اب مودی جی کو چاہئے کہ اپنی کرکٹ ٹیم کوبابارام دیو کے حوالے کرکے اسے دن رات یوگا کروائیں تاکہ کرکٹ کا اگلا عالمی کپ یقینی طور پر ہندوستان کو آسکے۔
یوگا کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ذہنی تناؤ سے نجات پانے کا نسخہ کیمیا ہے لیکن جو ملک یہ پیغام ساری دنیا کو دیرہا ہے اس کی کرکٹ ٹیم کا ’’کیپٹن کول‘‘ کہلانے والا کپتان کبھی مخالف ٹیم کے گیند باز کو ٹکرّ مار کر میدان سے باہر کرنیکی کوشش میں اپنی ۵۷ فیصد فیس سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے تو کبھی جھنجلا کر ساری غلطیوں کے لئیخود کو ذمہ دار ٹھہرا دیتا ہے۔ یہ چراغ تلے اندھیرا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟یوگا دن کے موقع پر ہندوستانی ٹیم کا عبرتناک انجام دیکھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب مودی جی سے بھی دھونی کی مانند سوال کیا جائیگا کہ اب آپ کو کپتانی کرتے ہوئے کیسا لگتا ہے؟ اور مودی جی وہی جواب دوہرائیں کہ اگر وزیراعظم کے بدل دینے سے ہندوستان کے حالات سدھر سکتے ہیں تو مجھے بدل دیجئے۔ یہ کہنا دھونی کیلئے جس قدر آسان ہے مودی کیلئے اتنا سہل نہیں ہے اس لئے کہ جس طرح طلسمی کہانیوں میں شہزادے کی جان طوطے میں ہوتی ہے اسی طرح ہمارے سیاستدانوں کی آتما کرسی میں پھنسی ہوتی ہے ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ ’‘جگ کل ریت صدا چلی آئی جان جائی پر سنگھاسن نہ جائی‘‘۔مودی جی کو اپنے ساتھ ’’پہلی بار‘‘ کا لقب لگانے کا بڑا شوق ہے تو بنگلا دیش نیانہیں اپنی پیٹھ سہلانے کا ایک اور موقع عنایت کردیا اب وہ سینہ ٹھونک کر کہہ سکتے ہیں کہ ان کی قیادت میں پہلی بار ہندوستان نے بنگلا دیش سے سیریز ہارنیکا اعزازحاصل کیا ہے اس سے پڑوسی ممالک کے تعلقات بہتر ہوں گے اور خطے میں امن قائم ہوگا۔
جس دن یوگا کے ذریعہ ساری دنیا کو امن و شانتی کا پیغام دیا جارہاتھا اسی روز آرایس ایس کے گڑھ ناگپور کے علاقے سے ایک دل دہلا دینے والی خبر آئی جہاں سندیپ کوٹھاری نامی صحافی کو مدھیہ پردیش کے بالا گھاٹ سے اغواء4 کرکے لایا گیا اور قتل کرنے کیلئے جلادیا گیا۔اتفاق سے مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر دونوں مقامات پر بی جے پی کی ریاستی حکومتیں ہیں۔یہ بھی اتفاق ہے شدید مطالبت کے باوجودسندیپ کوٹھاری کے قتل کی تحقیقات بی جے پی کی ریاستی حکومت سی بی آئی کو دینا نہیں چاہتی اس لئے کہ اسے خود اپنی مرکزی سرکار پر اعتبار نہیں ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ کہیں مودی جی اس کا فائدہ اٹھا کر چوہان صاحب کا بوریہ بستر گول نہ کردیں۔ سندیپ کا قصور یہ تھا کہ اس نے غیر قانونی طور کان کنی کرنے والوں اور چٹ فنڈ چلانے والوں کے خلاف مقامی عدالت میں دائر کردہ مقدمہ واپس لینے سے انکار کردیا تھا۔
میڈیا اس اہم خبر کو شام تک پیٹ میں لئے بیٹھا رہا اوریوگا کی بانسری بجاتا رہا۔ اس پر دولت کا ایسا نشہ سوار تھا کہ اس نے ممبئی میں۱۰۰سے زیادہ زہریلی شراب پی کر مرنے والوں کے لواحقین کا دکھ درد کوبھی نظر انداز کردیا۔ یہ حادثہ بی جے پی کی مہاراشٹر حکومت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے جس نے بڑے جانور کے ذبیحہ پر پابندی لگا کر اسے سختی سے نافذ کرنے کی کوشش کی ہے مگر دیسی و انگریزی شراب تو کجا زہریلی شراب کے قہر سے بھی اپنی عوام کو نہیں بچا سکی۔ مرکزی سرکار نے دو عالمی ریکارڈ قائم کرنیکادعویٰ کیا ہے۔ سب سے زیادہ لوگوں کے ایک ساتھ یوگا کرنا اور سب سے زیادہ قومیت کے حامل لوگوں کے یوگا کرنے کاورلڈ ریکارڈ۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کرکے ہندوستان نے کس کا ریکارڈ توڑا ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ اولمپک میں سونے کا تمغہ نہیں جیت سکتے تو کبڈی کا کھیل شامل کرواکر خود عالمی چمپن بنا لیا جائے جب کوئی کھیلے گا نہیں تو ہاریگا کیسے؟
’’یوگادن‘‘ کے موقع پر مودی جی نے جن ۱۱۵سنوں کا انتخاب کروایا تھا ان میں سے بھی صرف ۱۳کرتے کرتیان کے پسینے چھوٹ گئے۔ جب آسن نہ کرسکے اس کی خجالت کو مٹانے کیلئے بچوں کو سکھانے نکل کھڑے ہوئے۔ ان کی اس چالاکی کو عوام تو دور بچے بھی سمجھ گئے ہوں گے۔ پنڈت نہرو کی سر کے بل شیرش آسن میں تصویر شائع کرکے کانگریس نے مودی جی کی ہوا نکال دی اس لئے کہ وہ تو تاڑآسن بھی نہیں کرسکے۔ اس طرح اصلی اور جعلی یوگی کا فرق ساری دنیا کے سامنے آگیا۔راج پتھ پر جو ۳۸۳ ہزار چٹائیاں بچھائی گئی تھیں جو تمام تر سرکاری دباو کے باوجود پرْ نہ ہو سکیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ’میک اِن انڈیا‘ کا شور مچانے والے شیر کو انہیں چین سے برآمد کرنا پڑا۔ اس سے شیر اور گیدڑ کا فرق بھی ظاہر ہوگیا۔ اس تماشے کو کامیاب کرنے کیلئے ۳۰ تا ۵۰ کروڈ روپئے پھونک دئیے گئے اور حکومت کا ارادہ نوزائیدہ وزارت آیوش کو۵۰۰ کروڈ سے نوازنے کا ہے۔ ایک طرف تو حکومت تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات کے بجٹ میں کٹوتی کررہی ہے اوردوسری جانب نمائشی کاموں پر بے دریغ خرچ کررہی ہے۔ ایسا کرنا ممکن ہے برسرِ اقتدار جماعت کیلئے کسی قدر فائدہ بخش ہو مگر یہ بہت بڑا قومی خسارہ ہے۔
مودی جی نے اپنے سارے وزراء4 کو بن باس پر روانہ کردیا تاکہ دہلی میں صرف وہی نظر آئیں لیکن برا ہو کیجریوال اور یاور جنگ کا کہ وہ تماشائی بننے کے بجائے میدان میں کود گئے۔ اپنے سب سے قریبی میت(ہمدم) امیت شاہ کو یوگا کا سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے پٹنہ بھیج دیا لیکن بھلا ہو نتیش کمار کہ انہوں نے امیت شاہ کو اپنی لحیم شحیم جسم کے پیش نظر گھر کے اندر ہی یوگا کرنے کا مشورہ دے دیا۔ امیت شاہ نے نتیش کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے یوگا کی افادیت پر تقریر پر اکتفا کیا اور بغیر ہاتھ پیر مارے لوٹ آئے۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ امیت جن ارادوں کے ساتھ بہار گئے تھے ان پر تقریر تو کرسکتے ہیں لیکن ان میں کامیابی حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ امیت شاہ نے تو یوگا نہیں کیا لیکن جن بہاری رہنماوں نے یوگا کیا ان کے اندر ایسی توانائی ا?ئی کہ وہ سب کے سب اپنے آپ کو وزیراعلیٰ کی کرسی کا حقدار سمجھنے لگے۔ اب ان احمقوں کو کون سمجھائے کہ ایک وقت میں ایک ریاست کے ایک سے زیادہ وزیراعلیٰ نہیں ہوسکتے۔ ایک امریکی یونیورسٹی نے تحقیق کی ہے کہ یوگا سے جسمانی فائدے تو ہوتے ہیں لیکن دماغ پر برا اثر پڑتا ہے۔ بہار خشواہا نے وزارت اعلیٰ کا دعویٰ کرکے اس کی توثیق کردی۔ مانجھی اور پاسوان نے غالباً دو چار الٹے سیدھے اضافی آسن کرلئے تھے اس لئے کہ ان میں بھی نشستوں کی تقسیم کو لے کرمہابھارت چھڑ گئی ہے۔اب موضوع بحث یہ سوال ہے کہ یوگا سے اتحادقائم ہوتا ہے یا انتشار ؟
وزیر خارجہ سشما سوراج کو نیویارک روانہ کیا گیا تاکہ وہ بان کی مون کے ساتھ یوگا کرسکیں۔ بان کی مون کے یوگا کرنے کی خبر تو ا?ئی لیکن سشما کی جی نہ خبر اور نہ تصویر۔ وہ تو خیر سے سشما جی کی کوئی تصویر نہیں آئی ورنہ امیت شاہ پر نتیش کمار کے تبصرے کی یاد تازہ ہوجاتی۔ ویسے اگر وہ تصویر کہیں شائع ہو تو اس میں ان کے آس پاس بدنامِ زمانہ للت مودی کو تلاش کرنا چاہئے اس لئے کہ سشما کی بدولت وہ مطلوبہ ملزم دو سالوں تک ساری دنیا کی سیر کرنے کیلئے آزاد کردیا گیا ہے۔ سشما کی بیٹی بانسری سوراج للت مودی کی وکیل بنی ہوئی ہیں اس لئیمرکزی حکومت عدالت میں ان کے خلاف پیروی نہیں کرتی اور ۲۲ سالوں تک سشما کے شوہر نامدار کوشل سوراج للت مودی کے قانونی صلاح کار بنے رہے ہیں ایسے میں جو ۱۲۵کروڈ کا گھپلہ کرنے والے للت مودی پر سشما کا یہ حق تو بنتا ہی بنتا ہے۔ اگر للت مودی امریکہ نہ آسکیں ہوں تو ممکن ہے سشما واپسی میں لندن میں ان سے ملاقات کرتے ہوئے لوٹیں۔ اس بیرونی سفر میں وزیر خارجہ نے کس کس گھپلے باز سے ملاقات کی یہ تحقیق کادلچسپ موضوع ہو سکتا ہے۔
ویسے یوگا دن کا سار ہنگامہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا گورکھ دھندہ ہے۔ اس کے اہتمام کیلئے ۹۹۱ کیمپوں کے اہتمام کی ذمہ داری بابارام دیو کو دے کرانہیں۱۱۹ لاکھ کی رشوت دی گئی تاکہ وہ کالا دھن واپس لانے کا اپنا مطالبہ پیش کرنے سے باز رہیں۔ بابا رام دیو جنہیں ہریانہ کی حکومت نے اپنا (برانڈ ایمباسیڈر) بنا رکھا ہے گھپلے بازی کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ یہ بھوگی ہریانہ کے وزیراعلیٰ سے نہیں پوچھتا کہ آخر اس کو کسی برانڈ ایمبا سیڈر کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ رام دیو کا دعویٰ ہے یوگا سے دماغ ، جسم اور روح کو بالیدگی حاصل ہوتی ہے اگر ایسا ہی ہے تو پولس کے آنے پر وہ عورت کا بھیس بدل کر فرار ہونے کی بزدلانہ حرکت اس نے کیوں کی۔ یوگا اگرا من و سلامتی کا پیغامبر ہے ہے تو اس کے آشرم میں ٹرک ڈرائیور پر گولی کیوں چلائی گئی۔ اس کا بھائی جو اس جرم میں شریک پایا جاتا ہے کیا یوگا نہیں کرتا۔ اسلحہ کا ذخیرہ رام دیو کے آشرم میں ملا اس کیلئے سنجے دت کی طرح اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں ٹھونسا گیا؟ سری سری روی شنکرکو اپنی مکھن بازی کے عوض ۶۵لاکھ کا انعام دیا گیا۔ یوگا دن کا اہتما م کرکے مودی جی نے آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے دباو سے چھٹکارا پانے کی کوشش ضرورکی ہے۔ اپنے وفادار سادھوسنتوں کی مدد سے اتنے بڑے پیمانے پر عوام سے رابطہ قائم کرکے یہ پیغام دے دیا گیاہے کہ اب وہ سنگھ پریوار کے بہت زیادہ محتاج نہیں ہیں ۔
’یوگا دن ‘ کو لے کر مودی جی کی فضیحت کا آغاز مسلمانوں کی جانب سے ہوا جب پرسنل لا بورڈ نے صاف اور واضح اعلان کردیا کہ عقائد کے معاملے میں کسی قسم کی کوئی مصالحت نہیں ہوگی۔ ہم لوگ سوریہ نمسکار نہیں کرسکتے اس لئے کہ ہم سوریہ کے نرماتا کو نمسکار کرتے ہیں اور عقلمندی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہر صاحب عقل مخلوق کے بجائے خالق کے ا?گے سجدہ ریز ہو۔ اس کے بعد یوگا کو سیکولر بنانے کی خاطر اس میں سے سوریہ نمسکار کو نکال دیا گیا۔ مسلمانوں کی جانب سے دوسرا اعتراض ’’اوم‘‘ کو لے کر تھا۔ ایسے میں مرکزی وزیر برائے ثقافت و سیاحت سری پد نائک نے اعلان کردیا کہ یوگا میں اشلوک کا پڑھنا لازمی نہیں ہے اور مسلمان ’’اوم‘‘ کے بجائے اللہ کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح گویا مسلمانوں کو شامل کرنے کے چکر میں پہلے تو یوگا کی چربی نکال کر اسے فیٹ فری دودھ جیسا بنادیا گیا اور پھر اس کے بعد اس میں سے مکھن بھی نکال لیا گیا۔ اب جو چھانچ بچ گئی اس میں نہ غذائیت باقی تھی اور نہ لذت اس طرح مسلمانو ں کیلئے یہ جنسِ حرام ہندووں کیلئے بھی ایک گناہِ بے لذت بن کر رہ گئی۔ اس کے باوجودوی ایچ پی کے پروین توگاڑیہ اسے سیکولر قرار دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ اوم کے بجائے اللہ کا نام لینا شیوا کی توہین ہے۔ اس طرح گویا نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اْدھر کے رہے۔
آر ایس ایس نے رام مادھو اپنا نمائندہ بنا کر بی جے پی میں بھیجا ہے اور لگتا ہے کہ اس کا یوگا کرکرکے دماغ خراب ہو گیا ہے۔ رام مادھو نے یوگادن کے موقع پر نائب صدر حامد انصاری کی عدم موجودگی پر اظہار حیرت کیا۔ چونکہ راجیہ سبھا چینل کے سربراہ نائب صدر مملکت ہیں اس لئے اس کے یوگا بلیک آوٹ پر بھی تنقید کی اور سارے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا لیکن جب حکومت کی جانب سے پھٹکار پڑی تو معذرت کرتے ہوئے ایک نیا جھوٹ گھڑ دیاکہ مجھے پتہ چلا ہے نائب صدر علیل ہیں اور ان کے دفتر کا احترام کیا جانا چاہیے بعد میں یہ دونوں ٹویٹ نکال دئیے گئے لیکن نقصان ہو چکا تھا۔ اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ نائب صدر بیمار نہیں تھے بلکہ انہیں دعوت ہی نہیں دی گئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر کسی تقریب میں نائب صدر کو دعوت دی جائے تو دستوری طور پر ان سے کمتر عہدے پر فائزوزیراعظم کومہمانِ خصوصی نہیں بنایا جاسکتالیکن یہ ناممکن تھا اس لئے انصاری کو دعوت دینے سے گریز کیا گیا۔ اب وہ دعوت کے بغیر بن بلائے مہمان کی طرح شریک تو نہیں ہوسکتے تھے۔ اس سے پہلے بھی ان جاہلوں نے ان کے پرچم کو سلامی نہ دینے پرتنازع پیدا کیا تھا جبکہ دستور کی خلاف ورزی خود وزیراعظم اور وزیر دفاع سے ہوئی تھی نہ کہ نائب صدرسے۔ یہ لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی رسوائی کا سامان کرتے ہیں۔ ممکن ہے یہ ان کے دماغ پر یہ یوگا کے اثرات ہوں۔
اقوام متحدہ میں یوگا دن کو تسلیم کروانے کوایک نادرِ روزگار کارنامہ بنا کر پیش کیا گیا حالانکہ اس سے قبل اقوام متحدہ ۱۲۹ دنوں کو مختلف مسائل سے منسوب کرچکی ہے اس طرح ہر ماہ میں ۱۰ سے زیادہ ایسے دن آتے اور نکل جاتے ہیں جنہیں کوئی نہیں پوچھتا۔۲۱جون ویسے ہی ہائیڑولوجی (آبیات) کے دن سے منظور شدہ تھا لیکن مودی جی کی ٹیم نے اس پر اصرا ر اس لئے کیا کہ اگر یہ اتوار نہ ہوتا اورکام کے دن لوگ اپنے دفاتر چلے جاتے تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اس نوٹنکی کو کون دیکھتا ؟لیکن سرکار کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر سال ۲۱جون اتوار کو نہیں آئیگا۔ ماہِ جون کی ۲۱ تاریخ کو الٹ دیں تو ۱۲جون کو بچوں کی مزدوری کا دن تھا۔ یہ ہندوستان کا ایک سنگین مسئلہ ہے جہاں ایک کروڈ سے زیادہ بچے اسکول جانے کے بجائے مزدوری کرنے کرتے ہیں۔ ۹تا۱۴ سال کے بچوں کے درمیان یہ تناسب ۱۱ فیصد بنتا ہے۔ اس مسئلہ کی سنگینی کے پیشِ نظر گزشتہ سال بچوں کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنے والے سماجی کارکن کیلاش ستیارتھی کو نوبل انعام سے نوازہ گیا۔ اگر مرکزی حکومت واقعی قوم کے مستقبل کی بابت سنجیدہ ہوتی تو۱۲ جون کو بچوں کی مزدوری کا دن منایا جاتا اور اس عذاب سے بچوں کو نکالنے کیلئے بڑے پیمانے پر کام کیا جاتا لیکن اس طرح کے کاموں سے شہرت نہیں ملتی اس لئے مودی جی کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ تو یوگا کے نام پر ایک تماشہ کرکے عوام کو بہلانے پھسلانے میں یقین رکھتے ہیں۔
مودی جی کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس طرح کے تماشے درد مٹانیوالے ’پین کلر‘ کی طرح ہیں۔ان عارضی راحت تو ملتی ہے مگربیماری کا علاج نہیں ہوتا وہ جوں کی توں باقی رہتی ہے۔ عوام کی ناراضگی کم ہونے کے بجائے بڑھتی جاتی ہے اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک اسکول میں الکٹریشین کی جگہ خالی تھی انٹرویو کیلئے جو امیدوار آئے ان میں سے ایک بہت چرب زبان ہنس مکھ رائے بھی تھا۔ اس نے اپنیبول بچن کے ذریعہ ملازمت بھی حاصل کرلی لیکن کام کرنا اس کے بس کا روگ نہیں تھا۔ کسی نے ایک دن اسکول کے صدر دروازے پر لگا بلب توڑ دیا ہے۔ جب ہنس مکھ رائے کو بلایا گیا تو پتہ چلا وہ طالبات کیلئے زیر تعمیر حمامات کی نگرانی کررہا ہے۔ پرنسپل نے کہا یہ تو ٹھیکیدار کا کام ہے لیکن ہنس مکھ رائے مسکرا کر بولا لیکن چونکہ یہ بہت اہم کام ہے اس لئیفی الحال تو میں یہ کررہا ہوں قمقمہ بعد میں بدل دوں گا۔ اس کے بعد شکایت ا?ئی کہ راہداری کی ٹیوب لائٹ بجھ گئی ہے۔ ہنس مکھ رائے کو تلاش کیا گیا تو معلوم ہواوہ چھوٹے بچوں کی دیکھ ریکھ کیلئے ان کے ساتھ پکنک پر گیا ہوا ہے۔ پرنسپل کو پھر غصہ آیا انہوں نے پوچھا یہ تو خالہ ماں کا کام ہے جواب ملا لیکن فی الحال یہی سب سے اہم کام ہے۔
اس کے بعد کسی کلاس روم کا پنکھا خراب ہوگیا تب بھی ہنس مکھ رائے نداردتھا اسے تلاش کیا تو وہ باغات کی صفائی مہم میں جٹا ہوا تھا۔ صدر مدرس نے پوچھا لیکن وہ مالی کیا کررہے ہیں تو انہیں بتایا گیا کہ وہ ہنس مکھ رائے کی تصویر کھینچ رہے ہیں تاکہ اخبارات میں اسے چھپوا کر اسکول کا نام روشن کیا جاسکے۔ ایک دن پانی کا پمپ خراب ہوگیا اسکول کیطلباء4 قطرے قطرے کو ترس گئے اس دن ہنس مکھ رائے سالانہ کھیل کود کے مقابلوں کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔ صدر مدرس کا پارہ دن بدن چڑھتا جارہا تھا ایک دن ان کے اپنے کمرے کا اے سی بگڑ گیا انہوں ہنس مکھ رائے کو بلوا بھیجا تو پتہ چلا وہ یوم اساتذہ کے موقع پر بچوں سے اپنے من کی بات کررہا تھا۔ پسینے سے شرابور پرنسپل نے اس کو اسکول سے نکال باہر کرنے کا فرمان جاری کردیا۔ جب ہنس مکھ رائے نے آکرپرنسپل سے پوچھا کہ جناب میں نے آپ کی اسکول وہ سب کیا جو کسی الکٹریشین نے مجھ سے پہلے نہیں کیا تھا اس پر پرنسپل صاحب نے اس سے پوچھا جی ہاں لیکن جس کام کیلئے تمہیں ملازمت پر رکھا گیا تھا ہنس مکھ رائے کیا تم نے کبھی وہ کام بھی کیا ؟ ہنس مکھ رائے کے انجام میں مودی جی کیلئے ایک پیغام ہے۔ اگرراج پتھ کو یوگ پتھ بنا نے کے باوجود ان کا دماغ درست ہو تو انہیں اس سے درسِ عبرت لینا چاہئے۔
جواب دیں