یمن کے اس وقت کے صدرعلی عبداﷲصالح چاہتے تھے کہ یمن کے دستورمیں ترمیم کردی جائے جس کے نتیجے میں وہ تاحیات صدر رہیں اور ان کا بیٹا احمدصالح، یمنی افواج کا سپہ سالار اعظم بن جائے۔اگرچہ یہ خواہش بھی فی نفسہ غیرجمہوری وغیراخلاقی تھی لیکن اس وقت تک یمن کی القائدہ کوعالمی سامراج نے دنیاکی سب سے خطرناک ترین القائدہ قراردے دیاتھااور اس پر مستزاد یہ کہ سعوی عرب بھی اپنے پڑوس سے کیسے بے خبر رہ سکتاتھا چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے گلیوں سے نکلنے والی چنگاریوں پر عالمی و پڑوسی طاقتوں نے ’’خلیج تعاون کونسل‘‘ کاتیل چھڑکنا شروع کردیاتاکہ انسانوں کی قتل و غارت گری سے کھیل کے فوائد اپنے حق میں سمیٹے جاسکیں۔تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں صدر علی عبداﷲالصالح سے اختیارات سلب کر کے تو وزیراعظم عبدربہ منصورہادی کو دے دیے گئے،جنہیں بعدمیں 21فروری2012کویک رکنی صدارتی انتخابات میں صدر بھی منتخب کرادیاگیا۔جنوری2014کو اس نئے صدر کی میعادپوری ہونے پر ایک سال مزید کی توسیع کر دی گئی۔ایوان اقتدارمیں یہ من مانیاں اورمصنوعی تبدیلیاں عوام الناس کو مطمئن نہ کرسکیں اور ستمبر2014میں حوثیوں نے یمن کے دارالحکومت ’’صنعا‘‘پرقبضہ کرلیا۔
حوثی تحریک کاآغاز،یمن کے صوبے ’’صعدہ‘‘میں1992میں دو بھایؤں محمدالحوثی اور حسین الحوثی نے کیاتھااور اس تحریک کانام ’’انصاراﷲ‘‘رکھاگیا۔نوجوانوں میں اس تحریک کو بہت پزیرائی ملی اور پندہ سے بیس ہزار نوجوانوں کی کثیر تعداداس تحریک کا حصہ بن گئی۔تحریک کی قیادت نے 1994۱ور1995میں نوجوانوں کی تربیت کے لیے گرمیوں کے دوران ان کے تربیتی ادارے منظم کیے اور انہیں فکری و عملی تربیت دی گئی۔اس تربیت کے دوران نوجوانوں کو فراہم کی گئی کتب میں زیدی مکتب فکرکاغلبہ تھا۔اور محمدحسین فضل اﷲجواردن کے شیعہ عالم دین اورحسن نصراﷲجو شیعہ حزب اﷲملیشیاکے اہم عہدیدار ہیں،ان دونوں نے ان نوجوانوں کے سامنے کثرت سے خطبے دیے۔ابتداََاس تحریک کی فکری بنیادوں میں تجدیدی دینی تصورات شامل تھے لیکن بعدمیں مذکورہ کتب اور علماء کی تقریروں کے باعث زیدی مکتب فکر کی ترویج واشاعت اس تحریک کا مقصد قرارپاگئی۔یہ تحریک چلتی رہی یہاں تک کہ 2003میں جب امریکہ نے عراق پرحملہ کیا تو اس تحریک کے نوجوانوں نے یمن کی مساجد کے باہر جمعہ کی نماز کے بعدامریکہ اور اسرائیل کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی۔اس شدید احتجاج نے یمنی حکومتی اداروں میں بے چینی پیداکردی اور صدرعلی عبداﷲصالح کو رپورٹ پیش کی گئی کہ آج جو لوگ امریکہ کے خلاف ہیں کل کو وہ یمن کے صدر کے بھی خلاف ہو جائیں گے چنانچہ صدر نے حوثیوں کے راہنما حسن الحوثی کو مزاکرات کی دعوت دی لیکن صدر مملکت کو افسوس ہواجب حوثیوں کی طرف سے مزاکرات کاصاف انکار کردیاگیا۔ملکی افواج حرکت میں آئیں اورصرف صنعاء میں حوثیوں کے آٹھ سو حمایتوں کو گرفتارکرلیاگیا۔اس پرحوثیوں نے بغاوت کی دھمکی دی اور حکومت نے ملکی افواج کو حسن الحوثی کو گرفتارکرنے کا کام سونپ دیا۔حالات کی ستم ظریفی کہ اس آنکھ مچولی کے دوران 10ستمبر2004کوحسن الحوثی قتل ہوگیا،حوثیوں نے ہتھیار اٹھا لیے اور ملک میں فسادات پھوٹ پڑے۔یہ فسادات اگلے کئی سالوں تک پوری دنیاکے اخبارات کی زینت بنتے رہے اور یمن میں قتل و غارت گری اور جنگی جرائم اس حد تک بڑھے کہ اقوام متحدہ کو مداخلت کرنی پڑی۔
حوثی بنیادی طورپرامت مسلمہ کے ’’زیدی‘‘مکتب فکرسے تعلق رکھتے ہیں اور زیدی مکتب فکر امت مسلمہ میں اہل تشیع کی ایک شاخ سمجھی جاتی ہے۔لیکن اہل تشیع اور زیدیہ میں بھی اختلافات کی ایک وسیع خلیج حائل ہے اور اہل تشیع کے کل فرقوں میں سے زیدیہ شیعہ اپنے عقائد واعمال کے لحاظ سے اہلسنت سے قریب تر ہیں۔اہل تشیع بارہ ائمہ کومعصومین کو مانتے ہیں لیکن زیدیہ کے نزدیک صرف پنجتن پاک شریف یعنی خاتم الانبیاء ، حضرت فاطمہ ، حضرت علی،حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ہی معصومین ہیں ۔اہل تشیع اور زیدیہ میں امام سجاد(پیدائش702ء)کی امامت تک اتفاق پایاجاتاہے اس کے بعد کے ائمہ ان دونوں گروہوں میں مختلف ہیں چنانچہ زیدیہ شیعہ کے نزدیک امام زین العابدین کے بعد امام محمدباقر کی بجائے ان کے بھائی امام زید بن زین العابدین امام واقع ہوئے ہیں تاہم اہل تشیع کے دیگر ائمہ کااحترام زیدیہ کے ہاں بھی ملحوظ خاطر رکھاجاتاہے۔ائمہ کے اختلاف کے باوجود زیدیہ کے ہاں اثناعشریوں کے عقائدسے اتفاق پایا جاتاہے چنانچہ زیدیہ بھی توحید،نبوت،امامت اور معادکے عقائد رکھتے ہیں۔زیدیہ کے ہاں امام زین العابدین سے منسوب ایک حدیث کی کتاب ’’مسندامام زید‘‘پائی جاتی ہے جسے قرآن مجید کے بعدحدیث نبویﷺ کی مستند ترین کتاب سند کادرجہ حاصل ہے۔جس طرح اثنا عشری شیعوں میں حضرت علی سے منسوب کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘پائی جاتی ہے اسی طرح زیدیوں میں بھی حضرت علی سے ہی منسوب کتاب ’’مجموع الفقہ‘‘پائی جاتی ہے۔زیدی مکتب فکر کے ہاں اصحاب رسولﷺ پر تبرا نہیں کیاجاتااور خلفائے راشدین اور امہات المومنین کا حددرجہ ادب و احترام پایا جاتاہے اورنبی علیہ السلام کے مقدس ساتھیوں پر شب و ستم کو بھی ناجائز سمجھتے ہیں تاہم حضرات امیر معاویہ وطلحہ وزبیر کے بارے میں ان کی کتب میں شدید تحفظات کا اظہارملتاہے۔زیدیہ کے ہاں تقیہ کو بھی جائزنہیں سمجھاجاتااوراہل سنت کی طرح وضومیں پاؤں دھونے کے قائل ہیں اور اہلسنت ہی کی طرح سے سلام پھیرکرنمازکااختتام کرتے ہیں اور نکاح متعہ کو بھی حرام سمجھتے ہیں اور ان کی آذان میں حضرت علی کاذکربھی نہیں ملتا۔زیدیہ علماء کے ہاں امام غیب کا عقیدہ بھی عنقاء ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ قرب قیامت میں امام مہدی علیہ السلام پیداہوں گے اور اپنی حکومت قائم کریں گے۔امام شوکانی ؒ زیدیہ شیعہ کے بڑے مشہور مفسرقرآن گزرے ہیں جن کاادب واحترام اور مستندحوالہ اہلسنت کے ہاں بھی کثرت سے ملتاہے۔
درج بالا مذہبی و سیاسی حالات واضع طورپر بتارہے ہیں کہ یمن میں اقتدار کی جنگ لڑی جارہی ہے جسے باقی دنیاکے سامنے بالعموم اور اسلامی دنیاکے سامنے باالخصوص شیعہ سنی فسادبناکر پیش کیاجارہاہے۔بین ااقوامی شیطانوں کی پوری کوشش ہے کہ یمین و یسار کی قوتوں کو بھی اس آگ کا ایندھن بناکرامت مسلمہ میں اختلاف و انتشارکو خوب ہوادی جائے۔اقوام متحدہ جیساادارہ بھی خون کی ہولی کا تماشہ کرتارہا یہاں تک کہ ستمبر2004تک حوثیوں کے مرکزی راہنماسمیت ایک ہزارحوثی مارے جاچکے تھے۔یہ سلسلہ چلتارہا اور یکم مئی2005 کو یمنی حکومت نے اب تک کے جانی ومالی نقصانات کی ہوشربا رپورٹ بھی شائع کر دی۔رپورٹ کی اشاعت سے مقامی قبائلی سرداروں نے جرگوں اور پنچائیتوں کے ذریعے حوثیوں اور حکومت میں صلح کروائی اور23جون2005کو حوثیون کے راہنما’’عبداﷲالرضمی‘‘نے ہتھیارڈالنے کااعلان کردیا۔لیکن یہ کوشش بعد میں ناکام ہوئی اور اس کے بعد تادم تحریرمقامی و بین الاقوامی سطح پرمتعددمصالحتی کاوشیں کی جاچکی ہیں لیکن نتیجہ کوئی نظر نہیں آتا۔اخباری اطلاعات کی حد تک یہ حقائق سامنے آرہے ہیں کہ ایران نے حوثیوں کی مددکی ہے اور سعودی عرب حوثی قبائل سے لڑنے والوں کی پشت پناہی کررہاہے۔سعودی عرب نے تو کھل کر اس بات کااظہار بھی کیاہے اور دوسرے ملکوں سے بھی مدد مانگی ہے لیکن حوثی قبائل کے کسی ترجمان کی طرف سے ابھی تک کوئی موقف سامنے نہیں آیایا شاید آنے نہیں دیاگیا۔
پہلے طالبان پھرداعش اور اب حوثی اورانکے بعد نہ جانے اور کتنے انہیں جیسے امت کودیکھنے پڑیں گے۔امت کے مقتدرطبقوں کومل بیٹھ کر سوچنا ہوگاکہ آخرجگہ جگہ بغاوتیں کیوں پھوٹ پڑتی ہیں؟؟اور صرف نوجوان ہی ان کا ایندھن کیوں بن جاتے ہیں؟؟اور یہ باغی عناصر بہت جلد دشنوں کے ہاتھ کیوں چڑھ جاتے ہیں؟؟ان تمام مسائل کی جڑ امت کے اکثریتی علاقوں میں سیاسی نظام کی ناکامی ہے ۔اکثرعلاقوں میں تو سیاسی نظام کے نام پرملوکیت نے گردنوں پر انگوٹھے رکھے ہوئے ہیں اور باقی ماندہ مسلمان ممالک میں سیکولرجمہوریت کی لونڈی غیرملکی آقاؤں کاجام مسلمانوں کے عرق رگ جاں سے لبریزکیے رکھتی ہے۔اگرکہیں جمہوری راستوں سے دین دارقیادت ایوان اقتدارتک آن بھی پہنچتی ہے توعسکری طالع آزمااسے پس دیوار زنداں دھکیل دیتے ہیں۔دشمنوں کواپنے سودی کاروباراور اسلحے کی فیکٹریاں چلانے کے لیے سب سے بہترین گاہک مسلمانوں کے حکمرانوں میں میسر ہیں۔امت اورامت کے حکمرانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں سے موجودہ آکاس بیلی سیاسی نظام کے سائے لمبے ہوتے چلے جارہے ہیں،بہت جلدبس ایک ہلکاساغیرمحسوس جھٹکالگے گا اور دنیاحیران ہو جائے گی کہ یہ نظام قائم کیسے تھا؟؟؟؟؟
جواب دیں