اطلاق آئین کی دفعہ ۳۸ کے الف میں اس تصیح کو دستور ساز کمیٹی نے اسے اس ایکٹ میں شامل کرلیا تھا۔ اس سے یہ مطلب واضح ہوتا ہے کہ ذبیحہ گاؤ پر پابندی کے سلسلے میں آئین ساز کمیٹی میں اتفاق رائے کے با وجود کمیٹی گائے کی دیگر نسل کے مویشیوں کے تحفظ کی حامی نہیں تھی۔ امتناع گؤ کشی کے سلسلے میں آئین ساز کمیٹی کے موقف کی سپریم کورٹ نے خود تائید کی ہے۔ 
اس سلسلہ میں سپریم کورٹ نے بہار و مدھیہ پردیش کے چار افراد کی رٹ پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ زراعت کے لئے نا قابل استعمال قرار دئیے گئے بیلوں کی نگہداشت کسانوں کے لئے بوجھ کے مما ثل قرار دیتے ہوئے ان کے ذبیحہ پر پابندی کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ 16؍ نومبر 1994 ء کو سپریم کورٹ میں جسٹس کلدیپ سنگھ کی سربراہی میں سہ رکنی بنچ نے اپنے فیصلہ میں بقرعید کے موقع پر گائے کی قربانی کی دلیل کو نا منظوری دی تھی۔۔ مسلم دشمنی آر ایس ایس کے خمیر و ضمیر میں جس طرح رچی بسی ہوئی ہے اس سے کسی ذی ہوش عقلمند شخص کو انکار کی گنجائش کے تناظر میں مہاراشٹر کا مسلمان بی جے پی پر کس طرح اعتماد کے ذریعہ اسے ووٹ دے سکتا ہے پارلیمانی الیکشن و حالیہ مہاراشٹر اسمبلی الیکشن میں بی جے پی جس طرح مسلم ووٹوں کے حصول سے یکسر محروم رہی اسی وجہ سے مسلمان ریزرویشن کے حصول اور ان کی غذائی ضرورت Beef کے استعمال سے محروم کر دیے گئے ہوں؟ 
وزیراعلی فر نویس کے والد محترم و آر ایس ایس و جن سنگھ کے سر گرم رکن تھے انھیں اور خود وزیر اعلی فر نویس کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ویدک دور میں بھی پوجا پاٹ کے معاملہ میں اکثریتی طبقہ کی رہنمائی کرنے والا برہمن طبقہ گائے کی قربانی کی حمایت ہی نہیں بلکہ خودگائے کا گوشت بطور غذا استعمال کرتا تھا۔ ساورکر نے بھی گائے کے گوشت کے استعمال کو ہندو سماج کے لئے قابل قبول قرار دیا تھا۔ مہاراشٹر میں 1976ء میں منظور شدہ تحفظ مویشیان ایکٹ میں آئین ساز کمیٹی کے احساسات ‘ اس کمیٹی کے احکامات ‘ سپریم کورٹ کی نظائر کے خلاف جاکر اس نئے قانون کی منظوری فرنویس حکومت کی مسلمانوں کے سلسلہ میں مخصوص رویہ پر انگشت نمائی کے وہ مماثل ہے ؟

«
»

تاریخ میں رنگ آمیزی کے مضمراثرات

پیشگی تنخواہ…ایک افسانہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے