زباں زد کتاب جاسوسی۔ آج کی تاریخ کے پس منظر میں۔

خارجہ پالیسی کے بدلے پس منظر میں یہ خفیہ تنظیم بھی کافی بدل چکی ہے(ملاحظہ ہو صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کا عالمی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان اور اسرائیل کا بھارت پر چھاتا ہوا سیاہ بادلوں کا جمگھٹ) اور صحت بھی۔ شری رمن خود بھی محسوس کرتے ہیں کہ جب سے راکا تاریخی شعبہ بند کردیا گیا(کیوں؟) اس کی خفیہ سرگرمیوں کے پرانے ریکارڈس سے اس نئی نسل کو محروم کر دیا گیا ہے خصوصاً اس وقت جب یہ ہماری خارجہ پالیسی پر عمل درآمد کے وقت بھی اپنے آنکھ کان کھلا رکھ سکتی تھی۔
کئی دہائیوں قبل اس ادارے کے سربراہ تھے رامیشورناتھ کاؤ جنہیں خفیہ سرگرمیاں انجام دینے کے لیے افسانوی مقام حاصل ہوگیا تھا۔ہمارے ملک کی روایت کے مطابق شری رمن کے متذکرہ کتاب کی اشاعت کے فوراً بعد تنازعات کا ایک طوفان برپا ہوگیا۔جب انھوں نے لکھا کہ ایک وقت ایسا آیا جب جموں کی دہشت گردی(علیحدگی پسندی) سے لڑنے کے لیے حکومت کے ذریعہ اسلحہ کی تربیت کی پیشکش کی گئی تھی۔ قطع نظر اس کے کہ اس بات میں کتنی حقیقت تھی۔ اس بات کے کئی مطالب نکالے گئے۔
ہمارے دیس میں پردے کے پیچھے کے اہم واقعات کے بارے میں اس کے پہلے کبھی کچھ نہیں لکھا گیا تھا۔ شری رمن کی موجودہ کتاب ان مبہم معلومات کو قائدین کے سامنے دعوے کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ 
ساٹھ کی دہائی میں چینی حملے کے وقت بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل بی ایم کول اور ان کے حلقہ مشاورت کے جنرلوں کی بہت چرچا تھی۔وہ نہرو مینن کازمانہ تھا اور فوجی ہیڈکوارٹر میں نہرو کی نگاہِ التفات کے نتیجے میں جنرل کول کو عقبی دروازے سے چیف آف جنرل اسٹاف بنادیا گیاتھا۔ جنرل کول کے رفقاء کو اس وقت بیوروکریسی کے اعلیٰ گلیاروں میں کول بوائز کا لقب دیا گیا تھا۔
اکتوبر1962ء میں چینی حملہ کے دوران بھارت کی ذلت آمیز شکست کے بعد وہ سب کے سب اپنی نا اہلیت کے لیے بدنام ہوئے تھے یہاں تک کہ شکست کے اسباب سے متعلق کتاب میں بینڈرسن بروکس نے واضح طورپر لکھا کہ 1960ء کی شروعات سے ہی پیشہ ورانہ اور دیرپا حکمتِ عملی کا فقدان ہماری فوجی قوتوں میں عدم توازن ،عدم اعتبار اور قیادت کا فقدان بیرونِ ملک خفیہ اداروں میں بھی سرایت کر چکا تھا۔ جہاں فوج کے بی ایم کول اور اس کے فوجی معاونین اپنے تکبر کے اظہار شان و شوکت اور بیان بازی میں مبتلا تھے۔ وہیں وہیں دیس میں کچھ سالوں میں ہی رامیشورناتھ کاؤ کی شکل میں ایک ایسا افسر ہواجو ماہر، خاموش اور خودنمائی سے کوسوں دور گمنامی میں رہ کر ایسا کام کرسکا جس پر حیرت ہونا لازم ہے۔ وہ خود پیشہ ورانہ مہارت اور مقصد سے لگن کی ایک مثال بن گئے۔
شری رمن کی یہ کتاب کسی خفیہ ادارے کے اعلیٰ افسر کے ذریعے پہلی کتاب نہیں ہے۔ اس کے پہلے شری بی این ملک جو اینیٹ جنس بیورو میں 16سال تک ڈائریکٹر رہ چکے تھے۔ تین جلدوں میں اپنی یادداشت ’’مائی ایرس وِدھ نہرو(My years With Nehru)نام سے شائع کر چکے تھے۔لیکن یہ آئی بی کے دو الگ الگ حصوں میں تقسیم سے پہلے کی بات تھی۔ ایک اندرونِ ملک جاسوسی کے لیے جسے آئی بی کہتے تھے۔ دوسری غیر ملکی جاسوسی کے لیے جسے راکہا گیا۔ 
مصنف کی اس کتاب میں پہلی بار ہماری خارجہ جاسوسی کے رازدارانہ کاموں ان کی کامیابیوں وناکامیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جب ستمبر 1968ء میں را قائم ہوئی اورجب شری رمن اگست 1964ء میں ریٹائر ہوئے تب تک کے تمام اہم واقعات کا اس کتاب میں احاطہ کیا ہے۔
اس وقت کی وزیراعظم اندراگاندھی کو ان پر پورا بھروسہ تھا ۔را کو انہوں نے ایک پودے کی شکل میں خود لگایا تھا اور با اثرشکل میں پروان چڑھایا۔ کاؤ اپنے رفقاء اور ماتحتوں کو ہرکام کا سہرا باندھتے اور کسی مہم میں ہونے والی چوک کی ذمہ داری خود لیتے تھے!انہوں نے بھارت کے علاوہ بیرونِ ملک بھی پیشہ ورانہ شہرت حاصل کی۔ کاؤ ایک معتبر صاف گو اور جری آفیسر تھے۔
مصنف نے فرانسیسی خفیہ ادارے کے سربراہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ کاؤ میں جسمانی اور ذہنی سطح پر ایک نرم خوشخصیت کی جھلک ملتی ہے۔ انھوں نے دوست بنائے لیکن اپنے دوستوں سے اپنے کارناموں اور کامیابیوں کی مثال دینے میں بھی تکلف ہوتا تھا۔
سچ تویہ ہے کہ کسی بھی خفیہ ادارے کے بارے میں غیر جانبدارہوکرلکھنا مشکل کام ہے کیونکہ وہ اس سے گہرائی سے وابستہ آفیسر نے لکھا ہے جس میں راکی1960ء کی دہائی سے لے کر1990ء کے وسط تک کے رول کی چرچا ہے۔ اس میں کئی وزرا ء اعظم کے رجحانوں کے بارے میں بھی ضروری تذکرہ ہے۔ا نڈین Imperialپولیس سیوا کے 1940ء کے بیچ کے آفیسر تھے اور انہیں انٹیلی جنس بیوروکا 20سال کا تجربہ تھا۔ 1968میں را کے قیام کے بعد سے ہی اندرا گاندھی نے ا نہیں اس کام کے لیے منتخب کیا تھا۔
پیرس اور جنیوا کے علاوہ وہ دلی کے ہیڈکواٹر میں بھی رہے جناب رمن ان کے داہنے ہاتھ تھے۔ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی ذاتی یااِدارے کی خامیوں اور ناکامیوں کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔ جب 1969ء میں شمال مشرق میں ناگابغاوت ایک سنگین خطرہ تھا تب ایک بارانٹیلی جنس بیورو اور را نے دستیاب معلومات کی بنیاد پر تجزیہ کیا تھا کہ2100ناگاچھپ کر یُنّان گئے تھے۔جہاں جینی اچھی تربیت دیتے تھے ۔اس وقت فوج کے کمانڈر ستیم مانک شانے اس سوال پر شک ظاہر کیا تھا اور اس تعداد کو صرف450مانا۔بعد میں حراست میں لیے گئے ایک ناگا نیتانے جب بڑی تعداد بتایا تب اپنی غلطی کی اصلاح کرکے جنرل نے اس کی توثیق کی۔ مصنف یہ بھی مانتا ہے کہ بابری مسجد ڈھانچے کی تباہی کے بعد ممبئی میں ہوئے بم دھماکوں کے سلسلوں کا وہ پہلے سے اندازہ نہیں لگا سکے۔ یہ ہمارے خفیہ نظام کی بہت بڑی ناکامی تھی۔ اس کتاب کی تحریر سے لے کرآخری باب تک جو نکتہ بار بار آیا ہے وہ ہے امریکہ کا بھارت کی حفاظت سے متعلق خطروں میں تعاون نہ کرنا۔کئی موڑ ایسے آئے ہیں جب امریکہ نے بھارت کا ساتھ چھوڑکر پاکستان کی طرفداری کی۔ 
جب مصنف 1994میں ریٹائرڈ ہوکراپنے گھر چینئی پہونچے تب امریکہ کے تئیں اپنی تلخیوں اور غصہ کو دبانہ سکے۔ را کی ہم پلہ امریکی ایجنسی سی آئی اے سے وہ اتنا خفا نہیں تھے جتنا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ہند مخالف رویّے سے۔ انہوں نے متعدد مثالیں پیش کی ہیں جب امریکہ نے خالصتانی گروہوں کو مالی امداد دی جموں کشمیر میں جنگجوؤں اور علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کی پاک خفیہ ایجنسی ایس آئی کو بھی بھارت کے خلاف اکسایا۔
ایک وقت وہ بھی آیا جب امریکی خفیہ ایجنسیوں نے بھارت کے ساتھ تعاون میں پہل کیا۔ وہ بھارت کی مدد کمیونسٹ چین کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو روکنے میں پانا چاہتے تھے۔ چین کے خلاف جاسوسی کرنے میں سی آئی اے نے بھارت کو خصوصی الیکٹرانک سازو سامان بھی دئے تھے۔
اس وقت امریکی خفیہ ایجنسی کے ڈائرکٹر نے رامیشور ناتھ کاؤ سے کہا تھا۔ ’’رام جی ! اس میدان میں ہم ایک دوسرے کودھوکہ دینے سے نہیں چوکتے ہیں ۔ میں جانتا ہوں را بھی ہمیں دھوکہ دے گا اور دئے ہوئے سازوساما ن سے چین کے بجائے پاکستان سے تکنیکی خفیہ اطلاعات پانے میں استعمال کرے گا۔ لیکن دھیان رکھنا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو اس کی آہٹ بھی نہ لگے۔
یہ بھی ایک تضاد تھا کہ جہاں امریکی خفیہ ایجنسی صدر نکسن کے دور میں اندراگاندھی کے خلاف ناراضگی کا اظہار کرکے جنگی سطح پر نفسیاتی دباؤ بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا تھی تو دوسری طرف بھارتی جاسوسوں اور را کو چین کے خلاف ہر طرح کی مدد بخوشی دے رہی تھی۔ 
اس کتاب میں مصنف نے را اور آئی بی کے باہمی تعلقات پر بھی دلچسپ معلومات دی ہیں1968ء میں دوحصوں میں تقسیم ہونے کے سبب آپسی تال میل اور تعاون ایک اہم مسئلہ تھا۔ 1947میں ملک میں صرف دوایجنسیاں تھیں۔ آئی بی اور ملٹری انٹیلی جنس۔ آج اسی میدان میں 8خصوصی ادارے سرگرم عمل ہیں۔ آئی بی، ڈائرکٹر یٹ جنرل آف ملیٹری انٹلی جنس، را،ڈائکریکٹریٹ جنرل آف سیکورٹی، ائر اینٹلی جنس، نیول اینٹلی جنس، ڈیفنس انٹلی جنس ایجنسی ، نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ آرگنائزیشن، ان اداروں میں حسد کے سبب عموماًآپسی تال میل کا فقدان رہتا ہے۔ 
مصنف نے گہر اتجزیہ کرتے ہوئے اس کا بھی تذکرہ کیا کہ رَا کے مختلف سربراہوں کے وزرا ء اعظم سے تعلقات کی نوعیت کیا تھی۔ اندراگاندھی،راجیوگاندھی اور چندر شیکھر سے رَا کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ مرارجی دیسائی ان کے کام کی کم مختص بجٹ میں کٹوتی کی بات زیادہ کرتے تھے ۔مصنف نے پیرس میں ہوئی ایک میٹنگ کا تذکرہ کیا ہے جس میں ایک شاندار دعوت میں مرارجی دیسائی میوے کے چند دانے کھا کر ہی مطمئن ہوگئے۔
مصنف نے تسلیم کیا ہے کہ کئی دہائیوں تک رَا کی سب سے بڑی کمزوری تھی چین کے بارے میں معلومات کا حصول ،ان کا تجزیہ اور قیاس کو اہمیت نہ دینا۔یہ پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے۔ اس کے خوفناک نتائج ہم پہلے بھی بھگت چکے ہیں اور آئندہ بھی خطرات کا اندیشہ ہے۔ یہاں تک کہ امریکی اور برطانوی ایجنسیوں کے متنبہ کرنے کے باوجود بھی ہم اپنی ہی دنیا میں مگن رہے اوراپنی کھوکھلی نظریاتی نکتوں کے سامنے حقیقی زمینی سیاست کے تانے بانے کو اہمیت نہیں دیتے۔ ہماری خفیہ ایجنسی پاکستان ، وسطی ایشیا اور عرب ممالک کے ماہرین توتیار کرلے گئی لیکن چین کے لیے ایسا کوئی مضبوط گروپ تیار نہ کر سکی۔ 
1962کے چینی حملے کی ذلت کے باوجود ہم کوئی سبق حاصل نہ کر سکے۔ را کی تقریباً40سالہ تاریخ میں صرف ایک سربراہ کو چینی ماہر کہا جاسکتا تھا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں صرف پاکستان کو دشمن مانتی تھیں۔ ہر سطح پر کمیونسٹوں کے غیرمتوقع غلبہ کے سبب چین کو نہیں۔(طاقت کا پجاری دیس ہونے کے سبب) مصنف پر امید ہیں کہ نقطۂ نظر(ذہنیت) کے اس عدم توازن کو دور کرلیا جائے گا۔(کمزوروں پر ظلم طاقتور کی بندگی؟)
ایجنسی کے ذریعہ راز داری کے پردے میں بھارت کے ذریعے چلائی جارہی مہمات کے بارے میں تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔ حالانکہ امریکی سی آئی اے کی بین الاقوامی پالیسیوں کے تحت 50سال بعد خفیہ معلومات فراہم کرنے کے قانون کے تحت بھارت کا تبّتی رول کھمیابغاوت یاکاؤ کے کنٹرول میں 1971میں تبّتی فوجیوں کی سرگرمیوں کا بھی تفصیلی تذکرہ ملتا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے قائم ہونے کے پہلے (بنگلہ دیش بنانے کے لیے سرگرم جنگجوؤں کی بھارت کے ذریعہ قائم گوریلاتنطیم)کی مہم میں بھی ہمارے ملک کی درپردہ کاوشیں دوسرے ذرائع سے زیادہ واضح طورپر دستیاب ہیں ۔Aviationاسی طرح ایوی ایشن ریسرچ سینٹر کے نام سے خفیہ طریقے سے پاکستان کے خلاف چلائی جارہی مہم کا بھی اس میں کوئی خاص تذکرہ نہیں ہے۔
پوری کتاب میں دلچسپ ،نایاب، تاریخی معلومات سے لبریز کافی تفصیلات ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھارت کی بیرون ملک سرگرم خفیہ ایجنسی کی اب تک کی بہترین تصنیف قرار دی جا سکتی ہے۔ مصنف ہندوستانیوں کی کمزوریا دداشت کا اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کرتا ہے کہ ہندوستانی پرانے واقعات سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے جو مستقبل کی اچھی علامت نہیں ہے۔
جب رامیشور ناتھ کاؤ واشنگٹن میں سی آئی اے ہیڈکوارٹرز کے دورے پر گئے تھے تب موجودہ (جس وقت کتاب لکھی گئی) صدر جارج ڈبلیوبش کے والد جارج بش سینئرجو اس وقت 1970میں سی آئی اے سربراہ تھے انہوں نے امریکی قومی علامت کاؤ بوائے کا کانسے ایک مجسمہ کاؤ کوتحفہ میں دیاتھا۔ جارج بش کو دہلی میں واقع سی آئی اے کے افسر نے پہلے ہی کاؤ بوائز آف رَا کہہ کران کا تعارف کرایاتھا تبھی سے امریکہ میں بھارتی ڈپلومیٹ اپنائیت میں یہ لفظ استعمال کرنے لگے تھے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ رامشیور ناتھ کاؤ کے زمانے میں ایک کاؤ بوائے جیسی جری پُر خطر لیکن اشتعال انگیز یا ظاہری تصویر کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس کے برعکس ان کا نظریہ میڈیاکی نظروں سے دور خاموش خفیہ اور پراسرار پردے میں رہ کر کام کرنے کا تھا۔ آج کی طرح ان دو دہائیوں میں کاؤ اور ان کے کسی معاون نے ان کی تصویر ٹی وی یا پرنٹ میڈیا میں کبھی دیکھا ہی نہیں۔یہی نہیں پاکستان کے تسلط سے بنگلہ دیش کوآزادی دلانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے والے کا سالہا سال تک میڈیا میں ذکر ہی نہیں تھا۔ فتح کے لمحات میں رَا کی چرچا ضرورہوئی لیکن وہ اپنی تصویر شائع کرانے کے لیے کبھی راضی نہیں ہوئے۔
مصنف نے 1996کے ایک واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔بنگلہ دیش کی آزادی کی 25ویں سالگرہ دھوم دھام سے منائی جارہی تھی۔ نیتاؤں کی تقریروں سے جلسہ گاہ میں حددرجہ جوش تھا۔ تبھی ایک بنگلہ دیشی مہمان نے پیچھے کی کرسیوں پر ایک لمبے خوبصورت اور مہذب دکھائی پڑنے والے شخص کو دیکھا اور اس کے پاس جاکر بولاسر! آپ کا مقام تو اسٹیج پر مرکزی جگہ پر بیٹھنے کا ہے۔ 1971میں جو کچھ ہوا آپ نے ہی اسے ممکن بنایا، کاؤ نے جواب دیا’’میں نے کچھ نہیں کیا، میرے معاونین کو ہی آج تعریف پانے کا حق ہے۔‘‘وہ چپ چاپ بھیڑ میں گمنامی میں بیٹھنا پسند کرتے تھے۔
مصنف کا خارجہ حکمت عملی اور اس سے منسلک جاسوسی پر اپنا مخصوص ذاتی نظریہ تھا۔ آج کی ٹی وی پر بریکنگ نیوز کے طرز پرپیش کرنے والے تبصرہ نگار یا تونادان ہیں یا معصوم یا سیکورٹی کے معاملے میں بے خبر یا تینوں۔مثال کے طورپر ایسی خبریں جیسے’’فرانسیسی جاسوسوں نے وزیراعظم کے دفتر میں ٹھکانہ بنالیاجو 80کی دہائی میں سرخیوں میں رہیں یا کسی ملک نے ہماری ویب سائٹس کی ہَیک کیا۔ یہ سنسنی خیز تو ہو سکتی ہیں لیکن ان میں حقیقت نہیں ہوتی۔
پھر بھی مصنف کی رائے میں ہمارے ملک میں غیر ملکی جاسوسوں کی جاسوسی کرنے یا نگاہ رکھنے میں کوئی احتیاط نہیں کی جاتی۔ ہماری جوابی جاسوسی بہت ہی کمزور ہے۔
ملک میں ہمارے جاسوسی نظام کی کیفیت کو مکمل طورپر جاننے کے لیے یہ کتاب ایک مصدقہ دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس مضمون میں ہم وقت کے اصلی واقعات کا ہی نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً ان کے پڑنے والے ہمہ جہتی اثرات کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس لیے یہ کتاب قابلِ دیدہے

بحوالہ۔ راشٹردھرم 58ماہنامہ دسمبر2008

 

«
»

ظلم و بربریت کا بازار صرف ایوانِ اقتدار تک محدود نہیں۰۰

پہاڑ:حیات الارض کے ضامن………International Mountains Day

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے