یس بینک کے صارفین اس وقت زبردست بےچینی کا شکار ہیں، جبکہ کچھ دنوں پہلے تک اس بینک کے صارفین اپنے بینک کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ اور کیوں نہ کرتے کیونکہ یہ وہ بینک تھا جو سب سے زیادہ شرح سود ادا کیا کرتا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ کچھ وقت سے اس بینک کے برے دن شروع ہو چکے تھے کیونکہ یہ بینک نقدی کے بحران سے نبرد آزما تھا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے آر بی آئی نے بینک کے ڈاریکٹریٹر ڈویژن کو ختم کر دیا ہے اور اکاؤنٹ ہولڈرس کے لئے پچاس ہزار روپے نکالنے کی حد مقرر کر دی۔
یس بینک کی جو حالت آج ہوئی ہے اس کے لئے کئی وجوہات ہیں، لیکن اصلی وجہ مالک اشوک کپور کے انتقال کے بعد خاندان میں اندرونی اختلافات شروع ہونا ہے۔ سال 2011 میں اشوک کپور کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ مدھو کی کوشش تھی کہ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرس میں وہ اپنی بیٹی شگون کو لے آئیں لیکن عدالت کا فیصلہ رانا کپور کے حق میں آیا اور پھر ایسا لگا کہ تنازعہ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن اندرونی اختلافات جاری رہے۔ اس درمیان کارپوریٹ گورنینس سے سمجھوتہ کے کچھ معاملہ سامنے آئے اور بینک قرض کی زد میں آ گیا۔ وقت بدلا اور دھیرے دھیرے پرموٹرس نے اپنے حصے بیچنے شروع کر دیئے۔
رانا کپور جو اپنے بینک کے شئیرس کو ہیرا کہا کرتے تھے، ان کو بھی اپنے شئیر بیچنے پڑے اور سال 2019 میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ گروپ میں ان کی حصہ داری گھٹ کر 4.72 رہ گئی اور 3 اکتوبر کو سینئر گروپ پریزیڈنٹ رجت مونگا نے استعفیٰ دے دیا اور گزشتہ سال ستمبر میں اپنی حصہ داری بھی بیچ دی تھی۔
بینک کے ڈوبنے میں سب سے بڑا کردار کارپوریٹ گاہکوں کا ہے کیونکہ یس بینک نے جن کمپنیوں کو قرض دیا وہاں سے قرض واپس ملنے کی گنجائش بہت کم ہے۔ جب سے یہ کمپنیاں ڈوبنے لگیں تب سے بینک کی حالت پتلی ہو گئی۔ واضح رہے کہ بینک کے اوپر 24 ہزار کروڑ کی دین داری ہے اور بینک کے پاس قریب 2 لاکھ کروڑ روپے کی بیلنس شیٹ ہے۔ لیکن زیادہ تر یہ قرضوں کی شکل میں ہے جس کی وجہ سے نقدی کا بحران کھڑ اہو گیا۔ بینک کو کیپٹل بیس بڑھانے کے لئے 2ارب ڈالر چکانے ہوں گے اور اس کے لئے بینک نے اپنا ایک پلان گھریلو پیسہ دینے والوں کو سونپا تھا لیکن ان سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔ جو شئیر اگست 2018 میں 400 روپے کا تھا وہ گھٹ کر 30 روپے تک آ گیا تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ حکومت ریزرو بینک کے ذریعہ یس بینک کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہتی ہے اور اس کے لئے آر بی آئی پہلے بینک کی اقتصادی صورتحال کا جائزہ لے گا اور پھر اس کے بعد کوئی فیصلہ لے گا اور 30 دن میں یہ طے کیا جائے گا کہ اس پرائیویٹ بینک کا کسی دوسرے بینک میں انضمام کیا جائے یا اس کو ٹیک اوور کیا جائے۔
واضح رہے کہ یس بینک زیادہ پرانا نہیں ہے اور سال 2014 میں یہ بینک رانا کپور نے اپنے رشتہ دار اشوک کپور کے ساتھ مل کر شروع کیا تھا۔ لیکن 26/11 کے ممبئی حملہ میں اشوک کپور کی موت ہو گئی تھی اور اس کے بعد سے اشوک کپور کی اہلیہ مدھو کپور اور رانا کپور کے بیچ مالکانہ حق کے لئے لڑائی شروع ہو گئی تھی۔
جواب دیں