️ ابو ایوب ،ممبئی
میں آفس جاتے ہوئے اکثر پیدل ہی جاتا تھا۔ اسٹیشن سے آفس تک کا فاصلہ یوں تو بہت زیادہ نہ تھا، لیکن ذہنی دباؤ خوامخواہ بڑھ جاتا تھا۔ اس کی وجہ فاصلہ کم مگر گاڑیوں کی آمد و رفت اور بھکاریوں کی تعداد زیادہ تھی۔ راستے میں آنے والے اسپتال کے ارد گرد سڑک کے دونوں کنارے پر کم و بیش آٹھ دس بھکاری بلا مبالغہ صبح تڑکے سے موجود ہوتے تھے، اور ان کا حلیہ دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے۔
ان ہی بھکاریوں میں وہ ایک مرد بھی تھا جس کا پیر ہیبت ناک حد تک بگڑا ہوا تھا، جہاں جا بجا کھروچوں اور جلنے کے نشانات تھے۔ اس کے پاس سے شاید شدید بو بھی آتی تھی، لوگ منہ پر رومال رکھ کر گزرتے ہوئے اسے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے تھے۔ وہ روز اپنے مقررہ مقام پر بیٹھا نظر آتا تھا۔ آج جب میں وہاں سے گزرا تو وہ مجھے گھٹنوں میں سر دیئے اپنے ہلتے وجود کے ساتھ روتا محسوس ہوا۔
مجھے اپنے پاؤں پر دباؤ بڑھتا محسوس ہوا، جو اس احساس کے زیراثر تھاکہ اس نفسانفسی کے دور میں کسی سے ہمدردی کے دو بول بولنابھی ایک نیکی ہے۔ میں رک کر اسی انسانی ہمدردی کے پیش نظر اس کے پاس فاصلے سے بیٹھ گیا۔ لوگ مجھے عجیب شکی اور حقیر نظروں سے دیکھ کر گزر رہے تھے، مگر میں نے ان کی نظروں کی پرواہ کیے بغیر اس سے پوچھا’’کیا ہوا بھائی، کیوں رو رہے ہو؟‘‘ اس نے جھکے سر سے ہی جواب دیا ’’کچھ نہیں جی‘‘۔ میں نے پھر پوچھا ’’کچھ مدد چاہیے؟‘‘ تو آواز آئی ’’نہیں‘‘۔
میں حیران ہوا کہ مدد بھی نہیں چاہیے، نہ کوئی مسئلہ ہے تو یہاں اس حلیے کے ساتھ کیوں بیٹھا ہے؟
میں نے پھر پوچھا ’’بھائی آپ کیوں رو رہے ہیں، مجھے بتائیں، ہوسکتا ہے میں کچھ کام آسکوں‘‘۔ اس نے طنزیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے تمسخرانہ انداز میں کہا ’’میاں اپنا رستہ لو، بھلا تم مجھ بھکاری کو اس خودغرض معاشرے میں باعزت مقام دلا سکتے ہو؟‘‘ میں اس بھکاری کے اتنے بلیغ اور غیر متوقع سوال پر گڑبڑا گیا، اور اس کے اندازِ گفتگو پر حیرانی کے ساتھ جھجھکتے ہوئے گویا ہوا ’’آپ مجھے کچھ بتائیں گے تو ہی کچھ کرسکوں گا نا۔‘‘
وہ بھکاری ہنوز استغراقی کیفیت میں بیٹھا رہا، پھر آہستہ آواز میں گویا ہوا ’’کیا تم میری باتوں پر یقین کرلو گے؟‘‘
میں نے کہا ’’آپ بتائیں تو سہی، جس حد تک ممکن ہوا آپ کی مدد کروںگا۔‘‘
میں تجسس میں وہیں بیٹھ گیا کہ آفس تو روز جاتے ہی ہیں، آج اس بھکاری کے بھیس میں چھپی ہستی کی کھوج لگائی جائے۔
میں اس کے انداز سے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ بھکاری یا تو پہنچا ہوا فقیر ہے، یا کوئی بہت بڑا ڈراما…‘‘
اس نے مجھے اپنے قریب پا کر دبی آواز میں گویا ہوا کہ اس ملک میں میری پیدائش آزادی کے کچھ پہلے کی ہے۔البتہ میرے اجداد نے آزادیء ہند میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا‘‘۔ میں نے اچنبھے سے بغور اس کی طرف دیکھاکہ شاید دماغی خلل کے کچھ اثرات نظر آجائیں، لیکن اس کا حلیہ، عمر اور اندازِ گفتگو کہیں سے اس کی چغلی کھاتا محسوس نہ ہوا۔ ’’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے نہیں پتہ تھاکہ آزادیء ہند کے کچھ عرصے بعد ہمیں اپنے ہی ملک اور قومی اداروں سے بے دخل کردیا جائے گا۔ مولوی عبدالحق کو مجھ سے بہت محبت تھی۔ میں نے ان کے ساتھ بہت کام کیا، لیکن ان کے بعد غیر محسوس طریقے سے میں اور میرے سب اہلِ خانہ اس قوم کی نظر میں مجرم سے ٹھہر گئے۔‘‘
میں نے ایک بار پھر بھکاری پر نظریں گاڑ دیں کہ شاید مخبوط الحواسی کے کچھ آثار اس کے چہرے پر نظر آجائیں۔ لیکن اس کی آنکھیں گہری اور سنجیدہ تھیں۔ شاید جنگ آزادی کے وقت بھائی کا خاندان ختم ہوگیا ہوگا، جس کے صدمے نے بھائی کو نیم پاگل کردیا ہے۔ میں نے اس کی عمر کا حساب لگاتے ہوئے پھر سوچا، لیکن یہ نہ پوچھ سکا کہ آزادیء ہند سے کتنے سال پہلے وہ پیدا ہوئی ہوگی۔ اس لیے کچھ پوچھنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اس کی باتیں سننے پر توجہ مرکوز رکھی۔
’’بس بیٹا! اب تو ہم ہر جگہ سے دھتکار دیے گئے ہیں۔ مجھے نہیں پتا میرے ساتھی کہاں اور کس حال میں ہیں۔‘‘
آپ تو خاصے پڑھے لکھے لگ رہے ہیں۔کسی چھوٹے موٹے اسکول میں ہی ملازمت مل سکتی تھی آپ کو، بھلا بھکاری بننے کی کیا ضرورت تھی! ویسے بھی اب تو پرائیویٹ اسکول بھی کھل گئے ہیں۔‘‘ میں اس کے اندازِ گفتگو سے جہاں تھوڑا متاثر ہورہا تھا، وہیں کچھ محتاط بھی ہوگیا کہ پتا نہیں وہ بھکاری کے روپ میں کون ہو!
’’پڑھا لکھا‘‘ اس نے تمسخرانہ انداز میں میرے الفاظ دہرائے اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ’’وہی لوگ تو زیادہ دھتکارتے ہیں۔ سب انجان نظروں سے دیکھتے ہیں۔ جب تک مطلب نکل رہا ہوتا ہے استعمال کرتے ہیں، پھر ٹشو پیپر کی طرح ہاتھ صاف کرکے پھینک دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ اب تو اپنے گھر میں ہی بچے گھر سے نکالنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ کہنے کو سب میرے ہیں، مگر پوچھتا کوئی نہیں۔ کتنے وقت کے فاقے سے ہوں، لباس سے کیسی بساند آرہی ہے، کسی کو کوئی مطلب نہیں۔ بس ناک پہ رومال رکھ کر فاصلے سے ہی ملتے ہیں۔ زندہ رہوں نہ رہوں، کسی کو کیا! نہ دوست، نہ ہمدم کوئی‘‘۔ اپنے ساتھیوں کو یاد کرکے بھکاری پھر ہچکیوں سے رونے لگا۔
میں نے بھکاری کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ مجھے اپنے دوست احباب میں سے کسی کا نام بتائیں۔ اگر آپ کی خدمات قومی سطح پر جانی جاتی ہیں تو کوئی نہ کوئی تو ایسا مخلص مل ہی جائے گا جسے آپ کے ساتھیوں کا پتا ہوگا۔‘‘
’’بیٹا جانتے تو تم بھی ہو گے، بس ہم سب کو ایک جگہ ملا دو‘‘، وہ بچوں کی طرح مچلنے لگا۔
میں اتنی بڑی ذمہ داری لینے پر ہچکچاتے ہوئے اس کے چہرے پر پھر پاگل پن کے آثار ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا، مگر دور دور تک اس کے آثار نظر نہ آئے تو کہا ’’بھائی! میں تو ایک عام سا شہری ہوں جو اپنے حصے کی ذمہ داری بھی ایمان داری سے پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے وعدہ تو نہیں کرسکتا البتہ پوری کوشش کروں گا‘‘۔ اس نے دکھ سے مسکراتے ہوئے کہا ’’سب یہی کہتے ہیں، مگر تم پہلے شخص ہو جس میں مجھے کچھ انسانیت نظر آئی ہے۔‘‘
میں نے افسردگی سے اُس کے حلیے اور بگڑے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا ’’آپ مجھے کسی اچھے خاندان کے لگتے ہیں، اتنی صاف اردو بولتے میں نے پہلا بھکاری دیکھا ہے‘‘۔ میں واقعی اس بھکاری سے بہت متاثر ہوگیا تھا۔ وہ مسکرایا تو مجھے اُس کی آنکھوں میں عجیب وحشت نظر آئی۔ کہنے لگا ’’بیٹا کیا تم مجھے، یعنی اپنی مادری زبان اردو کو نہیں جانتے؟‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا، تو خود کو اسکول کے سامنے سے گزرتا ہوا پایا۔ بھکاری تو بہت پیچھے رہ گئے تھے، مگر میرا ذہن ہمیشہ کی طرح بھکاریوں اور اپنی مادری زبان کا تقابلی جائزہ لینے میں کھو جاتا ہے جب سے میری بیٹی کو اپنے ہی ملک کے اسکول میں اردو بولنے پر شرمندہ کرنے کے لیے ’’اردو میڈیم‘‘ کا بورڈ لگاکر سزا کے طور پر پورے اسکول کے گراؤنڈ کا چکر لگوایا گیا تھا۔
حقیقت یہی ہے کہ میری مادری زبان اردو آج سب سے زیادہ مفلوک الحال ہے۔ ایک طرف تو اسکولوں میں انگلش پہ زور ہے اور اردو بولنے والا شرمندگی کا شکار ہے، تو دوسری طرف گھروں میں ہندی زبان و تہذیب بچوں میں ہندوستانی ہونے کی شناخت ختم کررہی ہے۔ میرے کانوں میں گلی میں کھیلنے والے بچوں کی آوازیں گونجنے لگیں، جو آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے ہوتے ہیں ’’اماں ابا کی پتنی ہیں، مجھے وشواس نہیں ہوتا‘‘۔ تو آگے سے دوسرا بچہ کہتا ہے ’’میں تمھاری بات سے پوری طرح سہمت ہوں‘‘۔ اور خواتین آپس میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتی ہیں ’’آج کل بچوں کے وچار بگڑتے جارہے ہیں‘‘۔ مرے پہ سو درے یہ کہ کورونا وائرس کی طرح رومن اردو نے اب اردو رسم الخط کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔۔ آئے دن ہم اس کی طرف سے غفلت کے شکار ہیں۔۔ اب یہ سوچتا ہوں کہ شناخت یہ بھی اگر کھو دی تو کدھر جائیں گے؟
جواب دیں