یہ تو وقت ہے، آج تیرا تو کل ہمارا ہے !!!

احساس نایاب (شیموگہ، کرناٹک)

ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال بصیرت آن لائن

طویل عرصہ بابری مسجد ملکیت  کی لڑائی لڑنے کے بعد عدالت عظمی کی جانب سے جو فیصلہ سنایا گیا وہ فیصلے کے نام پہ سمجھوتا نکلا …

مسلسل چالیس دنوں کی ڈرامہ بازی کے بعد پانچ ججوں کی بینچ کے ذریعہ اس فیصلہ کم سمجھوتے کو عوام کے آگے اس طرح سے پیش کیا گیا جس سے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ……..

راتوں رات ڈاکہ ڈالنے والے ڈاکوؤں کے حصہ میں ساری 70 ایکر زمین اور اصل حقداروں کے حصہ میں 5 ایکر زمین کی خیرات دے کر بہت بڑا احسان جتایا گیا ……..

جبکہ بروز ہفتہ صبح 10:30 بجے سے تقریبا بارہ بجے تک اس فیصلے پہ ساری دنیا کی نظریں جمی ہوئی تھیں، ہر دل کی دھڑکن تیز، ہر آنکھ فیصلے کی منتظر …. مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتی طبقات و انصاف پسند شخصیات سبھی کا ماننا تھا کہ اب کی بار جو فیصلہ سنایا جائے گا وہ تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا کیونکہ سپریم کورٹ کی جانب سے جس طرح کی باتیں کی جارہی تھی کہ فیصلے ثبوتوں، دلائل و  شواہد کی بنا پر سُنایا جائے گا نہ کہ آستھا کے نام پر  ……

لیکن افسوس کھودا پہاڑ نکلا چوہا والا معاملہ ہوگیا، جو تاریخ دان سنہرے حروف میں تاریخ لکھنے کے منتظر تھے اُنہیں خود اپنے ہاتھوں سے سیاہ تاریخ لکھنی پڑی جو رہتی دنیا تک آنے والی نسلیں پڑھیں گی، اور قانونی کتاب کی عظمت پہ سوال اٹھائے گی ……. اور یہ یاد رہے گا کہ کس طرح طاقت و رسوخ کے بل پہ قانون کو بھی داغدار کیا گیا  ……. ایک جمہوری ملک میں کس قدر تاناشاہی عروج پہ رہی، کس طرح سے ناانصافیوں کا دور چلا اور سرکار کے آگے قانون کس قدر بےبس و مفلوج بنا …….. اور کس طرح ہمارے بیچ ایک تھالی میں کھانے والوں نے میر صادق کا کردار ادا کیا ……..

ہر وہ چیز اور ہر وہ بات ہر وہ عمل درج ہوگا جو آج ایک عام انسان کی نظروں سے اوجھل ہے …… اُس وقت ساری دنیا دیکھے گی، اپنوں سے لے کر غیروں تک یہ سچائی پہنچے گی کہ کیسے بند لفافہ پہنچے، کیسے بند کمروں میں معاہدہ طئے پائے، کیسے کسی نے بھاگوت سے ملاقات کی تو کسی نے امیت شاہ سے دل لگایا تو کسی نے شری شری اور یوگی سے ہاتھ ملایا ……

بس صبر کیجئیے ……. اُس وقت تک جب آسمانی لاٹھی ان ظالموں پہ برسائی جائے گی …… 

 

لیکن حالات، ظلم زیادتیوں و ناانصافیوں کے چلتے کبھی خوفزدہ، مایوس نہ ہوں اور ناامید نہ ہوں .

یہ سبھی  تو محض دنیاوی فرعون ہیں …… اور ایسے ناجانے کتنے آئے کتنے گئے اسلام کا بول بالا کل بھی تھا، آج بھی ہے اور تاقیامت رہے گا ان شاءاللہ…….

 

آج بھلے اللہ کے گھر کو بچانے ابابیل نہ آئے ہوں، آج بیشک اتنی بڑی ناانصافی کے باوجود ہر طرف خاموشی و سناٹا پسرا ہے لیکن یاد رہے اس خاموشی، اس سناٹے میں عنقریب آنے والے خوفناک طوفان کی آہٹ چھُپی ہے اور ان شاءاللہ وہ دن ضرور آئے گا جب ابابیل کا لشکر بھی آئے گا، لنگڑے مچھر کا وار بھی ہوگا.

 بھلے کسی اور شکل میں ہی سہی،کسی اور طریقے سے ہی سہی ….. لیکن اللہ کی مار ضرور پڑے گی اور ہر فرعون غرق ہوگا، ہر نمرود کا دن آخری ہوگا ……..

 

کیونکہ آج  جو صبر کے گھونٹ پی رہے ہیں اپنے جذبات  ضبط کررہے ہیں ان شاءاللہ بہت جلد وہ تمام صبر کے پیمانے لبریز ہونگے، ضبط کا ہر باندھ ٹوٹے گا اور وہی ہوگا جو رب چاہے گا، ساری کائنات میں ایک اسلام کا بول بالا ہر جھوٹے کا منہ کالا ہوگا ………

 

آج بیشک ظالم کو چھوٹ ملی ہے لیکن جس دن اللہ اپنی رسی کھینچیں گے، اُس دن ان خبیثوں کو نہ زمین میسر ہوگی نہ آسمان اپنے آغوش میں لے گا ……….. برعکس فرعون کی طرح رہتی دنیا تک ہر ظالم کا انجام عبرت کا مقام بنے گا ………

 

اور ان کا ساتھ دینے والے آستین کے سانپ، مردود کے چیلے، منافقوں کی فہرست میں شامل کئے جائینگے، پھر اُن کا حشر میر صادق سا ہوگا جو اپنے ہی آقاؤں کے ہاتھوں کیفرکردار تک پہنچایا گیا تھا اور آج بھی اُس کی قبر پہ گالیوں کے نذرانے چڑھتے ہیں، جوتیوں کے پھول برستے ہیں، چلتے پھرتے ہر انسان اُس کی قبر پہ تھوکتا ہے اور دن رات وہاں پر لعنت برستی ہے …..

 

اللہ نہ کریں کل کو میر صادق سا حشر کسی اور کا ہو، اللہ نہ کریں ان کے قبروں سے منحوسیت ٹپکے …..

 

ابھی بھی وقت ہے سنبھل جائیں، دنیا پرستی سے اپنے دلوں کو آزاد کرالیں . ورنہ اسلام کا سودا، اللہ کے گھر کا سودا بڑا مہنگا پڑے گا اور غیر تو غیر ہے آپ کی آنے والی نسلیں بھی آپ پہ لعنت بھیجیں گی ……

 

فانی دنیا کی چاہت، علم و حکمت کے تکبر اور انا پرستی میں اتنے نہ کھو جائیں کہ اپنی آخرت اپنے ہی ہاتھوں تباہ ہوجائے ……

 

دیکھیں ! اُمت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ آج غمزدہ، پریشان، فکرمند ہے، بابری مسجد کو کھونے کے غم سے نڈھال ہوا جارہا ہے، مچھلی بن پانی کی مانند تڑپ رہا ہے ……  ان کے اس درد اس اذیت و کرب کو خدا بھی دیکھ رہا ہے اور فرشتے ان کے حال پہ بارگاہ الہی میں فریاد کررہے ہیں، بس ایک کُن کی دیری ہے پھر ان شاءاللہ ہر دعا رنگ لائے گی ہر ظلم کا خاتمہ ہوگا ہر ظالم اپنی میت پر آپ آنسو بہائے گا ….

 

اس لئے اُس وقت کی آمد سے پہلے خود سنبھل جائیں، کفار و مشرکین کے بہکاوے یا خوف سے اُن کے آگے اپنے گھٹنے نہ ٹیکیں، اپنے ایمان کا سودا ہرگز نہ کریں ……

بیشک آپ اہل علم ہیں، لاکھوں دلوں میں بستے ہیں، معصوم مسلمان آپ کی شخصیت کا احترام کرتے ہیں، آپ کے آگے عقیدت کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، اُن معصوموں کے احترام اُن کی عقیدت، اُن کے یقین اُن کو مفاد کے پیروں تلے نہ روندیں، دلوں میں بس کر ان کے دلوں کو  چھلنی، ان کے زخمون پہ نمک نہ چھڑکیں ….. 

 

کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے خود یہود و کفار بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ کیسے انصاف کی موت ہوئی ہے، جمہوریت کا جنازہ سرعام اٹھایا گیا ہے ….. آپ خود کو اُن کی نظروں میں تو نہ گرائیں ……… بیشک پیٹھ پیچھے وہ بھی آپ کو قوم فروش کہتے ہوں گے ….. آپ لاکھ مسلمانوں کی قیادت کا دم بھر رہے ہیں لیکن کبھی یہ تو جاننے کی کوشش کریں کہ آخر کون سا مسلمان آپ کو قائد مانتا ہے ؟؟؟؟؟

قائد تو وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کے جذبات سمجھیں، ہر مشکل وقت میں ڈھال و تلوار بن کر چمکیں، جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر  شیر کی طرح گرجے اور اپنی قوم کو ہمت طاقت حوصلہ دے، نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے اُن کے حوصلے بلند کریں، لیکن افسوس آپ حضرات نے تو صبر و حکمت کے نام پہ نوجوانوں کو بزدل بنا دیا ہے جو آج میلاد کے نام پہ ٹھمکے تو لگاسکتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو تھپڑ بھی نہیں لگاسکتے ……

 

سمجھ نہیں آتا آخر یہ امن و امان، بھائ چارگی و اتحاد کو برقرار رکھنے کی ٹھیکے داری ہمارے ہی حضرات نے کیوں اپنے ذمہ لی ہے …..

جو کبھی نجیب، جنید، تبریز، افرزول کی حمایت انہیں انصاف دلانے کی خاطر آگے نہیں آئے وہ اچانک امن و امان کی اپیل کرتے ہوئے کس دنیا سے ٹپک پڑتے ہیں  ……

کیا مظلوم مسلمانون کے لئے ان کی کوئی ذمہ ذاری نہیں جو یہ سرکار کی حمایت کرتے ہوئے جنیوا تک پہنچ جاتے ہیں …… یا خیرات میں دی گئی 5 ایکڑ کی زمین پہ سہانے خواب بنتے ہوئے یوگی کی چوکھٹ پہ پہنچ جاتے ہیں، وہ یوگی جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون میں رنگے ہیں، جس کے ساتھیوں نے مسلم خواتین کو قبروں سے نکال کر بے حرمتی کرنے کی بات کہی تھی، آخر یہ مفاد جہاں سے کاہن جہاں لے کر جائے گا ؟

 

جو تھوکی ہوئی زمین پہ مدد کی بھیک مانگ کر مسجد و یونیورسٹی بنانا چاہ رہے ہیں ….. اس سے ہماری آنے والی نسلوں کو تعلیم تو مل سکتی ہے لیکن حقیقی علم سے دور ہوجائینگے، اپنے اندر سے غیرت وحمیت کو دفن کردینگے …. اور اللہ نہ کریے آگے چل کر وہاں سے ضمیر فروشی کا دھندا شروع ہوجائے ….. کیونکہ بھیک کی روٹی ہو یا علم کبھی انسان کو خوددار، غیرت مند نہیں بناسکتی.. . بھلے پیڑ کے نیچے عبادت کرلیں، علم حاصل کریں لیکن خیرات کی زمین پہ ہرگز نہیں. 

 

جب 15 کروڑ مسلمان حقدار ہونے کے باوجود اپنے حق کی قربانی دی ہے تو اس چھوٹے سے ٹکڑے کی آس کیوں ؟

وہ بھی کیوں اں کے منہ پہ نہیں دے مارتے، بیچارے رام کے بغل میں ایک سیتا مندر بھی بنالینگے …..

 

یہاں یہ بھی یاد رکھیں! مسلمانوں نے دل پہ پتھر رکھ کر ہر زخم کو برداشت ضرور کیا ہے 

لیکن ہم کچھ بھی نہیں بھولے ہیں، نہ رات کی تاریکی میں چوروں کی طرح چھپ کر رکھی گئ مورتیاں، نہ مسجد کے گُنبد پہ پڑا ہتھوڑا … آج بھی یاد کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے  کہ ہر ہتھوڑا ہر وار سینہ پہ لگ رہا ہے، ہر زخم تازہ ہوجاتا ہے دل خون کے آنسو روتا ہے، 

وہی آہیں وہی سسکیاں اور بےگناہ مسلمانوں کی ہر وہ شہادت آنکھوں میں لہو بن کر اُترتی ہے جو اللہ کے گھر کو بچانے اُس کو انصاف دلانے کی خاطر ہوئی تھیں …

 

ان شاءاللہ  وہ شہادتیں کبھی ضائع  نہیں ہونگی ، خون کے ہر قطرہ کا انصاف ہوگا، ہر قربانی پہ اجر ملے گا ….

اور ان شاءاللہ ایک دن مسلمان اپنا حق حاصل کرکے رہینگے ….

آج بھلے مسلمان ظاہری خاموش اور مطمئن نظر آرہے ہیں، لیکن اس خاموشی کو ہماری کمزوری سمجھنے کی بھول ہرگز نہ کیجئیے، کیونکہ آج مسلمانوں نے اپنا فیصلہ اللہ کے سپرد کردیا ہے خود کو اللہ تعالی کے حوالے کردیا ہے ….

 

ویسے بھی یہ دنیاوی فیصلے ہیں، کوئی آسمانی فیصلہ نہیں جو ہم مایوس ہوجائیں، خودسپردگی کردیں …..

 

ہمارے نزدیک آخری فیصلہ تو وہ ہوگا جو بارگاہ الہی سے ہوگا …

اس لئے ہم مسلمانوں کے لئے بابری مسجد کل بھی مسجد تھی آج بھی مسجد ہے اور رہتی دنیا تک مسجد ہی رہے گی ….

تم جتنا ہم سے ہماری مساجد چھیننے کی کوشش کرو ان شاءاللہ ایک کی جگہ 100 مساجد آباد ہوں گی وہ بھی تمہارے ہی ہاتھوں سے آباد کی جائینگی ……

ویسے بھی اینٹ دیوار سے بنی مسجد کو گراکر تم اپنی فتح کا اعلان کرنے سے کبھی کامیاب نہیں ہوجاؤگے 

جب تک ہندوستاں میں 20 کروڑ مسلمان موجود ہیں ہر دل میں مسجد آباد ہے، اگر ہمت ہے تو ہمارے دلوں میں بسی مساجد کو ہم سے چھین کر دکھاؤ ……

 

آرتیوں و گھنٹیوں کے شور نے تمہاری عقلوں پہ تالا ڈال دیا ہے جو تم عارضی فیصلے کو اپنی جیت سمجھ کر جشن منارہے ہو، ان شاءاللہ عنقریب یہی جیت تمہاری شکست کی وجہ بنے گی

«
»

ساگ میں صحت

مسلم بچوں کی تعلیم اور کیریر سازی میں مدارس کا کردار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے