یوگا، ملی قائدین اور عام مسلمان

ان کے بقول یہ تمام ہندوستانیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔ دوسری طرف ملک کے مسلمانوں کی سب سے بڑی متحدہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ یوگا کے بالکیہ خلاف ہے ۔ انہیں یوگا کسی بھی صورت میں منظور نہیں ہے ۔حضرت مولانامحمد ولی صاحب رحمانی کارگذار جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کا کہنا ہے کہ یوگا کے آسنوں میں اشلوک پڑھے جاتے ہیں، شری کرشن جی نے شری ارجن جی کو یوگا کی تعلیم دی تھی، اس کا راست تعلق مذہب سے ہے، یوگا صرف ورزش نہیں ہے، یوگا میں سورج کی پہلی کرن کو پرنام کرتے ہیں، مختلف مرحلوں میں اشلوک پڑھے جاتے ہیں جس کی بنا پربورڈغیرہندوؤں کو پڑھنے پڑھوانے کو غلط سمجھتا ہے، سوریہ نمسکار ہو یا یوگا ،آئین ہند کی رو سے اسے اسکولوں ، کالجوں اور سرکاری تقریبات اور پروگرام کا حصہ بنانا خلاف قانون ہے۔ ایشا کی عظیم دینی درس گا درا العلوم دیوبندکی رائے اس سلسلے میں قدرے مختلف ہے ۔داراالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانامفتی ابو القاسم صاحب نعمانی کے بہ قول شر ک و کفر پر مبنی تمام کلمات سے احتراز کرتے ہوئے صرف بطور ورزش کے یوگا کرنے کی گنجائش ہے ۔
مسلم قائدین کے درمیان پایا جانے والا یہ اختلاف میڈیا میں سب سے زیادہ زیر بحث ہے ۔ مسلمانوں کے عقیدہ سے صرف نظر کرتے ہوئے قومی میڈیا یہ پیروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہے کہ جس یوگا کو دنیا بھر نے منانے کا فیصلہ کیا ہے اسے اپنے ہی ملک میں مخالفت کا سامنا ہے ۔ جس ملک کے کلچر کودنیا کے 170ممالک اپنا رہے ہیں جس میں 46 مسلم ممالک بھی شامل ہیں اسے اپنے ملک ہی والے منانے سے انکار کرہے ہیں ۔ 
یوگا کے سلسلے میں ہندوستان کی تین اہم مسلم ادارے کا یہ نظریہ ہے ۔ جس میں قدرے اختلاف ہے ۔ نام نہاد مسلم لیڈر اور تنظیموں کی الگ فہرست ہے جو یوگا کو صحیح ٹھہرانے اور مسلمانوں کے اعتراضات کو بے جا قراردے رہی ہے ۔ ہندوستان کے ان تین اہم ادراوں میں پائے جانے والے یہ اختلافات حکومت کے لئے مفید اور مسلمانوں کے لئے ذلت و رسوائی کا سبب بن رہے ہیں ۔ عام مسلمان پش و پیش میں مبتلا ہیں کہ و ہ کیا کریں ، یوگا میں شرکت کریں یانہ کریں ۔ ویسے تو مسلمان پہلے سے کئے خانوں میں تقسیم ہیں ۔ یوگا کے حوالے سے مسلمانوں کے دین دار طبقہ کا یہ ماننا ہے کہ یوگا بہر صورت مسلمانوں کے عقید کے خلاف ہے ۔ سوریہ نمسکار کہا جائے یا نہ کہا جائے بہرصورت وہ ہندو عبادت کا حصہ ہے حکومت اس بہانے ہندو کلچر کو مسلمانوں پر تھوپنا چاہتی ہے ۔ دوسری طرف سیکولرزم کے علم بردار مسلمانوں کا نظریہ ہے کہ یوگا منانے میں کوئی حرج نہیں ہے شرکیہ کلمات کے ہٹانے دیئے جانے کے بعد یوگا کرنا چاہئے اس سے صحت بنتی ہے اچھی کے صحت خواہمشند وں کے لئے یہ بہترین عمل ہے۔ مسلمانوں میں کچھ لوگوں کایہ بھی نظریہ ہے کہ سوریہ نمسکار اور اشلوک کے ورد کے ساتھ بھی یوگا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ان کی دلیل ہے کہ جس طرح ایک کافر صدق دل سے لا الہ اللہ محمد الرسول نہیں پڑھتا ہے اس وقت تک وہ مسلمان نہیں ہوسکتا ہے اسی طرح محض ایک رسم نبھانے کے لئے اگر یوگا اصلی شکل میں کیا جائے تو اس سے عقیدہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
آئے ذار جان لیتے ہیں کہ یوگا اصل میں ہے کیا ’’یہ گیان اور دھیان کا ایک طریقہ ہے جس کا مقصد بھگوان کے آگے خود سپردگی ہے۔ سوریہ نمسکار یعنی سورج کی پرستش یوگا کا ایک اہم عنصر ہے۔یوگا بنیادی طورپر یوگ سے نکلا ہوا ایک لفظ ہے جس کے معنی جوڑکے ہیں۔ یوگ کی تاریخ اور پس منظر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت ہندو مذہب میں عبادت کا ایک طریقہ ہے۔بنیادی طورپر ہندوازم کا ایک فلسفہ ہے جس میں آتما (روح) اور پرماتما(بھگوان) اور شریر(جسم) کو مراقبے کے ذریعے ایک ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوگ کا اصل مفہوم بھی ایک دوسرے سے مربوط کرنا ہے۔ یوگ کا پہلا طریقہ بھگوان شنکر نے ایجاد کیا تھا اور دوسرا طریقہ پتانجلی نام کے یوگ گرو نے شروع کیا تھا۔ یوگ ہندووں کے علاوہ بودھ مت کے ماننے والوں میں بھی رائج ہے ۔ لیکن یہ محض ایک ورزش نہیں ہے کیونکہ اس کی مذہبی حیثیت رہی ہے۔ یوگ کے دوران مذہبی اشلوک کی ادائیگی بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ حکومت کے کام کاج میں سادھو سنتوں اور یوگیوں کا عمل دخل بڑھنے کے بعد یوگا کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی ۔ملک کے مختلف مقامات پر یوگا آشرم قائم ہوئے اور حکومت کی طرف سے انہیں امداد مہیا کرائی گئی۔ مودی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والے بابارام دیو یوگا کے سب سے بڑے پیروکار ہیں اور انہیں کی کوششوں سے یوگا کو اقوام متحدہ کی طرف سے عالمی دن منانے کا اعلان کیاگیا ہے۔ جس میں وزیراعظم نریندرمودی نے اہم کردار ادا کیا ہے‘‘۔
ہندوستان میں یوگا کا نفاذ تاریخ کا نازک موڑ ہے ۔مسلم قیادت کی سخت آزمائش کا مرحلہ ہے۔ مسلم رہنماؤں کااتحاد اور ان کے فیصلے میں یکتائی وقت کا اہم تقاضا ہے ۔مسلمانوں کی ان تینوں نمائندہ تنظیم کا اتحاد بے حد ضروری ہے ۔ مسلمانوں کی بھلائی اور کامیابی اسی صورت میں ممکن ہے کہ ملک کے یہ تینوں ادارے اپنے فیصلے میں اتحاد پیدا کریں ۔اپنے نظریہ میں یکسانیت لائیں ۔مسلمانوں کے سامنے یوگا کے سلسلے میں ایک معقول نظریہ پیش کریں کہ آخر انہیں کرنا کیا ہے ۔ یوگا کو کس حیثیت سے لیا جا ئے ۔ 21 جون کو یوگا میں شرکت کی جائے یا اس کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ یوگا کے بہانے اسے ملک میں سیکولرزم کی جگہ ہندو راشٹر کے نفاذ کی جانب اقدام پر محمول کیا جائے ۔ پھر یا مصلحت کے نام پر یوگا کو جائز سمجھا جائے ۔ 
مناسب یہ ہوگا کہ ایک نمائندہ کانفرنس منعقد کرکے تمام مسلک و مشرب کے علماء اور تنظیموں کے سربراہان یہ ایجنڈا طے کریں کہ ایسے مسائل جن کا تعلق ایک طرف مذہب اور عقیدہ سے ہواور دوسری طرف ملکی قوانین سے تو اس پر کوئی ہرکوئی زبان نہ کھولے بلکہ اس کا اختیار کسی ایک تنظیم کے حوالے کیا جائے لئے یا پھرہر ایک کی نمائندگی پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ایک متفقہ فیصلہ کرے تاکہ مسلمانوں کے عقید پر بھی آنچ نہ آئے ملکی قوانین کابھی احترام ملحوظ رہے۔ حکومٹ سے ٹکراؤ کا بھی الزام عائد نہ ہو۔ اس لئے کہ عوام کل بھی متفق تھی اور آج بھی متفق ہے بشرطیکہ ہمارے قائدین اور علماء حضرات متفق ہوجائیں ۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ نے جمعیۃ علماء ہند کاقیام اسی فلسفہ کے پیش نظر کیا تھا کہ اگر علماء یک جہت ہوں گے توسوجہتی ملت بھی کسی نہ کسی طرح ایک ہوجائے گی۔

«
»

اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

مودی کا اسرائیل دورہ ۔قومی مفاد میں یا نظریاتی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے